گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
گزشتہ سال کرونا کی وبا کی وجہ سے پوری دنیا کی اقتصادیات تباہ ہوئی ہر شعبہ زوال کا شکار رہا مہنگائی نے نئے رنگ دکھاے مگر پاکستان کے زراعت کے شعبے نے کووڈ 19 اور مکڑی کے حملے کے باوجود بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس کیلیے ہمارے کسان خراج تحسین کے مستحق ہیں۔
گزشتہ سال زراعت کی گروتھ 2.67 فیصد رہی جبکہ اس سے پچھلے سال یہ 0.858 فیصد تھی ۔ اگر یہ دو مصیبتیں نازل نہ ہوتیں تو زرعی پیداوار ڈبل بھی ہو سکتی تھی۔ مکڑی کا حملہ پاکستان میں ہوا اور ڈیرہ اسماعیل خان بھی بہت متاثر ہوا لیکن ہمارے کسان اور زرعی کارکن اس کے مقابلے میں ڈٹ گیے اور زراعت کو تباہی سے بچا لیا ۔ مجھے یاد ہے جب مکڑی کا شدید حملہ جاری تھا تو میں اپنے دوست سعداللہ خان بابڑ کو چودھوان فون کرتا تو وہ کھیتوں میں مکڑی بھگانے کے لیے دوڑ رہے ہوتے۔
جب بات کرتے تو ساک رہے ہوتے اور سانس پھولا ہوتا ۔۔شور مچانے کی وجہ سے آواز بھی بیٹھ گئی مگر ان لوگوں نے اس ظالم مکڑی کا مقابلہ جنگ کی طرح کیا اور اللہ کی مدد سے فصل بچا لی۔ دامان کے کسان بمع بال بچوں کے ڈبوں اور ڈھول بجا بجا کر شام تک کھیتوں میں بھاگتے رہتے اور شام کو تھک ترٹ کے گھر آتے اور صبح پھر فصل پر پہنچ جاتے۔
ادھر ہمارے زراعت کے کارکن آدھی رات کو ڈیرہ شھر سے دامان کا رخ کرتے اور سورج نکلنے سے پہلے سپرے شروع کرتے اور مکڑی کے جھنڈ کے جھنڈ جو درختوں پر بیٹھے ہوتے مار دیتے۔ زراعت کے افسر امان اللہ خان اور فیلڈ پر موجود بشیر سیماب صاحب مجھے روزانہ فون پر پراگرس اور تصویریں بھیجتے جو اخبار میں شائع ہوتیں۔
حکومت نے خرابی بسیار کے بعد یہاں سپرے گاڑیاں اور ماہر بھیجے اور وہ جان توڑ کر لڑتے بھی رہے کامیاب بھی ہوئےلیکن اس معاملے میں حکومت کی سستی اور کاہلی نے بہت نقصان کیا۔ مکڑی کے جھنڈ افریکہ سے سعودی عرب پھر ایران انڈیا اور بلوچستان کے صحرا میں آیے ہمیں پتہ بھی تھا ہم نے بروقت جا کر ان کو ختم نہیں کیا اور جب فصلوں پر حملہ آور ہوئے تو حکومت جاگی جس سے کافی نقصان ہو گیا۔ گندم اور چینی کا بحران بھی حکومت کی غلط ایکسپورٹ /امپورٹ کی پالیسی سے ہوا ورنہ حکومت کو شرمندگی نہ اٹھانا پڑتی۔
کسان سے تقریباً چار ہزار میں بوری خریدی گئی اور پھر کسان نے خود چھ سات ہزار روپے واپس آٹا خریدا۔۔ گنے میں بھی کسان کو رلایا گیا اور ملوں نے کم قیمت دی اور چینی کا ریٹ ڈبل سے زیادہ ہو گیا۔ لگتا ہے چینی مافیا پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں اور کسانوں کو امداد دینے سے حکومت گریز کرتی ہے۔ کھانے کا تیل 640 ارب روپے کا ملائشیا اور دوسرے ملکوں سے لیا مگر مقامی کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی گویا حکومت غیر ملکی کسانوں کی امداد جاری رکھے ہویے ہے۔
اس سال کپاس کی پیداوار میں بہت کمی واقع ہوئی اور اب کپاس باہر سے منگوائی جا رہی ہے کیونکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بہت آرڈر ملے ہیں اور یہ صنعت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ کپاس کی پیداوار میں کمی کی اصل وجہ بیج کی کمزور کوالٹی ہے۔دوسرے ملک اور انڈیا سکستھ جنریشن بیج استعمال کر رہے ہیں اور ہم پہلی پہ کھڑے ہیں اور کوئی ریسرچ نہیں۔
زراعت کی اچھی کارکردگی پر میں شیر دل کسانوں اور زرعی کارکنوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یاد رکھیں کووڈ 19 میں تمام شعبے تباہ ہو جائیں لیکن اگر زراعت بچ جاے تو ہماری بقا کے امکانات روشن ہیں حکومت کو اس شعبے پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور رودکوہی نظام پر فوراً ڈیم بناے جائیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر