۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ پورا سچ نہیںکہ’’سیاست دانوں نے ملک کو اس حالت تک پہنچایا ہے‘‘مگر ملک کی خوشحالی و ترقی کی بڑی ذمہ داری سیاست دانوں پر پڑتی ہے۔سیاست دانوں نے اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی،اس کوتاہی کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔سارا معاملہ ’’مداخلت‘‘کا نہیں۔
ایک طبقہ کا خیال ہے کہ ’’مداخلت‘‘کا معاملہ بھی سیاست دانوں کی غیرسنجیدگی اور غیر ذمہ داری کے روّیے کی بدولت پیدا ہوا۔یوں ایک بالغ نظر طبقہ ساری ذمہ داری سیاست دانوں پر ڈالتا ہے۔تاہم ملکی مسائل اور ابتری کی ذمہ داری سب سے بڑے ’’حصہ دار‘‘پر پڑتی ہے۔
یہ ’’حصہ دار‘‘طبقہ ،سیاست دانوں کاہی ہے۔یہ ملک کئی پیچیدہ اور گمبھیر مسائل میں پھنس چکا ہے،دولت اور وسائل کی تقسیم غیر منصفانہ ہے تو مذہبی و سماجی تعصبات کا عالم یہ ہے کہ ہر کوئی ایک دوسرے سے خوف زَدہ ہے۔سماجی سطح پر قاتل سے محبت پیدا ہوچکی ہے اور مقتولین موردِ الزام ٹھہرائے جاتے ہیں۔
اسلام آباد میں ایک بائیس برس کے بچے کو لگ بھگ اَٹھارہ بیس گولیوں کا نشانہ بنادیا گیا اور نشانہ بنانے والے پولیس کا ایک آدھ اہلکار نہیں کئی تھے۔کسی ایک اہلکار نے بھی بھاگتی گاڑی کے ٹائرز پر گولی نہ چلائی۔
یہ اہلکار تھوڑابہت پڑھے لکھے ہوتے ہیں ،سماجی سطح پر اِن کا پڑھے لکھے اور باشعور لوگوں سے ملنا جلنا بھی رہتا ہے ،یہ لوگ خاندان سمیت اپنا ایک حلقہ بھی رکھتے ہیں ،پولیس میں بھرتی ہوتے وقت ادارہ جاتی پراسس سے گزرتے ہیں ،ٹیسٹ اور انٹرویو پاس کرتے ہیں ،ٹریننگ کا عمل بھی پوراکرتے ہیں ،اس سب کے باوجود اِن کا عمل یہ ہے کہ مجرم اور غیر مجرم میں فرق نہیں کرسکتے ،
کسی معمولی سے واقعہ کو بھی ہینڈل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے اور بھاگتی گاڑی کو قابو نہیں کرسکتے ،جب ایسے لوگوں کی یہ حالت ہے تو ملک کے عام لوگوں کی کیا حالت ہوگی۔جو کیڑے مکوڑوں سے بھی گئے گزرے طریقے سے زندگی بسر کرتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ ایک پڑھا لکھا آدمی ایسے گئے گزرے لوگوں کے ہاتھوں مارا جارہا ہے۔
اس طرح کے واقعات روز ہورہے ہیں ،کبھی یہ واقعہ بینک منیجر کے ساتھ پیش آجاتا ہے کہ بینک کا سکیورٹی گارڈ گولی ماردیتا ہے ،کبھی لوگوں کا ہجوم کسی عبادت گاہ پر چڑھ دوڑتا ہے اور مسمار کردیتا ہے اور کبھی مزدورکان کنوں کے سرتن سے جد اکر دیئے جاتے ہیں۔ یہ ملک جو پیچیدہ اور گمبھیر مسائل میں پھنس چکا ہے ،
اس کی ذمہ داری سیاست دانوں پر سب سے زیادہ پڑتی ہے۔سیاسی پارٹیوں نے اپنے آپ کو سیاسی جمہوری پارٹیاں ثابت کرنے میں ہمیشہ مایوس کیا ہے۔یہ اپنے تئیں بھی جمہوری اقدار کو فروغ نہ دے پائیں اور سماجی سطح پر بھی جمہوری کلچر کو پنپنے میں بڑا کرداراداکرنے سے محروم رہی ہیں۔پی ایم ایل این جو ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے اور سول سپرمیسی کا نعرہ بلند کرتی ہے ،
لیکن یہ عملی طورپر سول سپر میسی کی اقدار کو ووٹرز تک منتقل کرنے میں یکسر ناکام رہی ہے۔پاکستان پیپلزپارٹی جو عام آدمی کی پارٹی خود کو کہتی ہے ،لیکن یہ اپنے اقتدار میں پچاس برس کے نعر ہ ’’روٹی ،کپڑا اور مکان‘‘کو تعبیرنہ دے پائی ۔پاکستان تحریک انصاف ،جو خود کو انصاف پر مبنی پارٹی کہتی ہے یہ سماجی سطح پر انصاف کا کلچر پیدا نہ کرسکی۔
وزیرِ اعظم عمران خان ہاتھ میں تسبیح رکھتے ہیں لیکن لوگوں کو گلے لگانے سے یوں ہچکچاتے ہیں ،جیسے لوگوں سے اِن کو بُو آتی ہو۔یہ ٹی وی پر آئے روز انٹرویو دیتے ہیں ،لیکن عملی طورپر کام کرنے سے پہلو تہی کرتے ہیں۔،
اگر وزیرِ اعظم یہ سمجھتے ہیں کہ قوم بھی مطمئن ہوچکی ہے تو یہ بھول ہے۔قوم کا اطمینان کرپشن کے نعروں میں نہیں پڑا ہوا، روزگار، عزت، تحفظ اور شناخت میں پڑاہوا ہے۔ یہ وقت سیاست دانوں اور بالخصوص پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتوں کے لیے اہمیت کا حامل ہے ۔
یہ فیصلے کا وقت ہے۔اِن جماعتوں کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ یہ اسی طرح بے مقصد لانگ مارچ کرتی رہیں گی یا کوئی قومی ایجنڈا ترتیب دیں گی۔یہ واضح ہے کہ پی ڈی ایم کا موجودہ احتجاج اِن کے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ہے ،نہ کہ اس احتجاج میں عوام کے مفادات پنہاں ہیں۔مَیں نے مولانا فضل الرحمن کی زبان سے عوام کی فلاح کی بات نہیں سنی۔
اگر الیکشن دھاندلی زَدہ تھے تو اَڑھائی برس بعد یہ بات یاد کیوں آئی؟اُسی وقت اسمبلیوں کا حصہ نہ بنتے ۔دوسری طرف سیاسی جماعتیں احتجاج سے قطعی طورپر اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل نہیں کرپائیں گی ،لیکن عوام کا معاشی و نفسیاتی و جانی نقصان ضرور کریں گی۔
دوہزار چودہ کے دھرنا میں جس طرح عمران خان نے طاہرالقادری کے ساتھ مل کر اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کی کوشش کی تھی ،مگر نقصان اُس میں صرف عوام کا ہواتھا ،وہ سارا عرصہ ہیجان اور تشویش پر مبنی تھا۔
اب بھی پی ڈی ایم نے ہیجان اور تشویش پیدا کردی ہے ،جس سے عوام کا معاشی و نفسیاتی نقصان ہورہا ہے۔اگر یہ جماعتیں عوام کا بھلاچاہتی ہیں تو اِن سب کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت حکومت میں آئے گی تو اُس کو تنگ نہیں کیا جائے گا ،بلکہ عوامی فلاح کے منصوبوں کی تشکیل میں حکومت کی معاونت کریں گی۔
میاں نواز شریف ،آصف علی زرداری،عمران خان ،شہباز شریف،مولانا فضل الرحمن اور اسی ایج گروپ کے دیگر تمام سیاست دان اپنی اپنی اننگز کھیل چکے ہیں یا کھیل کے آخری سیشن میں ہیں ،اب زیادہ ذمہ داری بلاول،مریم اور اسی طرح کی دوسری نسل پر آتی ہے ،کہ یہ اُن غلطیوں سے بچیں جو اِن کے بزرگ کرتے چلے آئے ہیں اور جس کی وجہ سے ملک کے مسائل کاسب سے زیادہ ذمہ دار سیاست دانوں کو قرار دیا جاتا ہے۔
دونوںیعنی بلاول اور مریم کو اپنے بزرگوں کی غلطیوں کو اُون کرناہو گا اور پھر آگے کی طرف بڑھنا ہوگا،غلطیوں کو قبول کیے بِنا یہ آگے بڑھے تو یہ محض دائرے کا سفر ہوگا۔فیصلہ بلاول اور مریم کو کرنا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
بندگلی میں دَم کیسے گھٹتا ہے؟۔۔۔احمد اعجاز
حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر