نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1988 کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کو اپنی دونوں حکومتوں کے دوران شدید گلہ رہا کہ میڈیا ان کی جماعت اور اندازِ حکمرانی کے بارے میں ’’منفی‘‘ خبریں پھیلاتا ہے۔’’لفافہ صحافی‘‘ کی اصطلاع ان ہی دنوں ایجاد ہوئی تھی۔ پنجاب سے آئے پی پی پی کے سرکردہ رہ نمائوں نے اپنی لیڈر کو قائل کردیا کہ صحافیوں میں لفافے اور پلاٹ بانٹتے ہوئے لاہور کے صنعت کار سے سیاستدان ہوئے نواز شریف نے سارے میڈیا کو ’’خرید‘‘ لیا ہے۔ کراچی کے صحافی ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر کئی برس ایم کیو ایم سے دہشت زدہ رہے۔ پیپلز پارٹی کو سمجھ ہی نہ آئی کہ وہ اپنی ’’اچھی‘‘ باتیں عوام کے روبرو کیسے لائے۔
تاریخی اتفاق یہ بھی ہوا کہ صدر غلام اسحاق خان اور فاروق لغاری نے جب محترمہ کی حکومتوں کو برطرف کیا تو ان کے خلاف کرپشن کے ’’ثبوت‘‘ اخبارات میں چھپی ان خبروں پر مشتمل تھے جو ’’بدعنوانی‘‘ کی داستانیں بیان کرتی تھیں۔ دونوں بار سپریم کورٹ نے ان خبروں پر اعتبار کیا۔ کرپشن ہی کے الزامات کے تحت مگر جب نواز شریف کی پہلی حکومت اپریل 1993میں برطرف ہوئی تو نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں قائم بنچ میں موجود ایک عزت مآب جج بارہا بڑبڑاتے رہے کہ مبینہ کرپشن کو اجاگر کرتی ’’خبریں‘‘ صدر مملکت کو عوام کی منتخب کردہ حکومت برطرف کرنے کا حق نہیں دیتیں۔ ایک ’’تاریخی‘‘ فیصلے کے ذریعے لہٰذا حکومت اور قومی اسمبلی کو بحال کردیا گیا۔ یہ بحالی اگرچہ قبل از وقت انتخاب روکنے میں دیگر وجوہات کی بناپر ناکام رہی۔
محترمہ کی شہادت کے بعد 2008 کے انتخاب ہوئے تو پیپلز پارٹی کو ایک بار پھر حکومت بنانے کا موقعہ نصیب ہوا۔ اخبارات کی جگہ اب عوام کو ہر لمحہ باخبر رکھنے والے ٹی وی چینلوں نے عوام کی ذہن سازی کا ذمہ اپنے سرلے لیا تھا۔ وطنِ عزیز میں ’’صاف ستھری‘‘ سیاست کے فروغ پر اپنے تئیں مامور ہوئے آزاد اور بے باک اینکر خواتین وحضرات نے مذکورہ حکومت کے بارے میں عجب کرپشن کی غضب کہانیاں سنانی شروع کردیں۔ افتخار چودھری کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب پر بحالی کے ضمن میں پیپلز پارٹی کی برتی ’’مزاحمت‘‘ نے اصول پسند صحافیوں کو مزید ناراض کردیا۔ 2008 سے 2013 تک قائم رہی حکومت کے بارے میں میڈیا مستقل ’’صبح گیا یا شام گیا‘‘ والا ماحول بناتا رہا۔
میڈیا کے ہاتھوں بدنام اور دیوار سے لگ جانے کے باوجود حقیقت مگر یہ بھی رہی کہ پیپلز پارٹی کا ہر رہ نما اور کارکن نہایت خلوص سے میڈیا کی آزادی پر یقین رکھتا ہے۔ اس جماعت کے شدید ترین ناقد بھی اگر پیشہ وارانہ وجوہات کے سبب کبھی مشکل میں آئیں تو پیپلز پارٹی کے رہ نما اس سے ذاتی روابط کے ذریعے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا میڈیا دوست رویہ تاہم پیپلز پارٹی کو ’’اچھا‘‘ بناکر دکھانے کے کام نہیں آیا۔
گزشتہ دو روز سے البتہ مجھے یہ گماں ہورہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے بالآخر اپنے بیانیے کو میڈیا کے ذریعے لوگوں تک پہنچانے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔ منگل کے روز اس جماعت کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (CEC) کا کراچی میں اجلاس ہوا۔ وہاں PDM کے ساتھ تعلق کی بابت کلیدی سوال زیر بحث رہے۔ میرے دور کے صحافی سیاسی جماعتوں کے پالیسی ساز اداروں کے اجلاس ختم ہونے کے بعد ان کے رہ نمائوں کی جانب سے ہوئی پریس کانفرنس کا انتظار کیا کرتے تھے۔ ’’اندر کی بات‘‘ وہاں چند شاطرانہ سوالات اٹھاتے ہوئے دریافت کرنے کی کوشش ہوتی۔ وہاں سے کوئی چسکہ بھری ’’خبر‘‘ نہ ملتی تو مذکورہ اجلاس میں موجود چند افراد سے ’’آف دی ریکارڈ‘‘ رابطے کی مشقت برداشت کرنا پڑتی۔
زمانہ مگر اب جدید ہو چکا ہے۔ سمارٹ فون پر Whatsapp بھی میسر ہے۔ اس کی بدولت منگل کے روز ہوئے اجلاس کے دوران ہوئی کئی باتیں Real Time میں ہمارے متحرک اور معتبر صحافیوں تک پہنچتی رہیں۔ حسین اتفاق یہ بھی ہوا کہ اجلاس کے دوران ہوئی باتو ں کو جن Tickers کے ذریعے لوگوں کے سامنے لایا گیا ان سب کی زبان ہرٹی وی چینل پر ایک جیسی تھی۔
رپورٹروں کے یقینا ’’ذرائع‘‘ ہوتے ہیں۔ عمر کے ہاتھوں میں اگر ناکارہ نہ ہوگیا ہوتا تو پیپلز پارٹی کے کسی دوست کو پرانے تعلقات کی بنیاد پر مجبور کرتاکہ Whatsapp کے ذریعے مجھے ’’اندر کی باتیں‘‘ بتاتا رہے۔ میرے معاصرین بھی ایسا ہی رویہ اختیار کرتے۔ پیشہ وارانہ اعتبار سے لیکن یہ ممکن ہی نہیں کہ میں اور میرے معاصر ’’اندر کی بات‘‘ کو ایک ہی انداز میں بیان کرتے۔یہ ’’معجزہ‘ ‘اگرچہ منگل کے روز برپا ہوگیا۔
یوٹیوب کی بدولت ہماری ذہن سازی فرمانے والے چند معتبر صحافیوں نے شفیق اساتذہ کی طرح مجھ جیسے ’’چلے کارتوس‘‘ صحافیوں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ درحقیقت پیپلز پارٹی نے کمال مہارت سے اپنی جماعت کے سرکردہ افراد کے PDM کے بار ے میں تحفظات کو ’’ذرائع‘‘ کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کے دیگر رہ نمائوں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ یوں سانپ بھی مرگیا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹی۔ مبینہ طورپر پیپلز پارٹی کی جانب سے اس کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں ہوئی گفتگو کو ’’ازخود‘‘ منظرعام پر لایا گیا ہے۔ میرے جھکی ذہن میں اس دعوے کے باوجود یہ سوال اٹکا ہوا کہ ہمارے تمام ٹی وی چینلوں نے PDM کے بارے میں پیپلز پارٹی کی ’’حقیقی سوچ‘‘ کو اتنی فراخ دلی سے اجاگر کیوں کیا۔
ٹھنڈے ذہن سے اگر تجزیہ کریں تو منگل کے روز پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کی بابت چلے ٹِکروں نے عمران حکومت کے ترجمانوں کی فوجِ ظفرموج کو یہ بیانیہ پھیلانے کے لئے ٹھوس مواد فراہم کیا کہ پیپلز پارٹی کے PDM میں شامل جماعتوں کے ساتھ شدید اختلافات رونما ہوگئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز صاحبہ کی ’’خواہش‘‘ کے مطابق اس جماعت سے وابستہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین اپنی نشستوں سے مستعفی ہونے کو تیار نہیں۔ وہ سندھ میں اپنی حکومت ہر صورت برقرار رکھنا چاہ رہے ہیں اور اس امر کی بابت بضد کہ مارچ 2021 میں سینٹ کی خالی ہونے والی نشستوں کے لئے انتخاب لڑا جائے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی خالی ہوئی نشستوں کے ضمنی انتخاب میں بھی حصہ لیا جائے۔
مذکورہ خواہشات اور ارادے واضح طور پر PDM کے اس بیانیے کو رد کرتے ہیں جو لانگ مارچ جیسی کسی تحریک کے ذر یعے عمران حکومت کو 31جنوری 2021 کے چند ہی ہفتوں بعد گھر بھیجنا چاہ رہا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا PDM کے نام سے بنا اتحاد لہٰذا اپنے قیام کے محض تین ماہ بعد ہی تتربتر ہوتا نظر آرہا ہے۔ پیپلز پارٹی چونکہ ’’سسٹم‘‘ کو بچانے کی خاطر ’’اسی تنخواہ‘‘ پر کام کرنے کو رضامند ہے۔ اس لئے عمران حکومت کے لئے ’’ستے خیراں‘‘ ہیں۔ وہ 2023 کے انتخاب تک اپنی آئینی مدت بآسانی مکمل کرلے گی۔ دریں اثناء PDM کی صفوں میں موجود انتہاپسند اور ’’غدار‘‘ جیلوں اور مقدمات کی نذر ہوجائیں گے۔
سپریم کورٹ کے ہاتھوں تاحیات سیاست میں حصہ لینے کے لئے نااہل ہوئے نواز شریف پہلے ہی لندن ’’بھاگ‘‘ چکے ہیں۔ ان کی عدم موجودگی میں نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی مسلم لیگ کے ’’سنجیدہ اور تجربہ کار‘‘ رہ نمائوں کو شہبازشریف کی رہ نمائی درکار تھی۔ وہ مگر جیل میں ہیں۔ اب ان کے بااعتماد دوست خواجہ آصف بھی نیب کی تحویل میں چلے گئے ہیں۔ مریم نواز کی ’’انتہاپسند‘‘ سوچ ہمارے ’’ذہن سازوں کے بقول‘‘ مسلم لیگ کے ووٹ بینک کی ترجمانی نہیں کرتی۔ مولانا فضل الرحمن کی جماعت میں بھی بغاوت ہوگئی ہے۔ یہ دونوں بھی اگر آئندہ چند دنوں میں جیل گئے تو PDM کا کوئی والی وارث نہیں رہے گا۔ عمران حکومت کے لئے لہٰذا اچھی خبروں کا موسم آگیا ہے۔ اس موسم میں پیپلز پارٹی کا رویہ بادِصبا کی طرح خوش گوار ثابت ہو رہا ہے۔
جو منظر دکھایا اور سمجھایا جا رہا ہے وہ مجھ جیسے سنکی اور جھکی ہوئے ریٹائر رپورٹر کو کوئی ’’نئی خبر‘‘ نہیں سناتا۔ بارہا اس کالم میں عرض کرچکا ہوں کہ وطنِ عزیز میں ’’ووٹ کی طاقت‘‘ سے قائم ہوئی حکومتیں کسی عوامی تحریک کی بدولت گھر نہیں جاتیں۔ ہماری ہر نوعیت کی اشرافیہ کے باہمی اختلافات ان کی فراغت کا حقیقی سبب ہوا کرتے ہیں۔ دُنیا کے اہم ترین ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بھی اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ عمرا ن حکومت کے استحکام کی بابت رعونت بھری ڈھٹائی سے کوئی دعویٰ کرنے سے قبل ہمیں ان امور پر نگاہ رکھنا ہوگی۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ