نومبر 1, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میڈیا پالیسی اور صحافتی تنظیموں کا کردار ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرے دو بھائی قتل ہوئے۔ میری ماں کا لاٹھیوں سے سر پھاڑ دیا گیا۔ مجھے قدم قدم پر اذیتیں دی گئیں اور ٹارچر کیا گیا ۔ میں جیلوں کے اندر رہ کر بھی جمہوریت کیلئے لڑتی رہی۔

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موجودہ حکومت کے بر سر اقتدار آنے کے بعد میڈیا میں تباہی آئی ، ادارے بحران کا شکار ہوئے اور بہت سے ادارے بند ہونے پر پورے ملک میں لاکھوں صحافی بیروزگار ہوئے ، بحران کم ہونے کی بجائے روزبروز شدید تر ہو رہا ہے ، وزیراعظم عمران خان نے تو یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ حکومت چلانے کی تیاری نہیں تھی ، دو سال تو ہمیں اسی بات کا علم ہی نہیں ہو سکا کہ کیا ہو رہاہے ۔ مگر حکومت کی نا تجربہ کاری سے ملک کے 20 کروڑ عوام کو جو عذاب سہنا پڑرہا ہے ، کم از کم اس کا تو اندازہ ہونا چاہئے ۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بجا اور درست کہا کہ تیاری نہیں تو امتحان میں کیوں بیٹھے ؟
افسوس کہ نقل کرنے پر بھی فیل ۔ وفاقی حکومت کی میڈیا پالیسی نے جو عذاب کھڑے کیے وہ اپنی جگہ مگر پنجاب کی صوبائی حکومت بھی اس سے دو ہاتھ آگے دکھائی دیتی ہے ، بحران کا اصل سبب ناتجربہ کاروں کی طرف سے بنائی گئی میڈیا پالیسی ہے ۔ 27 اگست 2020ء کو جاری ہونے والی پالیسی سامنے آئی جو کہ چھوٹے اخبارات کیلئے موت کا پروانہ اور بڑے اخبارات کیلئے درد سر ہے ۔
نئی میڈیا پالیسی کے ایک نکتے نے اشتہارات کا حجم بہت حد تک کم کر دیا ہے ، پالیسی میں کہا گیا ہے کہ 30لاکھ تک کے ٹینڈرنوٹس اخبارات کو جاری کرنے کی بجائے تعلقات عامہ کی ویب سائٹ پر دیئے جائیں گے ۔
یہ فیصلہ شفافیت کے قومی و بین الاقوامی مسلمہ اصول کے منافی ہے ، شفافیت کا تقاضہ یہ ہے کہ ہر ٹینڈر کو مشتہر ہونا چاہئے ۔ عدالتی فیصلہ جات میں بھی شفافیت کے اصول کی بات کی گئی ہے اور عمران خان بھی شفافیت کے نعرے پر بر سر اقتدار آئے ۔ موجودہ میڈیا پالیسی نے شفافیت کے اصول کے بر عکس چور دروازے کا ایک ایسا راستہ کھولا ہے جس پر کوئی بھی گرفت نہ کر سکے گا ۔
اب اگر ٹینڈر 30لاکھ تو کیا 90لاکھ کا بھی ہو تو اسے محکمے کا سربراہ 3 حصوں میں تقسیم کر دیتا ہے اور ملی بھگت کر کے من پسند ٹھیکیدار کو دے دیتا ہے ۔ اس سے اقربا پروری اور کرپشن کا نیا دروازہ کھلا ہے ۔ جہاں تک تعلقات عامہ کی ویب سائٹ کا تعلق ہے تو اسے کون دیکھتا ہے اوروہ آج بھی اپ ڈیٹ نہیں ہے ۔
اے پی این ایس ، سی پی این ای اور دیگر صحافتی اداروں کو مذکورہ شق کے ساتھ ساتھ جملہ پالیسی ختم کرانے کیلئے اقدام کرنا چاہئے کہ حکومت کی اپنی وضع کردہ پالیسی کے مطابق جو بھی اخبار باقاعدگی سے شائع ہوتا ہے اور گورنمنٹ میڈیا لسٹ میں شامل ہے ، اسے اشتہار کا حصہ ملنا چاہئے ۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ میڈیا میں پیدا ہونے والی بیروزگاری نے بہت سے مسائل پیدا کر دیئے ہیں ، کہا جاتا ہے کہ کسی بھی انسان کا معاشی قتل اس کے جسمانی قتل سے بھی بڑا جرم ہے ، ایک اندازے کے مطابق موجودہ حکومت کے بر سر اقتدار آنے کے بعد میڈیا میں ایک لاکھ سے زائد اور مجموعی طور پر ایک کروڑ سے زائد لوگ بیروزگار ہوئے ۔
بیروزگار لوگ کن مسائل کا شکار ہیں اور وہ موجودہ حکومت کے پالیسی سازوں کو کس قدر بد دعائیں دے رہے ہیں ؟ یہ تمام باتیں عمران خان کی کچن کابینہ میں سے کوئی نہیں بتائے گا کہ سب کو اپنے عہدوں اور اپنی وزارتوں سے غرض ہے ، عمران خان کو خود ہی معاملات کو بہتر بنانا ہوگا ، خصوصاً میڈیا کے معاملات کہ پوری دنیا میں میڈیا وار چل رہی ہے اور پوری دنیا میڈیا میں کام آنے والے ہتھیاروں ، ٹی وی چینلز ، ریڈیو ، اخبارات و جرائد سے مسلح نظر آتی ہے مگر موجودہ حکومت کے بر سر اقتدار آنے کے بعد پاکستان میڈیا وار میں تہی دست نظر آتا ہے ۔
میڈیا کی ترقی ہونی چاہئے ، تنزلی تباہی کی طرف لے جاتی ہے ، اخبار چینل یا ریڈیو چلانا کتنا مشکل ہے ؟ اس کا حکومت کوخود علم ہے سرکاری سیکٹر میں شائع ہونے والے جرائد ریڈیو اور ٹی وی چینل کتنے اخراجات ہیں اس کا بھی حکومت کو علم ہے اور اربوں کھربوں کے اخراجات کے باوجود حکومتی میڈیا کو کتنا دیکھایا پڑھا جاتا ہے ؟
اس بارے بھی سب جانتے ہیں ، پی ٹی وی کے اخراجات پورے کرنے کے لئے ہر بجلی بل کے ساتھ ہر ماہ 35روپے ٹی وی ٹیکس لیا جا رہاہے۔ صرف میپکو ملتان آٹھ سے دس کروڑ پی ٹی وی کووصول کر کے دیتا ہے، اس لحاظ سے ایک ارب سے زائد پاکستانیوں سے لیا جا رہاہے ، باوجود اس کے کہ لوگ سرکاری ٹی وی نہیں دیکھتے، ان سے جبری وصولی ہورہی ہے اور لوگ جن پرائیوٹ چینلز کو دیکھتے ہیں وہ اپنے اخراجات کہاں سے پورے کریں ؟
صوبے کے دیگر علاقوں کی نسبت وسیب زیادہ مشکلات کا شکار ہے ، کہا گیا کہ سیکرٹریٹ بننے پر وسیب کے مسئلے حل ہونگے، ابھی تک نہ تو سیکرٹریٹ کا نام و نشان ہے اور نہ ہی سیکرٹریٹ فنکشنل ہو سکا ۔
البتہ 16 محکموں کے ایڈیشنل سیکرٹریز تعینات کئے گئے ، ان میں وزارت اطلاعات و ثقافت کا محکمہ شامل نہ تھا ۔ اس سلسلے میں ہم نے لکھا کہ محکمہ اطلاعات و ثقافت کا وسیب میں آفس اس لئے ضروری ہے کہ وسیب کے صحافیوں کو چھوٹے چھوٹے کاموں کیلئے لاہور جانا پڑتا ہے ۔ جیسا کہ اخبارات و رسائل کی کاپیاں جمع کرانا ، پریس لاز برانچ سے جمع شدہ کاپیوں کا این او سی لینا ، ایکریڈیشن کارڈ ، محکمہ اطلاعات کے ملازمین کے معاملات ،شائع شدہ اخبار کے بل جمع کرانے اور جمع شدہ بلوں کی رسید حاصل کرنے کیلئے لاہور جانا پڑتا ہے ۔
اسی طرح وسیب کے جس محکمے نے اشتہار شائع کرانا ہے ، اس کو بھی اشتہار کی اشاعت کیلئے لاہور جانا پڑتا ہے ۔ اس کے ساتھ وسیب کے کسی فنکار نے وزارت ثقافت کو امداد کیلئے درخواست دینی ہے تو اسے بھی لاہور جانا پڑتا ہے اور اس طرح آرٹ ، کلچر اور لینگویج کی ترقی کیلئے چھوٹے چھوٹے معاملات کیلئے بھی ادیبوں ، شاعروں ، دانشوروں اور فنکاروں کو لاہور جانا پڑتا ہے ۔ اطلاعات و ثقافت کے محکمے تو ہر صورت وسیب میں ہونے چاہئیں ۔
اس سلسلے میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری ساؤتھ پنجاب آفس سے ڈپٹی سیکرٹری خرم پرویز صاحب نے مورخہ 20جولائی 2020ء کو ایک لیٹر سیکرٹری اطلاعات حکومت پنجاب کو بھیجا جس میں یہ بھی گزارش کی گئی کہ محکموں کے اشتہارات جاری کرنے کا اختیار ساؤتھ پنجاب سیکرٹریٹ کو دیا جائے ، مگر ساؤتھ پنجاب سیکرٹریٹ کی یہ چھوٹی سی درخواست بھی منظوری کا شرف حاصل نہیں کر سکی تو بتایا جائے کہ وسیب کے لوگ اور اپوزیشن جماعتیں سول سیکرٹریٹ کو لولی پاپ کا نام دیتی آ رہی ہیں ، تو کیا یہ غلط ہے ؟

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

ایک تاریخ ایک تہذیب:چولستان ۔۔۔ظہور دھریجہ

About The Author