نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آئندہ کا سیاسی زائچہ خوش کن… مگر ۔۔۔ نصرت جاوید

اپنی تاریخ سے فقط ’’دیگ کا ایک دانہ‘‘ چنتے ہوئے عرض صرف یہ کرنا ہے کہ مستقبل کے سیاسی زائچے بناتے ہوئے محض نظر آنے والے عوامل ہی کو نگاہ میں نہیں رکھنا چاہیے۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مولانا فضل الرحمن سے ’’باغی‘‘ ہوئے بلوچستان کے مولانا شیرانی اس ضمن میں اکیلے نہیں۔ لاہور کا PDMوالا جلسہ ’’ناکام‘‘ ہوجانے کے بعد میں نے عمران خان صاحب کے کئی مخالفین کو بھی ’’آف دی ریکارڈ‘‘ یہ اعتراف کرتے سنا کہ اگر حالات ایسے ہی رہے تو موجودہ حکومت نہ صرف اپنی آئینی مدت مکمل کرلے گی بلکہ 2023میں ہوئے انتخابات کے بعد پانچ سالہ اقتدار کی دوسری ٹرم یا باری لینے کے قابل بھی بن جائے گی۔

ایسے افراد کو مزید افسردہ کرنے کے لئے عمران حکومت کے مشیروں نے کمال مہارت سے مارچ2021میں سینٹ کی خالی ہونے والی 52نشستوں کے لئے ’’قبل از وقت‘‘ انتخاب کا عندیہ دیا۔ وہ اپنے ذہن میں لگائی گیم کو من وعن بروئے کار لانے میں ناکام رہے تب بھی ’’بروقت‘‘ہوئے سینٹ انتخاب کے ذریعے تحریک انصاف ایوان بالا میں بھی اکثریتی جماعت بن جائے گی۔عمران حکومت کو اس کے بعد اپنی ترجیح کے مطابق قانون سازی کے لئے Walk Overجیسی آسانیاں فراہم ہوجائیںگی۔ممکنہ تناظر میں PDMکا اسلام آباد پر لانگ مارچ کے ذریعے دھاوا بولنے والا منصوبہ بارآور ہوتا نظر نہیں آئے گا۔عوام کی اکثریت کو بلکہ تحریک انصاف کے 2014والے دھرنے جیسا کار بے سود دکھائی دے گا۔

پاکستان کا ’’سیاسی‘‘ زائچہ‘‘ بناتے ہوئے مجھے خوف آتا ہے۔ ہمارے ہاں اقتدار کا کھیل بنیادی طور پر ایسے کئی عوامل کا محتاج رہا ہے جنہیں ان کی نموداری سے قبل تصور میں لانا تقریباََ ناممکن ہے۔ ساری عمر سیاسی رپورٹنگ کی نذر کردینے کے با وجود میں خود بھی ان عوامل کو بروقت تصور میں لانے سے قاصر رہا جنہوں نے جولائی 2018 کے انتخاب میں تحریک انصاف کی جیت کو بالآخر یقینی بنایا۔

بطور صحافی مجھے ان انتخابات کی ’’شفافیت‘‘ وغیرہ پر سوال اٹھانے کا حق حاصل نہیں۔ کج بحثی سے گریز کی خاطر مان لیتے ہیں کہ وہ انتخاب ’’چرایا‘‘ گیا تھا۔ عمران خان صاحب اس کے نتیجے میں “Select” ہوئے۔ یہ انتخاب مگر جن سیاسی قوتوں سے مبینہ طور پر ’’چرایا‘‘ گیا تھا ان کے نمائندوں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں رکنیت کا حلف اٹھانے کے بعد اپنی ’’شکست‘‘ کو ٹھوس انداز میں تسلیم کرلیا۔

قومی اسمبلی میں بھاری بھر کم تعداد میں موجودگی کے باوجود وہ اس ایوان میں ثابت قدم مزاحمت نہ دکھ اپائیں۔ سینٹ میں اپوزیشن جماعتوں کی فیصلہ کن دِکھتی ’’اکثریت‘‘ بھی صادق سنجرانی کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد مضحکہ خیز حد تک کھوکھلی اور بے اثر ثابت ہونا شروع ہوگئی۔

اپوزیشن کی بے وقعتی کو مزید اجاگر اس قانون کی تاریخ ساز عجلت سے منظوری نے کیا جس کے ذریعے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کو آصف سعید کھوسہ صاحب کے حکم کے مطابق ’’باقاعدہ‘‘ بنایا گیا تھا۔ پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(FATF) کی گرے لسٹ سے باہر نکالنے کی غرض سے تیار ہوئے دس اہم ترین قوانین کو بھی ایسی ہی عجلت میں منظور کیا گیا۔

ہر حوالے سے ’’جی حضوری‘‘ والا رویہ اختیار کرنے کے باوجود اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں اپنے لئے کوئی سہولت نہ حاصل کرپائیں۔ شریف خاندان اور آصف علی زرداری کی مبینہ ’’لوٹ مار اور منی لانڈرنگ‘‘ کو بلکہ پاکستان کو FATF کی گرے لسٹ میں پھینکنے کا موجب ٹھہرایا گیا۔ دونوں اب ’’جعلی اکائونٹس‘‘ اور ’’مشتبہ TTs‘‘ کے تحت قائم ہوئے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔

شہباز شریف جیل میں ہیں۔ پاکستان میں موجود ان کے فرزند -حمزہ- بھی وہاں مقید ہیں۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور نوا زشریف کے نام سے منسوب ہوئی پاکستان مسلم لیگ کے صدر کی اہلیہ اور بیٹیاں بھی ان الزامات کی زد میں ہیں۔ پارلیمان میں دو بڑی اپوزیشن جماعتوں کی بھاری بھر کم تعداد انہیں مقدمات اور میڈیا کے ذریعے ہوئی بدنامی سے بچانے میں قطعاََ ناکام رہی ہے۔

مذکورہ تناظر میں PDM کا قیام بھی شاید کوئی ہل مچل مچاتا نظر نہ آتا اگر اس کے تاسیسی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے لندن میں بیٹھے نواز شریف اپنے ’’غدار بیانیے‘‘ کو شدت سے برسرعام نہ لاتے۔ انہوں نے جس انداز میں’’نام لئے‘ ‘انہوں نے عوام کی اکثریت کو چونکا دیا۔ ان کے نام سے منسوب ہوئی جماعت کے کئی اراکین کے دل مگر اس خطاب نے دہلادئیے۔  PDM میں شامل دیگر جماعتوں کے اس ضمن میں تحفظات اپنی جگہ موجود ہیں۔

شاید ایسے افراد کو ’’حوصلہ‘‘ دینے کے لئے نواز شریف PDM کے لاہور والے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے طنزیہ انداز میں ’’نام لینے‘‘ سے کتراتے رہے۔ ان کے حامیوں اور مخالفوں کی بے پناہ تعداد جبکہ یہ توقع باندھے ہوئے تھی کہ وہ’’ اپنے شہر‘‘ میں ہوئے خطاب کے دوران چند سنسنی خیز آڈیو وڈیوز سناتے اور دکھاتے ہوئے شاید “Next Level” کی جانب بڑھیں گے۔

میری دانست میں PDM کے لاہور والے جلسے کو ’’ناکام‘‘ ثابت کرنے کے لئے ان کے ’’نام لینے‘‘ سے گریز نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ان تک کسی بھی نوعیت کی رسائی کے بغیر میرے لئے یہ طے کرنا ممکن نہیں کہ وہ کب تک ایسے ’’گریز‘‘ پر کاربند رہیں گے۔

نواز شریف کا ’’گریز‘‘ مگر آج کے کالم کا عنوان نہیں۔ غور طلب وہ تاثر ہے جو عمران حکومت کو اپنی آئینی مدت مکمل کرتا ہی نہیں بلکہ 2023 کے انتخابات کے بعد ایک اور ٹرم یا باری لیتا بھی دکھا رہا ہے۔ مستقبل کے سیاسی زائچے مرتب کرنے سے ذاتی طور پر گریز اختیار کرنے کی وجہ سے میں اس ضمن میں ڈھٹائی کے ساتھ کوئی بڑھک لگانے کا متحمل ہو نہیں سکتا۔  گاڑی چلاتے ہوئے ’’بیک مرر‘‘ پر بھی لیکن نگاہ رکھنا لازمی ہے۔ آئندہ کا سیاسی زائچہ سوچتے ہوئے لہٰذا اپنی سیاسی تاریخ کو ذہن میں لانا ہوتا ہے۔

آئینی اور کتابی اعتبار سے مثال کے طور پر ذوالفقار علی بھٹو کی زیر قیادت قائم ہوئی حکومت کے پانچ سال 1978 میں مکمل ہونا تھے۔ 1970میں ’’آئین ساز‘‘ اسمبلی کے انتخاب ہوئے تھے۔ آئین کی تیاری اور اس کے لاگو ہو جانے کے بعد بھٹو حکومت کی ’’آئینی مدت‘‘ کا آغاز لہٰذا 1973 میں ہوا تھا۔ ٹھوس سیاسی اور پارلیمانی اعتبار سے مذکورہ حکومت کے طاقت ور ترین حریف ان دنوں کی نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت العلمائے اسلام تھے۔

بلوچستان اور آج کے خیبرپختونخواہ میں ان دونوں جماعتوں کی حکومت تھی۔ بلوچستان کی حکومت کو اس صوبے میں ’’شورش‘‘کی وجہ سے برطرف کردیا گیا۔ اس کی برطرفی کے بعد ان دنوں کے صوبہ سرحد کی صوبائی حکومت احتجاجاََ مستعفی ہوگئی۔

پیپلز پارٹی نے ان دونوں صوبوں میں خان عبدالقیوم خان کی مسلم لیگ سے اتحاد کے ساتھ اپنی حکومتیں بنالیں۔ بعد ازاں نیشنل عوامی پارٹی کو سپریم کورٹ کے روبرو ’’غدار‘‘ٹھہراکر ’’کالعدم‘‘ ٹھہرادیا گیا۔ اس کی سرکردہ قیادت ’’حیدرآباد ٹربیونل‘‘ کے تحت ریاست کیخلاف ’’مسلح بغاوت‘‘ کے سنگین الزامات کے تحت مقدمات کا سامنا کرتی رہی۔

1974 میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے بھٹو حکومت نے ’’90سالہ قضیہ‘‘ بھی حل کردیا۔ اس برس لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا اجلاس بھی ہوا۔ پیٹرو ڈالرز کی رونق سے فائدہ ا ٹھانے کے لئے پاکستانیوں کی کثیر تعدا د خلیجی ممالک منتقل ہوکر Upward Mobility کی جانب بڑھنا شروع ہوگئی۔ بھٹو صاحب نے قوم کو یہ نوید بھی سنائی کہ وہ پاکستان کو ہر صورت مسلم اُمہ کی واحد ایٹمی قوت بنائیں گے۔

سیاسی اعتبار سے’’گلیاں ہوون سنجیاں‘‘ لیکن معاشی اعتبار سے پُررونق نظر آتے ماحول میں ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی حکومت کی پانچ سالہ آئینی مدت مکمل ہونے سے ایک سال قبل ہی مارچ 1977 میں نئے انتخابات کا اعلان کر دیا۔ بھٹو کے شدید ناقدین سمیت ہمارے سیاسی مبصرین کی اکثریت نے طے کر دیا کہ ایک منتشر اور بے اثر اپوزیشن کے ہوتے ہوئے پیپلز پارٹی انتخابات بھاری اکثریت سے جیت جائے گی۔

بہت سنجیدگی سے سوچ یہ بھی پھیلی کہ 1977 میں ’’دوتہائی اکثریت‘‘ حاصل کرنے کے بعد بھٹو صاحب آئین میں بنیادی تبدیلیاں لاتے ہوئے پاکستان کے طاقت ور ترین صدر بن جائیں گے۔ کئی اسلامی ممالک کے سربرہان کی طرح اس کی بدولت وہ شاید تاحیات اس عہدے پر فائز رہیں گے۔

نئے انتخابات کا اعلان ہوتے ہی مگر راتوں رات نو جماعتوں پر مشتمل اتحاد قائم ہوگیا۔ مذکورہ اتحاد نے 1977 کے انتخابات کے نتائج کو دھاندلی زدہ ٹھہرا کر مسترد کردیا۔ اس کے بعد ایک تحریک چلی جو ضیاء الحق کے مارشل لاء پرمنتج ہوئی۔ اس کے بعد جو ہوا وہ حالیہ تاریخ ہے۔ اسے دہرانے سے کیا حاصل۔

اپنی تاریخ سے فقط ’’دیگ کا ایک دانہ‘‘ چنتے ہوئے عرض صرف یہ کرنا ہے کہ مستقبل کے سیاسی زائچے بناتے ہوئے محض نظر آنے والے عوامل ہی کو نگاہ میں نہیں رکھنا چاہیے۔ جو نظر آتا ہے اسے Taken for Granted شمار کرنے سے اجتناب ہی بہتر ہے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

 

About The Author