رؤف لُنڈ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہداد کوٹ سندھ کے ایک غریب امام مسجد کے گھر محرومیوں سمیت جنم لینے والے کھبڑ خان جس نے اجرت پر بکریوں کے ریوڑ چرانے سے اپنی زندگی کا پہیہ چلانے کا آغاز کیا تو سماجی نا ہمواریوں کے نظام نے قدم قدم پر اس کی راہ میں رکاوٹیں لا کھڑی کیں۔ کھبڑ خان سیلرو کسی مدرسے، سکول اور کالج کی تعلیم سے نا بلد رہا مگر طبقاتی نظام کی ٹھوکروں سے زندگی کی کٹھنائیوں کا شعور حاصل کیا۔ اپنے ارد گرد ہونے والے طبقاتی سماج کے ظلم زیادتی ، لوٹ مار اور استحصال کے خلاف کسی سرگرمی کو موجود نہ پایا تو اپنی آواز کو ہمنوا بنا لیا اور لوک گیت گا کر کرب کے اظہار کا ذریعہ بنا لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محروم طبقے کے درد کو ہر ایک کی سماعت تک پہنچانے کیلئے ایسا ریاض کیا کہ ارد گرد کے لوگ اسے روک روک کر زندگی کے روگ گائیکی کے انداز میں سننے لگے اور باھم دگر جڑنے لگے ۔ کھبڑ خان سیلرو کے سماجی وقار نے اسے اس وقت کی سرگرم کیمونسٹ پارٹی تک پہنچا دیا۔ پھر وہ کھبڑ خان سیلرو سے کامریڈ کھبڑ خان سیلرو بن گیا۔ آواز کا جادو تو اس کے پاس پہلے ھی تھا۔ کیمونسٹ نظریات کے شعور نے اس کی سوچ اور فکر کو وسعت عطا کی تو پھر کامریڈ نے مشہورِ زمانہ گیت اس طرح گایا کہ وہ گیت کامریڈ کی شان اور پہچان بن گیا۔۔۔۔۔ گیت کے چند ایک الفاظ اس طرح تھے کہ ۔۔۔۔۔
میڈا ناں مزدور ھے، میڈا ناں مزدور اے
امریکہ کنبایا ، مَیں او مَیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( یعنی میں ایک مزدور ہوں ، آج اگر امریکی سامراج پر لرزہ طاری ھے تو وہ میری طاقت کی وجہ سے ھے )
کامریڈ کھبڑ خان سیلرو انقلابی کلا کار/گلو کار کے ساتھ ایک انتہائی سرگرم ، بہادر، اور جرات مند سیاسی و انقلابی کارکن بھی تھے۔ کامریڈ سیلرو سندھ کے ہاریوں کے حقوق کے معتبر اور نامور قائد کامریڈ حیدر بخش جتوئی کے شانہ بہ شانہ کام کرتے رھے۔ سندھ کے کسانوں نے اپنے حقوق منوانے کیلئے سندھ اسمبلی کا گھیراؤ کیا تو کامریڈ کھبڑ خان سیلرو اس گھیراؤ میں پیش پیش تھے۔ پاکستان کے سیاسی منظر پر ضیاءالحقی خباثت کے اندھیرے چھائے تو کامریڈ سیلرو روشنی کی کرن بن کر جدوجہد کرنے لگے۔ اس جدوجہد میں وہ عظیم انقلابی کامریڈ جام ساقی کے ساتھی بنے اور یہ ساتھ زندگی بھر کا ساتھ بن گیا۔ کامریڈ سیلرو ، ضیائی آمریت میں سکھر سنٹرل جیل میں سات ماہ تک ہر طرح کے ریاستی جبر کا نشانہ بنے مگر ان کے پائے استقامت میں کوئی لرزش نہیں آئی۔۔۔۔
90 ء کی دہائی میں سوویت یونین کا قبلہ کیا ٹوٹا کہ بڑے بڑے انقلابی سورما بکھر کر رہ گئے۔ ان حالات میں کامریڈ کھبڑ خان سیلرو غیر سرگرم ہوا مگر اپنے انقلابی آدرشوں سے نہ صرف دستبردار نہیں ہوا۔ بلکہ ایک مارکسسٹ اور لیننسٹ نظریات سے مسلح پلیٹ فارم کی تلاش جاری رکھی ۔ 2011ء میں کامریڈ سیلرو کا پاکستان میں بالشویک روایات اور کیمونسٹ نظریات اور پرچم کے حامل طبقاتی جدوجہد کے کامریڈز سے ٹاکرا ہوا ، نظریاتی ابہام پر معمولی سی بحث ہوئی اور کامریڈ کو جس انقلابی جوہر کی تلاش تھی وہ پلیٹ فارم اسے مل گیا۔ کامریڈ نے پھر سے تازہ دم ہو کر طبقاتی جدوجہد کے پلیٹ فارم سے مارکسزم کا پرچم تھام لیا۔ اور پھر سے کامریڈ کی جوشیلی آواز میں سامراج مخالف اور مزدور کی شان کی پہچان کا گیت
” میڈا ناں مزدور ھے، میڈا ناں مزدور ھے۔ امریکہ کنبایا مَیں او مَیں ” ، پوری شدت سے گونجنے لگا۔۔۔۔۔
کامریڈ کی سامراج مخالف یہ گونج تب تک قائم رھی جب تک کامریڈ کھبڑ خان سیلرو کا آخری سانس قائم رہا۔ اور پھر سب نے دیکھا کہ کامریڈ سیلرو محنت کش مزدوروں ، کسانوں کی شناخت اور احترام پر مبنی ہتھوڑی درانتی والا سرخ پرچم اوڑھ کر رخصت ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔
کامریڈ کھبڑ خان سیلرو ! محنت کش طبقے کی نجات کے خوابوں اور آدرشوں پر مبنی سوشلسٹ انقلاب کیلئے آپ کی لازوال جدوجہد کو سرخ سلام 🌹🌹
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر