سہیل وڑائچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ تو آنکھیں بند کرنے سے منظر تبدیل ہوگا اور نہ ہی نظر انداز کرنے سے واقعات ٹلیں گے، ہونی ہو کر رہتی ہے۔ ہم تصادم کی طرف بگٹٹ دوڑے جا رہے ہیں مگر حکومت، اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ تینوں کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں۔ سب کو علم ہے کہ تصادم میں ملک کا نقصان ہوگا۔ پہلے سیاست میں کشیدگی آئے گی اور پھر معیشت میں مزید ابتری آئے گی۔
تینوں فریقوں سے یہی درخواست ہے کہ نہ کریں، ایسا نہ کریں۔ ملک کے مسائل کا حل تصادم نہیں، مفاہمت میں ہے۔ گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی طرف جائیں اور ملک کو آگے لے کر جانے پر سوچیں-ملتان کا جلسہ ٹریلر تھا، تصادم، کشیدگی، جھڑپیں، آنسو گیس اور گرفتاریاں۔ ملک میں سب طبقات گھگھو گھوڑے بنے بیٹھے ہیں حالانکہ سیاست کا طبلِ جنگ بج چکا ہے۔ لاہور کا جلسہ ہونے والا ہے اور پھر لانگ مارچ کی کال دینا ہوگی۔ کہنے کو تو اجتماعی استعفوں کا آپشن بھی اپوزیشن کے پاس موجود ہے مگر اندازہ ہے کہ پیپلز پارٹی پہلے لانگ مارچ کی آپشن استعمال کرنے پر زور دے گی۔
لانگ مارچ کی کال اور پھر اُس پر عملدرآمد۔ یا تو ہر جگہ ملتان جیسی کشیدگی ہوگی، اگر لوگوں کو روکا گیا تو جگہ جگہ لڑائیاں اور لاٹھی چارج ہوگا اور اگر لوگ اسلام آباد یا راولپنڈی پہنچ گئے تو اُنہیں ڈیل کرنا اور بھی مشکل ترین مرحلہ ہوگا۔ ہر ریاست کی اپنی سائنس ہوتی ہے، ہم مانیں یا نہ مانیں ہماری ریاست کی سیاست میں ہمیشہ سے فیصلہ کن کردار ریاستی ادارے ادا کرتے رہے ہیں۔ یہ ہونا تو نہیں چاہئے مگر ماضی میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔
بےنظیر بھٹو وزیراعلیٰ پنجاب منظور وٹو کے تعاون سے لانگ مارچ کرنے ہی والی تھیں کہ ایک روز پہلے راولپنڈی سے مذاکرات کی کال آ گئی۔ لانگ مارچ کے بغیر ہی حکومت تحلیل ہو گئی اور نئے الیکشن کی راہ ہموار کر دی گئی۔ دوسرا بڑا لانگ مارچ میاں نواز شریف کی قیادت میں عدلیہ کی بحالی کے لئے لاہور سے روانہ ہوا، قافلہ گوجرانوالہ ہی پہنچا تھا کہ آرمی چیف جنرل کیانی کی کال آ گئی کہ حکومت عدلیہ کی بحالی پر رضا مند ہو گئی ہے۔ لانگ مارچ یا دھرنے ابھی تک حکومتوں کو گرانے یا جھکانے کے حوالے سے موثر ترین ہتھیار ثابت ہوئے ہیں۔
دھرنا شروع ہو جائے تو اُسے ختم کرنا یا اُسے ہٹانا انتظامیہ اور حکومت دونوں کے لئے مشکل ہوتا ہے۔ کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ خون خرابہ ہو۔ انتظامیہ خاص طور پر اِس صورتحال سے بچنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دھرنے والوں کی شرائط سخت اور ناقابلِ قبول بھی ہوں تو راولپنڈی اور اسلام آباد کی اسٹیبلشمنٹ اُنہیں تسلیم کر لیتی ہے۔ کہنے والے تو کہتے ہیں کہ اپوزیشن کے انتہا پسند زور دے رہے ہیں کہ 50ہزار افراد کا دھرنا تب تک ڈٹا رہے جب تک 3استعفوں کا مطالبہ پورا نہ ہو مگر دوسری طرف اعتدال پسند صرف ایک استعفے کی بات کر رہے ہیں اور اُن کا خیال ہے کہ لانگ مارچ اگر واقعی موثر ثابت ہوا تو اُنہیں ماضی کے لانگ مارچوں اور دھرنوں کی طرح کامیابی مل سکتی ہے_تجویز تو یہ بھی ہے کہ اجتماعی استعفے دے کر نظام کو ایسا چیلنج دے دیا جائے کہ اُس کا چلنا ہی مشکل ہو جائے۔
اگر واقعی ساری اپوزیشن نے اجتماعی استعفوں کا فیصلہ کر لیا تو حکومت کے لئے نظام کو چلانا ناممکن ہو جائے گا پھر حکومت کے لئے سوائے نئے الیکشن کی طرف جانے کے کوئی راستہ نہیں ہوگا لیکن میری عاجزانہ رائے میں حکومت، اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ تینوں ہی ضد کرکے فاش غلطی کر رہے ہیں۔ اپوزیشن جس طرح سے حکومت کو اتارنا چاہتی ہے اگر وہ اِس میں کامیاب بھی ہو گئی تو بعد میں ملک میں جمہوری استحکام کی بجائے مزید عدم استحکام آئے گا۔ حکومت کا رویہ تو سب سے برا ہے، وہ اپوزیشن کو اشتعال دلا کر خود اپنا بھی اور نظام کا بھی بیڑہ غرق کر رہی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ سے ہر کوئی غیرجانبداری کی توقع کرتا ہے لیکن اپوزیشن کو یقین ہے کہ اسٹیبلشمنٹ غیرضروری طور پر حکومت کی مدد اور تعاون جبکہ اپوزیشن کی مخالفت کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو اپنے اِس تاثر کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے تینوں بڑے اسٹیک ہولڈرز یعنی حکومت، اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کو سامنے نظر آ رہا ہے کہ آگ لگنے والی ہے۔ تصادم شروع ہو چکا ہے لیکن تینوں روم کے آخری شہنشاہ نیرو کی طرح بانسری بجا رہے ہیں اور ملک تیزی سے نفرت، سیاسی مفادات اور ذاتی لڑائیوں کی آگ میں جھلسنے کی طرف بڑھ رہا ہے، اِس لئے تینوں فریقوں سے عرض ہے، نہ کریں، ایسا نہ کریں۔
سب اپنی اپنی جگہ رُک جائیں، جائزہ لیں اور سوچیں، یہ تینوں غلط راستے پر گامزن ہیں۔ حکومت کی 3 سالہ مدت ابھی باقی ہے۔ سیاسی جماعتوں، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایسے اتفاق کی ضرور ہے کہ حکومت کی مدت ایک سال کم کر دی جائے۔ میثاقِ جمہوریت میں بھی چار سالہ مدت کی نشاندہی کی گئی تھی مگر ساتھ ہی اگلے الیکشن کے غیرجانبدارانہ، منصفانہ اور شفاف ہونے کو یقینی بنایا جائے۔ اپوزیشن کو اِس بار ایسی ضمانتیں دی جائیں کہ وہ بااعتماد ہو کر اگلے الیکشن کےلئے میدان میں اُتریں۔ میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا سے گزارش ہے کہ وہ نہ کریں کا فارمولا غور سے پڑھیں۔
بختاور کی منگنی چودھری یونس آف لاہور کے بیٹے محمود چودھری سے طے پا گئی ہے۔ سوشل میڈیا میں چودھری یونس کے خاندان کے بارے میں بےپر کی اڑائی گئیں، وہ سیدھے سادےمسلمان ہیں، ختمِ نبوت پر یقین رکھتے ہیں۔ خاندان جوہر ٹائون لاہور اور دوبئی میں مقیم ہے۔ یونس چودھری ٹھیٹ لاہوری ہیں، وہ اور اُن کے اہلِ خاندان بوسکی کی قیمصوں اور لٹھے کی شلواروں کے روایتی پنجابی لباس میں ملبوس تھے۔ دولہا محمود چودھری آف وائٹ شلوار قمیص پہنے تھے اور ساتھ اُسی رنگ کی چادر اوڑھے ہوئے تھے۔ تقریب انتہائی سادہ تھی، سو کے قریب مہمان تھے ۔
زرداری صاحب طبیعت کی خرابی کے باوجود اُس سادہ مگر پُروقار تقریب میں شروع سے آخر تک مہمانوں کی خاطر داری میں مصروف رہے۔شہباز شریف، مریم نواز شریف اور حمزہ شہباز شریف کے حوالے سے حکومت سے عرض ہے کہ اُن سے جو سلوک کیا جا رہا ہے وہ نہ کریں۔ شہباز شریف جیل کاٹنے کے باوجود اب بھی مفاہمانہ سیاست کی بات کرتے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ حکومت اور نیب اپنا پورا زور لگانے کے باوجود ایک بھی دمڑی کا ایسا ثبوت نہیں لا سکے جس سے یہ ثابت ہو کہ شریف خاندان نے سرکاری فنڈز سے یا عوامی خزانے سے کوئی رشوت یا کک بیک لی ہو۔ اُن کا کہنا ہے کہ بچوں کے ذاتی کاروبار کو اپنی مرضی کا رنگ دے کر جھوٹے مقدمات بنائے جا رہے ہیں لیکن ابھی تک کسی ایک مقدمے میں بھی ایسا ثبوت نہیں لایا گیا جس میں یہ الزام ہی لگا ہو کہ پبلک منی سے کچھ چرایا گیا ہے،
اُنہوں نے احد چیمہ کی ضمانت کو حق کی فتح قرار دیا اور اُنہیں ایک بہادر اور دلیر بیورو کریٹ کا خطاب دیا۔ حکومت کے لئے بہتر ہوتا کہ وہ شہباز شریف کو گرفتار نہ کرتی۔ وہ اور حمزہ شہباز تو مفاہمت اور ڈائیلاگ کی بات کرتے رہے، اُن کو جیلوں میں بند کرنے کا مطلب مفاہمت کا دروازہ بند کرنا ہے۔ یاد رہے کہ مزاحمت کا دروازہ کھل چکا ہے۔ مریم مزاحمت کی علامت اور کرائوڈ پلر بن چکی ہیں، اگر مسلم لیگ ن نے اُن کی مقبولیت کو صحیح طور پر استعمال کیا تو لاہور کا جلسہ فقید المثال بن سکتا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر