نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے والد، والدہ، سسر اور ساس کی موت کو میں نے بہت حوصلے سے برداشت کرلیاتھا۔ چودھری انور عزیز صاحب کے انتقال کی خبر نے مگر ’’یوں کس طرح کٹے گا کڑی دھوپ کا سفر؟‘‘ والا سوال کھڑا کردیا ہے۔ ان سے جڑی یادوں کو ایک کالم میں سمو نہیں سکتا۔ اختصار نویسی کے تمام تقاضوں کو پوری طرح نبھاتے ہوئے بھی کئی سو صفحات پر مشتمل کتاب لکھنا ہوگی۔
اپنے اسلوب کے حوالے سے منفرد شمار ہوتے صحافی جناب عباس اطہر صاحب کی وساطت سے چودھری انور عزیز صاحب کے ساتھ میرا تعلق 1980 کی دہائی میں استوار ہونا شروع ہوا تھا۔ شاہ صاحب کی طرح چودھری انور عزیز کا بھی آبائی تعلق سرگودھا سے تھا۔ چودھری صاحب کے والد نے غربت کیساتھ نازل ہوئی کربناک مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے لاہور کے شہرئہ آفاق کنگ ایڈورڈز کالج سے ڈاکٹری کا امتحان پاس کیا۔ اس کی بدولت شکرگڑھ کے سرکاری ہسپتال میں تعینات ہوئے۔
شکرگڑھ میں تعیناتی کے دوران ڈاکٹر عزیز نے راوی کے کنارے آباد اس بارانی علاقے کے مکینوں سے تاحیات تعلق قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسی قصبے میں شادی کی اور وہاں کی غربت اور پسماندگی کا تعلیم کے فروغ اور مستقل مزاج محنت کے ذریعے مقابلہ کرنے کی روایت متعارف کروائی۔ ان کے فرزند -چودھری انور عزیز- ایک دراز قد اور وجہیہ نوجوان تھے۔ پیدائشی ذہین اور یاداشت بے پناہ جو بسااوقات اکبر کے نورتن -ابوالفضل- سے منسوب قصوں پر اعتبار کرنے کو مجبور کردیتی۔ علم و ادب سے جبلی محبت کے علاوہ چودھری صاحب تیراکی اور باکسنگ کے زبردست کھلاڑی بھی تھے۔ 1945 میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد نوزائیدہ ملک کی اولمپک کھیلوں میں نمائندگی کے لئے جو ٹیم تیار ہوئی چودھری صاحب اس کے نمایاں رکن تھے۔
امریکہ میں قانون کی تعلیم مکمل کی تو محض اپنی قابلیت اور علم کی بدولت یہ ’’دیسی‘‘ ریاست California کا ڈسٹرکٹ اٹارنی منتخب ہوگیا۔ اس ریاست کے مکینوں کا دیرینہ گلہ تھا کہ امریکی دریا Colorado کے پانی میں انہیں ان کے حق کے مطابق حصہ نہیں دیا جارہا۔ چودھری صاحب ان کی شکایت امریکہ کے سپریم کورٹ کے روبرو لے گئے۔ وہاں کے ججوں نے 27 سالہ وکیل کو درشتی سے ’’اطلاع‘‘ دی کہ اس کے پاس تو سپریم کورٹ کے روبرو دلائل دینے کے اہل بنانے والا لائسنس ہی موجود نہیں ہے۔ بالآخر ’’سینئر وکلا‘‘ پر مشتمل ایک نئی ٹیم تیار کرنا پڑی۔ کیلیفورنیا کو اس کے حق کے مطابق پانی کے حصول کی حمایت میں تمام تر دلائل مگر چودھری انور عزیز صاحب ہی نے بطور Consultant تیار کئے۔ ریاستوں کے مابین دریائی پانی کی تقسیم کے حوالے سے وہ دلائل اب امریکہ کی نصابی کتابوں میں درج ہوچکے ہیں۔ ایسے شاندار آغاز کے ساتھ چودھری انور عزیز یقینا امریکی سیاست میں کملا ہیرس سے کئی دہائیاں قبل ہی ’’تاریخ‘‘ بناسکتے تھے۔
1960 کی دہائی شروع ہوتے ہی وہ مگر چھٹی گزارنے پاکستان آئے تو ان کے والد نے بہت پریشانی سے چند تلخ حقائق کا ذکر کیا۔ ان کا بنیادی دُکھ یہ تھا کہ شکر گڑھ کے چند بااثر افراد اپنے تسلط کو توانا تر بنانے کے لئے غریب و لاچار لوگوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسوا دیتے ہیں۔ انور عزیز کو لہٰذا اپنی وکالت کیلیفورنیا کے باسیوں کو ان کا حق دلوانے کے لئے نہیں بلکہ شکرگڑھ کے غریبوں کے تحفظ کے لئے بروئے کار لانا چاہیے۔ چودھری صاحب نے عاجزانہ فریاد کی کہ محض وکالت ہی بے بسوں کے کام نہیں آئے گی۔ انہیں سیاست میں بھی حصہ لینا ہوگا۔ اپنی امریکی اہلیہ سمیت وہ فی الفور شکرگڑھ منتقل ہوگئے۔ نازونعم میں پلی Cathy بی بی نے حیران کن انداز میں خود کو مقامی پسماندگی کے ساتھ خوش دلی سے Adjust کرلیا۔ ان کی ٹھیٹھ پنجابی اور لہجہ اجنبیوں کو شسدر بنادیتا۔
اپنے والد کی اجازت سے چودھری صاحب نے 1962 میں ان دنوں کے مغربی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ نواب امیر محمد خان آف کالا باغ ون یونٹ کے بہت ہی بااختیار گورنر ہوا کرتے تھے۔ ان کی مرضی کے بغیر کم از کم آج کے پنجاب میں پرندہ بھی پر نہیں مارسکتا تھا۔ چودھری صاحب ان کی منشاء اور سرپرستی کے بغیر ’’نمودار‘‘ ہوگئے۔ کالا باغ کے نواب جلال میں آگئے۔ نوجوان امیدوار کو جھوٹے مقدمات کے قیام سے قابو میں لانے کی کوشش ہوئی۔ ریاستی جبر کا جبلی دلیری سے مقابلہ کرتے ہوئے چودھری صاحب مگر صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔ اس کے بعد حقیقی معنوں میں صرف ایک بار 1970 میں وہ پیپلز پارٹی کے طلسم کی وجہ سے انتخابی شکست سے دو چار ہوئے۔ 1990 اور 93 میں ان سے ’’جیت‘‘ چرائی گئی تھی۔ اپنے فرزند دانیال عزیز کو لیکن انہوں نے 1997کے قومی اسمبلی کے انتخاب کے دوران نواز شریف کے ’’ہیوی مینڈیٹ‘‘ کے مقابلے میں بطور ’’آزاد‘‘ امیدوار منتخب کروالیا۔ شکرگڑھ سے ان کی دائمی محبت کامیاب و کامران رہی۔ یہ محبت 2018 کے انتخاب کے دوران ان کی بہو مہناز دانیال عزیز کی کامیابی کی بدولت مزید اجاگر ہوئی۔
چودھری انور عزیز صاحب کی جبلت میں متاثر کن قوت سے موجود دلیری سے حقیقی آشنائی میری 1985 میں ہوئی۔ آٹھ برس تک پھیلے تادیبی مارشل لاء کے بعد جنرل ضیاء نے اس برس ’’غیر جماعتی انتخابات‘‘ کے ذریعے قومی اور صوبائی اسمبلیاں بحال کرنے کا فیصلہ کیا تو چودھری صاحب قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔ حلف اٹھانے کے بعد ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے انہیں بتایا کہ نوجوان اور کسی بھی ایوان میں پہلی بار منتخب ہوئے افراد کی بے پناہ اکثریت دنیا کو کسی نہ کسی صورت یہ دکھانا چاہ رہی ہے کہ وہ جنرل ضیاء کی کٹھ پتلیاں نہیں۔
جنرل ضیاء فیصلہ کرچکے تھے کہ ان کی جانب سے مجلس شوریٰ کے چیئرمین لگائے خواجہ صفدر مرحوم ہی بحال ہوئی قومی اسمبلی کے سپیکر ہوں گے۔ چودھری صاحب نے وفورِ جذبات میں اعلان کردیا کہ ’’ہم اپنا سپیکر‘‘ منتخب کروائیں گے۔ ان کی بڑھک کو میں نے سیاست دانوں کی روایتی یاوہ گوئی شمار کیا۔ چودھری صاحب مگر انتہائی استقامت سے اپنے عہد پر ڈٹ گئے۔ نئے اسپیکر کو منتخب کروانے کی کاوش میں بلکہ مجھے بھی اپنا ’’شریک جرم‘‘ بنالیا۔ یٰسین وٹو کے بجائے بالآخر سید فخر امام ’’ہمارے امیدوار‘‘ کیوں ہوئے یہ کہانی پھر سہی۔ سید فخر امام تاہم بھاری اکثریت سے منتخب ہوگئے۔جنرل ضیاء نے ان کے انتخاب کو ’’بغاوت‘‘ شمار کیا اور چودھری صاحب اس ضمن میں ’’مرکزی سرغنہ‘‘ قرار پائے۔
جنرل ضیاء کو میسر معلومات کی بنیاد پر چودھری انور عزیز محمد خان جونیجو مرحوم کی بنائی کابینہ کا اہم ترین رکن ہونے کی حیثیت میں مزید ’’ناقابلِ برداشت‘‘ محسوس ہونا شروع ہوگئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو طویل جلاوطنی کے بعد جب اپریل 1986 میں وطن لوٹیں تو جونیجو حکومت کو ان کے جلسوں اور جلوسوں کو کشادہ دلی سے برداشت کرنے کو مائل کرنے میں چودھری صاحب نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ شریف الدین پیرزادہ کی ’’جادوگری‘‘ کو بروئے کار لاتے ہوئے منتخب اراکین کو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے ذریعے ’’نااہل‘‘ کروانے کی قوت بھی ان ہی دنوں آزمانے کا فیصلہ ہوا تھا۔ ہائی کورٹ نے جہلم سے منتخب ہوئے راجہ افضل کو ’’نااہل‘‘ ٹھہراکر چودھری الطاف حسین مرحوم کو حلف اٹھانے کا اہل ٹھہرایا۔ چودھری انور عزیز نے تن تنہا دن رات ایک کرتے ہوئے اس ’’وار‘‘ کو بے تحاشہ سیاسی اور قانونی حربے استعمال کرتے ہوئے ناکارہ بنادیا۔ ان دنوں کے سپریم کورٹ نے ’’صادق اور امین‘‘ والی شرائط کی محدوددات کو تسلیم کیا۔ افتخار چودھری کی بطور چیف جسٹس بحالی کے بعد مگر شریف الدین پیرزادہ کا ایجادکردہ یہ ہتھیار بے دریغ انداز میں استعمال ہونا شروع ہوگیا۔ خود کو ’’ریٹائر‘‘ سیاست دان کہتے چودھری صاحب اس کی بابت مرتے دم تک تلملاتے رہے۔
وقت مگر بد ل چکا ہے۔ سیاست دانوں کی جی داری اور دلیری ماضی کے قصے بن چکے ہیں۔ ’’جی حضوری‘‘ دورِحاضر کا حتمی رویہ ہے۔ بدترین حالات کا ہمیشہ بہادری سے مقابلہ کرنے والے چودھری انور عزیز اس رویے کے بارے میں شدت سے کڑھنا شروع ہوگئے تھے۔ اگست 2008 کے بعد میں ’’مالیاتی بحران‘‘ کی زد میں آیا۔ چودھری صاحب نے ہمیشہ تسلسل سے تلقین کی کہ سرنہیں جھکانا۔ ڈٹے رہنا ہے۔ وہ اس جہاں سے گئے تو فکر یہ لاحق ہوگئی ہے کہ مجھے ہر حال میں ثابت قدم رہنے کا حوصلہ اب کون فراہم کرے گا۔
میرے لئے وہ فقط حوصلے اور ثابت قدم رہنے کا منبع ہی نہیں تھے۔ جوانی میں خود کو عقل کل تصور کرتا تھا۔ محفلوں میں دوسروں کو طنزیہ فقروں کے ذریعے اشتعال دلوائے بغیر چین ہی نہیں آتا تھا۔ میری خوش بختی یہ ہوئی کہ میری بیوی کے ننھیال کے ساتھ چودھری صاحب کا دیرینہ تعلق تھا۔ ان کے والد نے بطور سول سرجن شکرگڑھ پانی پت میں ہوئے ایک ہندو-مسلم فساد میں ہلاک ہوئے افراد کے دیانت دارانہ پوسٹ مارٹم کے ذریعے برطانوی دور میں حق کو آشکار کیا تھا۔ میری ساس اور سسر قیام پاکستان کے بعد ان کے گورنمنٹ کالج لاہور میں جونیئر بھی رہے۔ شادی کے بعد لہٰذا میں ان کے دوست کے بجائے ’’داماد‘‘ ہوگیا۔ ان کے ہوتے ہوئے اشتعال دلاتی بدتمیزی کو راغب ہوتا تو انتہائی شفقت سے یاد دلاتے کہ ’’ہم نے اپنے بال تمہارے قدموں میں رکھ دئیے ہیں‘‘۔ میں اس رشتے کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کے ہوتے ہوئے ’’جلال‘‘ میں آنے سے اجتناب برتوں۔ میں شرمندگی سے حواس باختہ ہوجاتا۔ لوگوں کی بات کو غور اور احترام سے سننے کا رویہ انہوں نے کمال شفقت سے میری شخصیت کا بتدریج حصہ بنایا۔ عرصہ ہوا میں ان کا ’’یار‘‘ بھی نہیں رہا تھا۔ میری بیوی اور بیٹیاں ان کی محبت وتوجہ کا اصل مرکز بن چکی تھیں۔ بہت مان سے وہ لوگوں کو بتاتے کہ ’’میری دھی‘‘ نے مجھ جیسے ’’اجڈ‘‘ کو ’’انسان‘‘ بنادیا ہے۔ مجھے ہر طرح کی راحت پہنچائی ہے۔ خاندانی نظام کی ’’برکتوں‘‘ سے آشنا کیا ہے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر