نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دوست جن کی پُرخلوص شفقت اور محبت کی بدولت اب تک زندگی سے کامل کنارہ کشی اختیار کرنے کو مجبور نہیں ہوا، ان کی تعداد ہاتھ کی اُنگلیوں کے برابر رہ گئی ہے۔جمعہ کے دن سے مگر مجھے یہ خوف لاحق ہونا شروع ہوگیا ہے کہ علامہ خادم حسین رضوی صاحب کے بارے میں میری بے لچک رائے انہیں مجھ سے ناراض نہ کردے۔
حیران کن حقیقت یہ بھی ہے کہ علامہ صاحب کی زندگی میں ان کے اندازِ سیاست کا میں شدید ترین ناقد رہا ہوں۔2017کے نومبر میں جب وہ ایک احتجاجی ہجوم کے ساتھ راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والے فیض آباد چوک میں دھرنا دے کر بیٹھ گئے تو دونوں شہروں میں زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی تھی۔ ’’خوفِ فساد خلق‘‘ سے گھبرا کر ہمارے میڈیا نے اس اہم ترین خبر کو نظرانداز کرنے کا فیصلہ کیا۔میں اپنے جذبات کو مگر قابو میں نہ رکھ سکا۔ بالآخر اپنے ٹی وی شو میں Liveٹیلی فون کالز کے ذریعے وہ اذیتیں منظر عام پر لانے کو ڈٹ گیا جو روزمرہّ زندگی معطل ہوجانے کی وجہ سے عام شہریوں کی بے پناہ اکثریت پر نازل ہوئی تھیں۔
میرے ساتھیوں کی اکثریت نے میری ’’دلیری‘‘ کو سراہنے کے بجائے مجھے احتیاط برتنے کے مشورے دینا شروع کردئیے۔علامہ صاحب اور ان کے جذباتی پرستاروں نے مگر کسی نوعیت کی ناگواری کا اظہار نہیں کیا۔ ان کے پُراعتماد رویے نے طاہر القادری کی یاد دلادی۔ کئی برس قبل ایک ٹی وی پروگرام میں ان کے بارے میں طنزیہ الفاظ کہے تھے۔ پروگرام ختم ہونے کے بعد گھر جانے کے لئے گاڑی میں بیٹھا تو ٹیلی فون کے ذریعے دھمکیوں اور گالیوں کی بارش شروع ہوگئی۔ جس نیٹ ورک پر وہ پروگرام چلاتھا اس کے اسلام آباد والے دفتر کے باہر احتجاجی مظاہرہ بھی ہوا۔ طاہر القادری نے منظم انداز میں جمائی اس دھونس کو کبھی Disownنہیں کیا۔ مولانا طارق جمیل کے کئی پرستاروں نے بھی ایسا ہی رویہ اختیار کیا تھا۔طارق جمیل صاحب مگر کئی دنوں تک ٹیلی فون کے ذریعے رابطے میں رہے۔میرے ساتھ ہوئے سلوک کی بابت پُرخلوص انکساری سے شرمندگی کا اظہار کرتے رہے۔ میرے دفاع میں انہوں نے ایک ویڈیو پیغام بھی جاری کیا۔
میرے ایک بزرگ علامہ خادم رضوی کے دیرینہ معتقد ہیں۔انہوں نے ازخود ان سے میرے لئے ’’معافی‘‘ کی درخواست کی ۔علامہ صاحب نے محض مسکراتے ہوئے بقول ان کے میرے ’’جلالی‘‘ انداز کو سراہا اور مجھ سے کوئی ایک ملاقات نہ ہونے کے باوجود میرے عقیدے اور ایمان پر کسی شک وشبہ کا اظہار نہیں کیا۔
علامہ صاحب کی ناگہانی موت کے بعد اندھی نفرت وعقیدت کی وجہ سے ہمارے معاشرے پر مسلط ہوئی تقسیم دل دہلادینے والی وحشت کے ساتھ ایک بار پھر عیاں ہوگئی ہے۔ میرے دوستوں کا شمار بھی شہری متوسط طبقے کے اس وسیع تر حلقے سے ہے جس کی دانست میں علامہ خادم حسین رضوی صاحب کو نواز شریف کی مخالفت میں یکجا ہوئی سیاسی اور غیرسیاسی قوتوںنے ’’لانچ ‘‘ کیا تھا۔یہ سوچتے ہوئے فرض کرلیا جاتا ہے کہ علامہ صاحب کی اپنی Core Constituencyنہیں تھی۔ ’’سرپرستوں‘‘ نے انہیں ’’نہ جانے کہاں سے ڈھونڈ کرتوانائی‘‘ فراہم کردی۔
2017میں ایک انتہائی حساس موضوع کے حوالے سے علامہ صاحب اور ان کی تحریک نے جو غضب بھڑکایا تھا اس کے بارے میں میرے بھی ہزاروں تحفظات ہیں۔میں یہ سوچ تسلیم کرنے سے مگر قطعاََ انکاری ہوں کہ علامہ صاحب کی Popular Baseنہیں تھی۔ ابلاغ کے ہنر کا طالب علم ہوتے ہوئے بلکہ یہ اصرار کرنے کو بضد ہوں کہ مرحوم ہر حوالے سے ایک طاقتور ترین کرشماتی شخصیت تھے۔
فن تقریر پر انہیں کمال کا ملکہ حاصل تھا۔ قرآن وحدیث کے مستند حوالوں سے وہ اپنے مسلک کی مبادیات کو انتہائی سادہ زبان میں بیان کرتے ہوئے اقبالؔ کے اشعارکے برمحل استعمال سے سامعین کے ساتھ ایک جان دار Emotionalیا جذباتی تعلق استوار کرلیتے جو بسااوقات سحر انگیزی کی صورت دکھائی دیتا۔
شہری متوسط طبقے کے مجھ جیسے افراد اس روایت سے قطعاََ نآشنا ہیں جو برصغیر میں انگریزوں کی آمد کے بعد مختلف مسالک کے علمائے کرام نے بہت لگن اور ثابت قدمی کے ساتھ کئی دہائیوں کی جدوجہد سے عام مسلمانوں کے دلوں میں اجاگر کی ہے۔ اس روایت نے مسلمانوں کی بے پناہ تعداد کو یہ سوچنے کو مجبور کیا کہ ان کی مذہبی شناخت خطرے میں ہے۔سامراج گھنائونی سازش کے ذریعے انہیںدین سے دوری اختیار کرنے کے جال بچھارہا ہے۔ 1857کی جنگ آزادی یا غدر نے ان کے خدشات کو مزید تقویت پہنچائی۔ سرسید اور ان کی علی گڑھ تحریک کو اسی باعث شدید تنقید اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔اس کے مقابلے میں دیوبند اور جامعہ ملیہ جیسے ادارے نمودار ہوئے تھے۔ ’’سامراجی سازشوں‘‘ کی بابت دنیا بھر کے مسلمانوں میں شک وشبے والے وسوسے آج بھی بہت شدت سے موجود ہیں۔ٹرمپ اور فرانسیسی صدر جیسے عالمی سطح کے طاقت ور ترین افراد ان کے وسوسوں کو اپنے رویے سے بلکہ ٹھوس جواز فراہم کرتے ہیں۔ Identityیا شناخت دورِ حاضر میں سیاست کا کلیدی سوال بن چکی ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اس تناظر میں خود کودیوار سے لگا محسوس کررہے ہیں۔تشویش کے اس عالم میں وہ ایسے رہ نمائوں کے بے تابی سے منتظر ہیں جو ان کی دانست میں ’’دین‘‘ کو بچانے والی مزاحمت کا اہتمام کریں۔ ہمارے ہاں علامہ خادم حسین رضوی صاحب نے ایسی ہی مزاحمت دکھائی اور اس راہ پر جسمانی معذوری کے باوجو ددلیری اور ثابت قدمی کے ساتھ چلتے نظر آئے۔
مذہبی شناخت کے بارے میں فکر مند ہونے کے علاوہ عام مسلمانوں کا وسیع تر حصہ بہت سنجیدگی سے یہ بھی سوچتا ہے کہ ان پر مسلط ہوئے حکمران اور اشرافیہ ’’اسلام دشمن قوتوں‘‘ کے سامنے سرنگوں ہوجاتے ہیں۔علامہ خادم حسین رضوی صاحب کے جن کلمات کو ہم ’’ناشائستہ‘‘ تصور کرتے ہیں وہ ان کے پرستاروں کو مزاحمت کی للکار سنائی دیتے تھے۔ ان کے پرستاروں کی عقیدت کی بنیاد اور Dynamicsکو ہمیں کھلے ذہن کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اس سے اتفاق اگرچہ لازمی نہیں۔ پڑھے لکھے شہری طبقات پر مشتمل میرا حلقہ احباب مگر State of Denial کی زد میں آچکا ہے۔حقائق دیکھنے سے انکاری ۔ ان حقائق کے منطقی انداز میں تجزیے کی لہٰذا کوئی گنجائش ہی نظر نہیں آرہی۔
ِState of Denialمگر اس حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتی کہ کرونا کی دوسری لہر کی وحشت ناک شدت کے باوجود ایک تاریخ ساز تعداد نے ہفتے کے روز علامہ خادم حسین رضوی کے جنازے میں شرکت کی ہے۔ہمارے ہاں تحقیقی صحافت نامی کوئی شے موجود ہوتی تو تھوڑی لگن سے بآسانی دریافت کیا جاسکتا تھا کہ علامہ صاحب کے جنازے میں شریک افراد کا اجتماعی Profileکیا ہے۔ 2018کے انتخاب میں علامہ صاحب کی جماعت نے پاکستان کے کئی شہروں میں حیران کن تعداد میں ووٹ حاصل کئے تھے۔ ایک عالمی صحافتی ادارے سے وابستہ میرے ایک ساتھی 2018کی ا نتخابی مہم کے دوران ان لوگوں کو ’’ڈھونڈنا‘‘ چاہ رہے تھے جو تحریک لبیک کو ووٹ دینے کو آمادہ تھے۔ چند مہربان دوستوں کی معاونت سے بالآخر چکوال کے ایک نواحی علاقے میں ایک مؤثر Pocketدریافت ہوئی جو تحریک لبیک سے وابستگی کا ڈٹ کر اظہار کررہی تھی۔اس گائوں میں موجود ایک پڑھی لکھی خاتون نے جو زندگی میں پہلی بار ووٹ دینے کے قابل ہوئی تھی کیمرے کے روبروکمال اعتماد سے وہ وجو ہات بیان کردیںجنہوں نے اسے علامہ خادم حسین رضوی صاحب کی جماعت کو ووٹ دینے کو مائل کیا تھا ۔کاش ہماری ’’رہنمائی‘‘ کو ہمہ وقت بے چین پاکستانی میڈیا بھی ایسے لوگوں اور ان کی سوچ کو صحافیانہ تجسس کی بدولت منظرِ عام پر لاتا۔
علامہ صاحب کی ناگہانی موت کی خبر نے ان کے حامیوں اور مخالفوں کی بے تحاشہ تعداد کو فوری طورپر جس سازشی کہانی کو فی الفور قبول کرنے پر مجبور کیا اس کی مقبولیت اور فروغ بھی ہر نوعیت کی اشرافیہ کے لئے باعثِ پریشانی ہونا چاہیے۔ اس سازشی کہانی کی پذیرائی نے حکمران اشرافیہ کی اجتماعی ساکھ کے بارے میں کلیدی سوالات اٹھادئیے ہیں۔
شہری متوسط طبقے کی اکثریت منافقانہ انداز میں مخالفین کی رائے سے اختلاف کے باوجود ان کی سوچ کو درگزر کرنے کا ڈھونگ رچاتی ہے۔علامہ خادم حسین رضوی صاحب کی وفات کی خبر ملتے ہی مگر سوشل میڈیا پر ان کے حامیوں اور مخالفین نے برجستہ طورپر جو خیالات Postکئے وہ اندھی نفرت وعقیدت کی بنیاد پر خوفناک حد تک منقسم ہوئے معاشرے کی تلخ حقیقت عیاں کررہے تھے۔ ہماری اکثریت مگر شترمرغ کی طرح ریت میں سرچھپاکر اسے دیکھنے کی جرأت سے محروم نظر آرہی ہے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر