نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملاح اور چراغی(قسط 1)۔۔۔گلزار احمد،وجاہت علی عمرانی

معروف کالم نگار، محقق و مورخ جناب گلزار احمد خان اور محقق و ادیب وجاہت علی عمرانی کی ثقافتی، سماجی، روایتی اور تاریخی یادوں پہ مبنی افسانوی و ادبی طرز کی مشترکہ تحریر جو کہ 11 اقساط پر مبنی ہےنذر قارئین ہے۔

گلزاراحمد،وجاہت علی عمرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملاح اور چراغی۔
بچپن میں ہم دیکھتے تھے کہ چپو چلاتے چلاتے ملاح (مہانڑہ)کے مضبوط بازوؤں کی مچھلیاں نہیں تھکتی تھیں،وہ اپنے کام میں اس قدر مگن نظر آتا کہ دنیا و مافیا کی اسے کوئی خبر نہ ہوتی، اسے صرف اتنا پتہ ہوتا کہ منزل کا تعین کیا ہے اور دریا کے کس رستے پر رواں ہونا ہے۔ ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک جانا اس کا معمول تھا۔
دریائے سندھ جسے شیر دریا کہا جاتا ہے کے شمالی ساحل پر بنے پختہ ”پتن“پر آج بھی کچھ کشتیاں لنگر انداز ہوتی۔ بس فرق یہ ہے کہ ماضی میں کشتی چپوّں سے چلاتے تھے اور آج کی کشتیوں میں پیٹر انجن لگے ہوئے ہیں۔ بہرحال یہ منظر بڑا روح پرورہوتا ہے اس میں ہمیں ماضی کی جھلک بھی دکھائی د یتی ہے۔ دور افق میں ڈوبتے سورج کی لالی اور دنیا کے جھمیلوں سے بے نیازملاح کا کشتی پر سوار افراد سیر کروانے اور منزل مقصود تک پہنچانے کا منظر ایک عجیب کیفیت کا غماز ہوتا ہے،دیکھنے والا اس منظر کی کشش سے نکل نہیں پاتا۔ کشتی جب شرقی یا غربی کنارے پر لنگر انداز ہوتی ہے تو ساحل پر کھڑے لوگ ایسے محو انتظار ہوتے ہیں جیسے وہ صدیوں سے اس منظر کی متلاشی ہوں۔ ملاح کے چہرے پر وہی روایتی مسکراہٹ نظر آتی ہے جو صدیوں سے اس کا خاصہ ہے، اس کے پاس شاید اس پر خلوص مسکراہٹ کے سوا مسافر کیلئے کوئی اورتحفہ نہیں ہوتا، مسکراہٹ کے پیچھے حقیقی خوشی ہوتی ہے جو اس کے دل سے اٹھتی ہے اور چہرے سے عیاں ہوتی ہے۔ اس مسکراہٹ کا پس منظر انسانیت کی بے لوث خدمت ہے۔
دریائے سندھ کی تہذیب بھی کشتیوں کی روانی سے ہی جڑی ہوئی ہے جب مسافروں کے ساتھ ساتھ تجارت کی غرض سے یہ کشتیاں ہی اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ شاعروں نے کشتی کو اپنی شاعری میں کثرت سے استعمال کیا ہے۔رومانوی شاعروں نے محبوب کے وصال میں کشتی کو بطور استعارہ رکھا۔ سرائیکی شعرا نے سرائیکی زبان گیت لکھ کر کشتی کے وجود کو امر کردیا سرائیکی زبان میں لفظ ”بیڑی“لکھا جاتا ہے اس سلسلے میں ایک گیت آج بھی زبان زد عام ہے،
پتن اُتے بیڑی،بیڑی وچ ہک پھل رتا جیہا
مل کے وت ناں وچھڑوں ایہا چن منگوں دعا.. بہرحال ملاح، کشتی اور سندھو دریا کے سفر پہ مبنی خاص آپ کے لیے ایک یادوں کا ورق کھولتے ہیں۔
ماہِ مارچ کے آخر میں جب ڈیرہ اسماعیل خان کے دریائے سندھ کا پانی دھیرے دھیرے چڑھنے لگا تو دریا میں موجود بیٹ بھی آہستہ آہستہ ختم ہونے کے ساتھ ساتھ بیٹوں پر موجودکوندر، بانڈ (بالنڑ)، کانے، گھاس پھوس اور دیگر خود رو بوٹیاں بھی پانی میں تیرتے نظر آنے لگے، یہ مفت کا وہ میٹریل تھا جس سے لوگ خوبصورت چٹائیاں اوربہت سی دوسری اشیا بناتے تھے اور ان ہی سے انکا رزق جڑا ہوتا تھا۔ دریا کہ ان بیٹوں پر پرندے، ممالیہ، حشرات الارض، گھاس پھونس، جڑی بوٹیاں الغرض حیات کی زنجیر کی تمام کڑیاں ایک مضبوط زنجیر کی صورت یہاں موجود تھیں۔ ماہِ اپریل کے وسط میں جب دریا میں پانی کا دباؤ بڑھا تو سردیوں میں بننے والا کشتیوں اور پھٹوں کا عارضی پل مکمل طور پر ہٹا دیا گیا۔ مگر ابھی دریا ئی سفر کے لیے ایس ایس جہلم اور لانچ سروس شروع ہونے میں دو دن باقی تھے۔ مگر کچھ مقامی کشتیاں سامان اور مسافروں کو دریا پار کرانے کے لیے چل رہی تھیں۔ مجھے دریا کے پار "لال آلی جھوک” میں ایک شادی میں شرکت کی خاطر جانا تھا۔ لال آلی جھوک پنج گرائیں سے مغرب میں چار پانچ کلومیٹر دریا کے بیٹ کے اندر ہے۔ گھر سے نکلتے ہوئے میں نے منہ کے چسکے کے لیئے گڑ میں بھنے ہوئے گندم کے دانے ایک کاغذ کے لفافے میں ڈالے اور گھر سے موج مستی اور فطرت کے نظاروں، کھیت کھلیانوں اور درختوں و پرندوں سے باتیں کرتا ہوا پیدل دریا کی طرف روانہ ہوگیا۔ دریا پر پہنچ کر میں اس وقت کے مشہور ملاح چاچے فضلے سے علیک سلیک کرنے کے بعد ان کی بیڑی یعنی کشتی پر سوار ہو گیا۔ جس میں پہلے ہی سے دس بارہ مسافر بیٹھے ہوئے تھے۔ انہی مسافروں میں ایک خاتون ہاتھ میں تیل،پھلیل، سرمہ، مُساگ،، مہندی والی پوٹلی پکڑے ، اپنے خاوند اور کمسن بیٹی کے ساتھ ایک طرف بیٹھے تھے۔کمسن لڑکی کے ایک ہاتھ میں کڑنگ ککڑ (مرغی) تھی جس کو انڈوں پر بٹھا کر چوزے نکالے جاتے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے وہ مونگ پھلی اور گڑ کی بنی گلدھانڑی کھا رہی تھی، بچی کی گردن میں بہت ہی نفاست سے چاندی سے ڈھلا ہوا چندن ہار سورج کی روشنی میں جگ مگ کر رہا تھا اور اپنے پاؤں کے درمیان اس نے اپنے خریدے گئے مٹی اور گتے کے بنے ہوئے کھلونے رکھے ہوئے تھے۔ سامنے ایک جوان شاید کسی کچے کے پرائمری سکول کا استاد لگتا تھا جسکے کان میں عقیق کی کیوٹی، دو گھوڑے بوسکی کا چولا اور کے ٹی کی شلوار پہنے، گلے میں ڈبیوں والا مفلر اور پاؤں میں پالش شدہ کھیڑی پہنے ہوئے بیٹھا دریا کی طرف چہرہ کئے کسی سوچوں میں گم کے ٹو کی سگریٹ پی رہا تھا۔ میرے بائیں طرف ایک لڑکی اور لڑکا الگ تھلگ بیٹھے تھے، انکی سرگوشیوں، ہلکی ہلکی مسکراہٹ اور کپڑوں سے ظاہر ہو رہا تھا کہ نیا شادی شدہ جوڑا ہے ۔ لڑکی کے ہاتھوں پر پوری مٹھ والی مہندی لگی ہوئی تھی، نیلے رنگ کی شنیل والا سوٹ پہنا ہوا تھا۔ عام دیہاتی عورتوں کی طرح برقعہ تو پہنا ہوا تھا لیکن چہرہ کھلا تھا اور اسی وجہ سے اس لڑکی کی ناک میں پہنا ہوا چاندی کا "کوکا” کانوں میں پہنی "چیلکاں ” گلے میں پہنی "چونپ کلی ” انگلیوں میں پہنا ” بندڑہ” صاف نظر آرہے تھے، بلکہ پاؤں میں پہنے "رمجھول” تو غضب کے بنے ہوئے تھے۔ شہر سے شاید خریداری کر کے آ رہے تھے، لڑکے کے ہاتھ میں ایک سوہن حلوے کا ڈبہ اور لڑکی کے پاس ایک کپڑے کا بنا ہوا تھیلا تھا جس میں خریدا گیا سامان بند تھا۔ سامنے چار کھیری (دودھ فروش) شہر میں دودھ بیچنے کے بعداپنی خالی ولٹوئیاں اور دو سندھاریاں سنبھالنے کے ساتھ ڈودھی والا حلوہ کھانے کے علاوہ کسی غلامو نامی "چھیڑو” کے بارے باتیں کر رہے تھے، شاید وہ چھیڑو بھینسوں کی ٹھیک خدمت نہیں کر رہا تھا جسکی وجہ سے انکی بھینسوں میں دودھ کی مقدار کا مسئلہ آ رہا تھا۔ خاص کر وہ اپنے علاقے میں ہونے والے میلے میں اپنے اور جانوروں کی تیاری کے بارے باتیں کررہے تھے۔ ایک ساٹھ ستر سال کا بزرگ سر پر روایتی مایع لگا طرہ یعنی پٹکا باندھے اور ہاتھ میں بید کی سوٹی پکڑے بیٹھا تھا اور اس کے ساتھ اسکے گھر کی تین خواتین نیل لگے سفید لیلن کے کپڑے کے بنے ڈیرہ کے روایتی گول ٹوپی (شٹل کاک) والے برقعوں میں ملبوس بیٹھیں تھیں۔ ان برقعوں پر سفید ریشمی دھاگے سے ثقافتی ڈیزائن پہ مبنی ہاتھ کی بہترین کشیدہ کاری کی گئی تھی جو کہ نہ چاہتے ہوئے بھی میری آنکھیں بار بار ان برقعوں کی کشیدہ کاری کی طرف مبذول ہو رہی تھیں۔ چاچے فضلے نے اللہ دا ناں، اللہ دا ناں، لو ناں کا نعرہ لگاتے ہوئے کشتی کا رسہ کنارے پہ لگے پیپل کے درخت سے کھولا اور کشتی دریا کی سیڑھ میں ڈال دی…
جاری ہے ۔۔۔

About The Author