گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں جب ہم شعور میں آۓ تو شھر ایک پوری تہذیب اور ثقافت کے رنگوں سے جگمگ جگمگ کر رہا تھا۔ ڈیرہ ٹاون ہال ہمارے لئے بیک وقت ایک پارک۔کھیل کا میدان ۔لائیبریری۔پریس کلب اور تھیٹر تھا۔ اس ھال میں ڈیرہ کے فنکار ڈرامے کرتے۔مداری تماشا دکھاتے۔
گلوکار نغمے سناتے اور جُھومر ڈانس ھوتا۔۔جرگے ھوتے۔ قرات کے مقابلے ھوتے ۔ عید نماز ھوتی۔ ھال کے اردگرد باھر ٹینس اور باڈی بلڈنگ ہوتی ایک طرف فٹبال جاری رھتی۔ کئ جوان بیڈ منٹن کا نیٹ لگاتے ۔
غرض ہر عمر کے بندے کے لئے کوئی نہ کوئی سرگرمی نظر آتی ۔لائبریری میں نایاب کتابیں موجود تھیں اور باقائدگی سے طالب علم لے جاتے۔ ایک لمبے میز پر تمام اخبارات رکھے ہوتے اور اردگرد دو درجن کرسیاں اخبار بینوں سے پُر ھوتیں۔ ہمارے ایک بزرگ جنہیں ہم انکل زیدی کہتے تھے وہ روزانہ لائیبریری میں موجود ھوتے اور طالب علموں کی رہنمائی کرتے ۔
انکل زیدی جنوبی ایشا کے پہلے مسلمان پائلٹ تھے اور ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رھے تھے ۔ ان کے روزانہ کے معمولات میں دریا پر جا کر سوئمنگ بھی شامل تھا کیونگہ دریا میں تیرنا سب سے بہترین ورزش ھے انکل زیدی دبلے پتلے لمبے تڑنگے بہت صحت مند۔خوبصورت اور شفیق آدمی تھے بڑے خوشگوار موڈ میں جوانوں سے ملتے۔ اور ہر قسم کے مسائل پر گفتگو کر کے رہنمائی کرتے۔
پریس کلب میں بڑے لوگ آتے اور صحافیوں کی تربیتی کورس بھی منعقد ہوتے۔ ادھر سرسید ڈیرہ نواب اللہ نواز خان نےگومل یونیورسٹی میں سارے پاکستان سے سکالر اکٹھے کئے اور ایک گیلیکسی بنادی ۔ابتداء میں جن لوگوں نے یونیورسٹی شروع کی وہ پاکستان کی کریم تھی جو نواب صاحب ھیروں کی کان سے نکال کے لاۓ تھے۔ نواب صاحب خود برطانیہ سے اعلی تعلیم یافتہ اور بے پناہ تجربہ رکھتے تھے۔
پورے ملک کے کونے کھدرے سے جو بھی لائق پروفیسر تھا گومل یونیورسٹی میں بھرتی کر لیا۔ یہ نواب صاحب کا خلوص اور کمال تھا کہ آدھے شھر کے مکانوں کو کراۓ پر لے کر یونیورسٹی چلا دی۔ایسے نایاب مضامین جو ابھی دوسری یونیورسٹیوں میں شروع نہی ھوۓ تھے گومل میں پڑھاۓ جانے لگے۔ پاکستان کے بڑے بڑے سکالر نواب صاحب یونیورسٹی بلاتے اور انکے لیکچر ہم سنتے۔
یونیورسٹی کے سات سال بعد ریڈیو پاکستان ڈیرہ قائم ھوا تو وہاں مقامی ثقافت کے رنگ کھلنے لگے۔ اس سے پہلے حاجی علیم اکبر صاحب۔ یامین سید صاحب۔پروفیسر ڈاکٹر غلام فرید صاحب ۔عزیزاللہ اعوان صاحب میر واعظ صاحب ڈیرہ آرٹ کونسل چلا رھے تھے جو فنکاروں کی حوصلہ افزائی اور عوام میں تعلیمی شعور اجاگر کرنے کے لئے پروگرام کرتے۔
حلقہ ادب ثقافت ہمارے دوست اور صحافی لطیف الرحمان صاحب بڑی عمدگی سے چلا رھے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ شاعروں اور ادیبوں کے بھت سے حلقے تھے۔ دریا سندھ کا کنارہ ڈیرہ کے ثقافت کا امین رہا ھے۔ چھاونی کے اندر جانے کی چار سڑکیں کھلی تھیں اور لوگ آزادی سے دریا کے کنارے پہچتے۔ مڈوے ھوٹل ۔انڈس ھوٹل پر ہجوم ھوتا ۔طالب علم اور پروفیسر اکٹھے بیٹھ کے چاۓ کی میز پر علمی بحثیں کرتے۔
اب تو پورے شھر میں ڈھنگ کی شام گزارنے کے لئے جگہ ہی نہیں بچی جہاں چاند کی کرنوں کو دریا کی لہروں سے کھیلتا دیکھیں اور جھومتے ٹہلتے گنگناتے قہقہے مارتے واپس لوٹیں۔دل افسردہ پڑ جاتا ھے جب شھر کی پرانی رونقیں یاد آتی ہیں کیونکہ ڈیرہ شھر کو دھشت گردی کے آسیب نے جکڑلیا اور سب کچھ تباہ ہو گیا اور شھر کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا گیا ۔
اب اگر سندھ کنارے کو آباد بھی کیا جا رہا ھے پھر بھی وہاں لوگ سہمے سہمے ڈرے ڈرے واک کرتے نظر آتے ہیں وہ کُھلا ڈُلا ماحول وہ بارونق شامیں وہ دریا کے کنارے بانسری کی آواز وہ من چلوں کے ڈھول کی تھاپ پر ڈانس کہیں نظر نہیں آتے۔سرائیکی شعر ھے؎
ثَمے وِی رَنگ پَرنگے ھَن ۔اُتُوں ویلے وِی چَنگے ھَن۔۔۔ڈِیہاڑے سُوھنڑیں لَنگھے ھَن ۔اَساں ہاں یار پَردیسی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ