اسلم ملک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ بھی لکھوں لحاف کی تہوں میں دب جاتا ہے : عصمت چغتائی
عورتوں میں ہم جنس پرستی پر یہ مشہور کہانی لکھنے والی عصمت چغتائی کی 29 ویں برسی 24اکتوبر کو منائی گئی . وہ 21 اگست 1911ء کو بدایوں میں پیدا ہوئیں اور 24 اکتوبر 1991ء کو بمبئی میں انتقال ہوا. .
عصمت چغتائی نے بدایوں، بھوپال، آگرہ، لکھنؤ، بریلی،جودھ پور،علی گڑھ اور بمبئی میں زندگی گزاری۔ والد مرزا قسیم بیگ چغتائی جج تھے۔ چھ بھائیو ں اور چار بہنوں میں عصمت کا دسواں نمبر تھا۔ ان کے ایک بھائی عظیم بیگ چغتائی بھی مشہور ادیب تھے ۔
بچپن ہی سے عصمت کے مشاغل لڑکوں جیسے تھے، پتنگ بازی اور بنٹے کھیلنا وغیرہ ۔ ان کی سوچ باغیانہ تھی ۔1942میں عصمت کی فلم ساز شاہد لطیف سے شادی ہوئی،جس سے دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ پہلے تدریس کا شعبہ اختیار کیا، پھر مکمل طور پر ادب اور فلم سے وابستہ ہوگئیں۔
عصمت چغتائی ادب کی ترقی پسند تحریک میں شامل تھیں ۔ ان کا کہنا تھا ایسا ادب جو انسان کی بھلائی چاہے، جو انسان کو پیچھے نہ دھکیلے۔ جو انسان کو صحت، علم اور کلچر حاصل کرنے میں مدد دے اور جو ہر انسان کو برابر کا حق دینے پر یقین رکھتا ہو۔ انسان کی بھلائی چاہے۔ اندھیرے میں جانے کی بجائے اجالے کی طرف آئے۔ قصہ، کہانی، نظم، غزل جن سے انسان کی فلاح و بہبود مقصود ہو وہی ترقی پسند ادب ہے۔
عصمت چغتائی کا پہلا افسانہ ”گیندا“ تھا۔ "چوتھی کا جوڑا” عصمت چغتائی کا نمائندہ افسانہ ہے۔عصمت چغتائی کے ناولوں میں ضدی، ٹیڑھی لکیر، معصومہ، سودائی، عجیب آدمی،جنگلی کبوتر، ایک قطرۂ خوں شامل ہیں، ’’کاغذی ہے پیرہن ‘‘ کے نام سے آپ بیتی بھی لکھی۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں کلیاں، ایک بات، چوٹیں، دو ہاتھ، چھوئی موئی، بدن کی خوشبو اور آدھی عورت آدھا خواب شامل ہیں
انہوں نے کئی معروف ادبی شخصیات کے خاکے بھی لکھے،جن میں اسرارالحق مجاز، سعادت حسن منٹو، خواجہ احمد عباس، کرشن چندر، سجادظہیر، پطرس بخاری، میراجی،جاں نثار اختر شامل ہیں۔اپنے بھائی عظیم بیگ چغتائی کا خاکہ ’’دوزخی‘‘ کے نا م سے لکھا جسے منٹو نے بہت سراہا. ان کی بہن اقبال نے اس پر تنقید کی تو کہا کہ
’’ اگر تم ایسا ہی خاکہ مجھ پر لکھنے کا وعدہ کرو تو میں آج ہی مرنے کو تیار ہوں۔‘‘
عصمت چغتائی کا افسانہ’’ لحاف‘‘ جو خواتین میں ہم جنس پرستی کے بارے میں تھا، سخت نکتہ چینی کا نشانہ بنا لیکن انہوں نے کبھی یہ کہانی لکھنے پر افسوس کا اظہار نہ کیا، ان کے بقول یہ نوابی سماج کی ایک عام بات تھی۔ اپنی آپ بیتی میں لکھتی ہیں کہ لحاف سے پہلے اور لحاف کے بعد میں نے جو کچھ لکھا اس پر کسی نے غور نہیں کیا۔ لحاف کا لیبل اب بھی میری ہستی سے چپکا ہوا ہے۔ لحاف میری چڑ بن گیا۔ میں کچھ بھی لکھوں لحاف کی تہوں میں دب جاتا ہے۔ لحاف نے مجھے بڑے جوتے کھلوائے۔
"لحاف” پر ڈائریکٹر راحت کاظمی نے فلم بنائی. لحاف پہ ہی ہدایت کار وشال بھردواج بھی "ڈیڑھ عشقیہ‘‘ بنا چکے ہیں جس میں نصیرالدین شاہ اور مادھوری کے ساتھہ ارشد وارثی بھی تھے۔
قرۃ العین حیدر اور عصمت چغتائی کی معاصرانہ چشمک سب جانتے ہیں۔ عصمت نے قرۃ العین حیدر کے بارے میں ’’ پوم پوم ڈارلنگ ‘‘ کےعنوان سے مضمون لکھا، جس کا جواب قرۃ العین حیدر نے ’’لیڈی چنگیز خان‘‘ لکھ کر دیا۔
عصمت چغتائی نے تقریباً 14 فلموں کے لیے سکرپٹ اور مکالمے لکھے۔1948 میں فلم ضدی لکھی ۔ 1950 میں فلم آرزو کی کہانی، ڈائیلاگ اور اسکرین پلے اور 1958 ء میں فلم سونے کی چڑیا کی کہانی لکھی۔ فلم جنون اور فلم محفل کے بھی ڈائیلاگ تحریر کئے۔ ‘جنون’ میں خود بھی اداکاری کی۔1974 ء میں بننے والی فلم "گرم ہوا” عصمت چغتائی کے ایک افسانے پر بنائی گئی تھی۔ اس فلم کے ڈائیلاگ اور اسکرین پلے کیفی اعظمی اور شمع زیدی نے تحریر کئے.
عصمت چغتائی کا 24 اکتوبر 1991 کو بمبئی میں انتقال ہوا۔ ان کی وصیت کے مطابق ان کے جسد خاکی کو نذر آتش کیا گیا ۔ یہ ان کا آخری حرف بغاوت تھا !
ممتاز ناول نگار فاروق خالد بتاتے ہیں.. 1985ء میں یا اس کے آس پاس جب مَیں اپنی پہلی (ولندیزی) بیوی کے ساتھ ممبئی گیا تو ٹیلی فون کر کر کے ہم دونوں عصمت چغتائی صاحبہ کے گھر گئے۔ دوران گفتگو ن- م- راشد کا ذکر آیا تو ان کے کلام کی تعریف کے علاوہ عصمت صاحبہ نے ان کے مرنے کے بعد نذرِ آتش ہونے کو بھی بہت سراہا تھا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر