نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کب تک بے حس حکمران عوام کے صبر کو آزماتے رہیں گے؟۔۔۔رضوان ظفر گورمانی

ان سے اچھا تو وہ نیم خواندہ مناسب شکل و صورت والا پولیس والا نکلا جس نے اس بیٹی کا درد محسوس کرتے ہوئے اپنی بیٹی کو پیش کیا

رضوان ظفر گورمانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کراچی کی تبسم نامی خاتون علاج کے لیے جناح ہسپتال کراچی جاتی ہے وہاں اسے ملک رفیق نامی شخص ملتا پے جو اسے نوکری کا لالچ دیتا ہے کہ وہ اس خاتون کی مدد کرے گا اس کے بچوں کا سہارا بنے گا اسے ملازمت دے گا اس کی چالیس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ہو گی اور بس خواتین کی چیکنگ کا کام ہے۔
خوشحال زندگی کا خواب لیے تبسم اپنی چار سالہ بچی علیشا کو ساتھ لیتی ہے اور کراچی سے کشمور پہنچتی ہے۔یہاں ملک رفیق نامی شخص اس کو ریسیو کرتا ہے اور دس دن تک اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔بخار میں مبتلا چار سالہ علیشا کو ماں سے الگ رکھا جاتا ہے۔بچی کی چیخنے کی آوازیں ماں کا کلیجہ چیرتی تھیں۔پھر وہ وقت بھی آیا ہو گا جب ماں ہاتھ جوڑ کر منتیں کرتی رہی ہو گی کہ جو کچھ کرنا ہے میرے ساتھ کر لو مگر میری بچی کو کچھ نہ کہو درندوں نے بخار میں پھنک رہی چار سالہ بچی کو لیرو لیر کر دیا۔
اس کے بعد ملک رفیق تبسم نامی خاتون کو مبلغ تیس ہزار میں آگے کسی بگٹی کو بیچ دیتا ہے۔تبسم کسی طرح وہاں سے فرار ہو کر کشمور تھانے میں پہنچتی ہے۔اس کے پاس ملزمان کی شناخت کے نام پہ بس اک نمبر ہوتا ہے۔
نمبر آف ہونے کی صورت میں پولیس خاتون کی مدد سے انکار کر دیتی ہے۔تبسم اک ماں تھی اور ماں کو کہاں چین پڑتا تھا وہ ایس ایچ او کے گھر پہنچ کر رو رو کر دہائیاں دینے لگی۔خدا بخش ابریڑو کا دل پسیج گیا اس نے خاتون کو گھر میں رکھا جب نمبر آن ہوا تو ملزم نے کسی اور لڑکی کے بدلے اس کی بچی کی شرط رکھ دی۔
پولیس افسر خدا بخش نے اپنی بیٹی کو لڑکی بنا کر فون پہ بات کرائی اور ریڈ کر کے پہلے ملزم کو گرفتار کیا اور اس کی نشاندہی پہ خالی مکان سے زخم خوردہ علیشا کو بازیاب کرایا گیا۔بازیابی کے دوران پولیس والے معمول کے مطابق ویڈیو ریکارڈنگ کر رہے تھے۔ماں بچی سے پوچھ رہی تھی کہ کس نے مارا بچی نے سسکتے ہوئے بتایا کہ اسی انکل نے جو ہمیں کراچی سے لائے مجھے یہاں مارا یہ کہتے ہوئے بچی نے جیسے ہی شلوار نیچے کی تو اندرونی اعضا لٹکتا دیکھ کر ماں کی نکلنے والی چیخ میرے ذہن سے نہیں نکل رہی۔
میں تب سے سراپا سوال ہوں قیامت کیوں نہیں آئی۔یہ کاروبار زندگی رواں دواں کیسے ہیں ہم خوش باش کیسے ہیں کسی کو کوئی فرق کیوں نہیں پڑا ؟
لٹکتے پیٹ والے ملاں کہتے ہیں کہ میڈیا نے ننگی لڑکیاں نچا کر جذبات ابھارے ہیں ادھر لاکھوں روپے تنخواہیں لینے اور سوٹ بوٹ والے اینکرز کے منہ سے بھی اک لفظ نہ نکلا
ان سے اچھا تو وہ نیم خواندہ مناسب شکل و صورت والا پولیس والا نکلا جس نے اس بیٹی کا درد محسوس کرتے ہوئے اپنی بیٹی کو پیش کیا
ایسے میں پیپلز پارٹی کے اس ایم این اے پہ بھی لعنت جو مبینہ طور پہ ملزمان کی پشت پناہی کر رہا ہے
افکار علوی ٹھیک کہتا ہے کہ یہ زمین والے ہمارا دکھ سمجھ ہی نہیں سکتے ہمیں اپنے زخم خدا کو دکھانے ہیں مگر خدا بھی تو دیکھ رہا ہے وہ کب تک بس ایسے دیکھتا رہے گا؟
ہم کب تک ایسے واقعات پہ بس مذمت پہ اکتفا کرتے رہیں گے؟کب تک بے حس حکمران عوام کے صبر کو آزماتے رہیں گے؟یقین کریں میری تو بس ہو گئی ہے ہمارے آنگن کا سب سے چھوٹا پھول ایمل بلوچ ابھی چھ ماہ کی ہے میری آنکھوں کے سامنے سے ایمل کا چہرہ ہٹتا ہی نہیں۔مجھے علیشا میں ایمل نظر آتی ہے۔یقیناً بیٹیوں والے اس بیٹی کا دکھ محسوس کر پائیں گے۔خدارا باہر نکلیں ان حکمرانوں کو گریبانوں سے پکڑ کر ان سے جواب لیں کہ اپنا فرض پورا کیوں نہیں کر رہے؟ ایسے درندوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے آواز اٹھائیں خدارا یہ چپ توڑیں اور چیخ چیخ کر اپنے ہونے کا ثبوت دیں۔

About The Author