شہریارخان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بندہ اتنا بھی بااختیار نہ ہو جتنا اپنے وزیر اعظم عمران خان ہیں۔ ادھر کسی وزیر یا سرکاری افسر کی تعریف کرتے ہیں اور ادھر اس وزیر یا سرکاری افسر کی چھٹی ہو جاتی ہے۔ جس کارکردگی کی کپتان نے تعریف کی وہ دو منٹ میں ختم۔
بھائی ایسی بھی کیا بے مروتی، کپتان ہمارا وزیر اعظم ہے اس بے چارے کے بیان کو اتنا پرانا تو ہونے دیا کرو کہ لوگوں کے ذہن سے نکل جائے کہ کس کی تعریف کی تھی کس پہ تنقید کی تھی؟۔ جس کی تعریف کی ہو اسے ہٹا دیتے ہیں ظالم اور جس کو برا بھلا کہا ہو اسے کسی بڑے عہدے پہ بٹھا دیتے ہیں۔
یہ تو روندی ڈالنے والی بات ہے۔ اگر ایسے ہی کھیل میں بے ایمانی ہوئی تو ہمارا کپتان نہیں کھیلے گا۔اسی لیے تو دس سال پہلے حامد میر کو کہتا تھا کہ دیکھو حامد میں جب بھی آیا عوام کے ووٹ سے آﺅں گا ورنہ نہیں آﺅں گا کہ میں اپنی مرضی سے کام کرنا چاہتا ہوں۔
میرے خیال میں بنی گالا میں بھی کپتان کی نہیں چلتی۔دیکھئے ناں چند روز ہی تو گزرے ہیں جب پنجاب کے پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی سے بات کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے دل کھول کے فیاض الحسن چوہان کی تعریف کی۔
بولے کہ سب وزیر خاموش ہوتے ہیں اور اپنا فیاض الحسن چوہان بولتا ہے۔ سب کو فیاض الحسن چوہان کی طرح بولنا چاہئے۔ بے چارہ فیاض الحسن چوہان بطور وزیر اطلاعات پنجاب ایک تقریب میں شریک تھا کہ باہر قیامت گزر گئی۔
تقریب سے باہر آئے تو محمد خان جونیجو کی طرح دکھائی دئیے۔ سرکاری میڈیا پی ٹی وی ، ریڈیو پاکستان اور اے پی پی کے تمام رپورٹرز اور کیمرہ مین غائب تھے۔ نجی چینل والوں نے پوچھا کہ آپ کو وزارت اطلاعات سے ہٹا دیا گیا ہے تو چوہان صاحب کے چہرہ پہ اداسی ایسی کہ بس اب رویا کہ اب۔
سوال پوچھنے پہ بولے کہ مجھے نہیں معلوم، مجھے خبر ہی نہیں ہے کہ ہوا کیا ہے۔۔ اطلاعات کا وزیر ہو تو ایسا کہ جسے کوئی اطلاع ہی نہیں کہ اس کے ساتھ کیا ہاتھ ہو گیا ہے؟۔ جیسے اپنے وزیر ریلوے شیخ رشید صاحب جنہیںریلوے کے علاوہ ہر شے کا پتا ہے، چاند پہ کتنے گڑھے ہیں یہ بھی معلوم ہو گا۔
جناب کھڑے کھڑے یہ زائچہ بھی نکال دیتے ہیں کہ کون سی جماعت کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، اپوزیشن کا کون سا لیڈر گرفتار ہو گا، کون رہا ہو گا سب کی خبر ہے۔۔ بس نہیں معلوم تو یہ نہیں جانتے کہ اپنی وزارت میں کیا ہو رہا ہے؟۔
جیسے اپنے وزیر اعظم صاحب، شاید انہیں صبح معلوم ہو کہ جس وزیر کی چند روز پہلے تعریف کی اور تمام وزرا کو اس کی تقلید کا کہا تھا اسے کھڈے لائن لگا دیا ہے۔ خیر کیا ہوا جو ایسا ہوا، پہلے بھی تو ہو چکا ہے۔ آئی جی پنجاب کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دئیے۔
چند ہی روز میں صوبہ کے آئی جی کو لاہور شہر کے سی پی او کے ہاتھوں ذلیل کروا کے نکالا۔ اتنا با اختیار وزیر اعظم ۔۔۔ کہ جن پہ جنت میں بیٹھے اپنے سابق صدر فضل الہٰی پھجا جی بھی ہنستے ہوں گے ۔۔ ممنون حسین بھی اپنی مرضی سے دہی بھلے کھانے جا سکتے تھے لیکن کپتان کو تو چپراسی بھی مرضی کا نہیں رکھنے دیا گیا۔
مجھے یقین ہے کہ اگر عمران خان کو اختیار دیا جاتا تو وہ یقیناً جسے چپراسی نہیں رکھنا چاہتے تھے اس کو وزیر نہ بناتے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اگر وزیر اعظم کو اجازت ہوتی فیصلہ کرنے کی تو وہ کابینہ پندرہ سے بیس ارکان پہ مشتمل رکھتے کیونکہ وہ کہتے تھے بڑی کابینہ تو وہ بناتے ہیں جو اپنی کرپشن کو چھپانے کے لیے دوسروں کو وزارت کی ہڈی ڈالتے تھے ۔
شاید اپنا وزیر اعظم بااختیار ہوتا تو پرویز الہٰی تو یقینا سپیکر پنجاب اسمبلی نہ ہوتے کیونکہ انہیں تو وہ پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے۔ اب کوئی ڈاکو کو سپیکر تو نہیں بنا سکتا ناں؟۔
اپنے وزیر اعظم صاحب صحیح کہتے تھے کہ جو پیسے دیتے ہیں وہ آپ کی خود مختاری بھی لے جاتے ہیں۔ جس کا پیسہ ہوتا ہے فیصلے بھی اسی کے ہوتے ہیں۔ اب یہ نہیں سوچیئے گا کہ میں ان کے ذاتی اے ٹی ایم کی بات کر رہا ہوں بلکہ میں تو آئی ایم ایف کے فیصلوں کی بات کر رہا ہوں۔
مشیر خزانہ آئی ایم ایف سے، پھر سٹیٹ بینک کا گورنر بھی آئی ایم ایف کا عہدیدار، ڈپٹی گورنر بھی انہوں نے اپنا ہی بھیجا۔۔ کہ پہلے انسپکشن کے لیے ٹیمیں بھیجی جاتی تھیں تو ان پہ اخراجات ہوتے تھے اب انسپکشن بھی انہوں نے ہی کرنا ہے جو عہدیدار ہیں۔
یہ اہم اداروں کے عہدیدار اب تنخواہ بھی حکومت پاکستان سے لیتے ہیں، مراعات بھی۔۔ویسے مراعات سے یاد آیا کہ زلفی بخاری کے حوالہ سے مشہور ہے کہ وہ اوورسیز پاکستانیوں کی وزارت سے تنخواہ لیتے ہیں نا ہی مراعات۔۔
ہم بھی یہ سن کر بہت خوش تھے کہ معلوم ہوا تنخواہ اور مراعات کیا چیز ہے، ان کی غیر قانونی کروڑوں روپے کی ٹرانزیکشن کی خبر ذرائع سے نیب نے جاری کی۔۔ لیکن پھر معلوم نہیں کیوں وہ فائل ہی وہاں سے غائب ہو گئی ہے۔
ویسے تو اپنے کپتان کو اختیار چلتا تو وہ کسی بھی غیر ملکی شہریت کے مالک افراد کو کابینہ میں شامل بھی نہ کرتا کیونکہ کچھ عرصہ پہلے تک وہ کہتا تھا کہ جو ملکہ برطانیہ یا کسی اور ملک کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھا چکا ہو اسے حکومتی فیصلوں میں شامل نہیں ہونا چاہئے لیکن یہ مشیر، معاونین خصوصی اور سٹیٹ بینک کے عہدیدار کبھی بھی امریکی اور برطانوی شہری نہیں ہو سکتے تھے اگر کپتان بااختیار ہوتا۔
کاش کوئی جائے اور کپتان کو بتائے جیسے ہی وہ کسی شے کی قیمت بڑھنے کا نوٹس لیتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ قیمتیں کم کی جائیں وہ مزید بڑھ جاتی ہیں۔ اس لیے یاد کرو کپتان کہ تم بااختیار وزیر اعظم بننا چاہتے تھے آج فردوس عاشق اعوان اور بابر اعوان کو مشیر بنا دیکھ کے اپنے پرانے انٹرویوز تو یاد آتے ہوں گے یا پھر وہ پرانے انٹرویوز دیکھنے کا بھی اختیار نہیں؟۔
قلم درازیاں ۔۔۔۔ بشکریہ روزنامہ کسوٹی پشاور
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر