نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرتضیٰ سولنگی مجھے بہت عزیز ہے۔ زندگی کے کئی برس موصوف نے ریڈیو کے ذریعے عوام سے رابطے کا ہنر سیکھنے کی نذر کئے ہیں۔ ’’وائس آف امریکہ‘‘ کے لئے واشنگٹن میں رہتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو نکھارا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی خواہش تھی کہ وہ پاکستان لوٹ ا ٓئیں۔ وہ اس جہاں میں نہ رہیں لیکن آصف علی زرداری کو ان کی خواہش یاد رہی۔
2008کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو انہیں ریڈیو پاکستان کا ڈائریکٹر جنرل تعینات کردیا گیا۔دیوانوں کی طرح مرتضیٰ ریڈیو پاکستان کو دورِ حاضر کے معیار کے مطابق بنانے کی لگن میں جتے رہے۔وزارت اطلاعات کے ’’بابو‘‘ مگر Status Quoبرقرار رکھنے ہی میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔نیب کے ہاتھوں حال ہی میں چند سرکاری افسروں کے ساتھ جو کچھ ہوا اسے ذہن میں رکھتے ہوئے اس رویے کو میری دانست میں ٹھوس جواز بھی فراہم ہوگیا ہے۔
مرتضیٰ ایسے دیوانے مگر ’’نیویں نیویں‘‘رہنے کے عادی نہیں ہوتے۔ کئی بار جھلاکر اپنے منصب سے استعفیٰ لکھ ڈالا۔ ایک مرتبہ آصف علی زرداری نے مجھے بھی اسے ’’ٹھنڈا‘‘ کرنے کو استعمال کیا تھا۔ریڈیو پاکستان سے فراغت کے بعد مرتضیٰ نے کئی ٹی وی چینلوں کے لئے کام کیا۔2018کے انتخابات کی بدولت مگر بالآخر پاکستان میں ’’تبدیلی‘‘ آگئی۔
تحریک انصاف کے پہلے وزیر اطلاعات جناب فواد چودھری صاحب کی نگاہِ دور بین نے اپنا منصب سنبھالتے ہی ٹی وی اداروں کو سمجھانا شروع کردیا کہ ان کا ’’بزنس ماڈل‘‘فرسودہ ہوچکا ہے۔اس میں ’’انقلابی‘‘ تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔
چودھری صاحب کی فراست کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں تھا۔اگرچہ وطنِ عزیز میں کم از کم تین صحافتی ادارے قیام پاکستان سے چند سال قبل نمودار ہوکر نہ صرف اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے تھے بلکہ روایتی میڈیا کو بھی برسوں کی لگن سے جدید تر اور پُررونق بھی بنادیا تھا۔
بہرحال فواد چودھری صاحب کا تجویز کردہ ’’بزنس ماڈل‘‘ بروئے کارلایا گیا تو دریافت یہ ہوا کہ سینکڑوں صحافی اپنے اداروں پر ’’مالیاتی بوجھ‘‘ہیں۔ چند اینکر خواتین وحضرات اس ضمن میں نمایاں ترین رہے۔ عجب اتفاق یہ بھی ہوا کہ یہ اینکر دورِ حاضر کے دیدہ ور کی قیادت میں لائی ’’تبدیلی‘‘ کی بابت بہت شاداں بھی نظر نہیں آرہے تھے۔
ٹی وی چینلوں کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے انہیں فارغ کرنا پڑا۔مرتضیٰ سولنگی بھی ٹی وی اداروں کے لئے ایسا ہی ’’بوجھ‘‘ ثابت ہوئے جسے کشتی کو ڈوبنے سے بچانے کے لئے دریابرد کرنا پڑتا ہے۔وہ مگر دریا برد نہیں ہوئے۔
یوٹیوب کے ذریعے اپنی بات لوگوں تک پہنچانے میں مصروف ہوگئے۔ ایک ٹی وی چینل پر ’’مالیاتی بوجھ‘‘ ہوتے ہوئے دریا برد میں بھی ہوا تھا۔منٹو کی طرح ’’باجو کی گلی‘‘ سے لیکن پرنٹ میڈیا میں لوٹ آیا۔غالبؔآئینہ دیکھنے سے گھبراتے تھے کیونکہ خود کو ’’مردم گزیدہ‘‘ شمار کرتے تھے۔
میں بھی یوٹیوب کے استعمال سے گھبراتا ہوں۔فکر لاحق رہتی ہے کہ اپنے ’’سبزقدم‘‘ سے کہیں اس کا ’’بزنس ماڈل‘‘ بھی ناکام ثابت نہ کردوں۔سکرین سے میری دوری میرے کئی مہربان دوستوں کو لیکن بہت پریشان رکھتی ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ کم از کم یوٹیوب کے وسیلے ہی سے سکرین پر رونماہوکر لوگوں سے مکالمہ جاری رکھوں۔
دل مگر اس جانب مائل ہونے کو آمادہ نہیں۔اتوار کی شام مرتضیٰ سولنگی نے مجھے فون کیا۔اس خواہش کے اظہار کے ساتھ کہ ’’تاریخ‘‘بیان کرنے کے لئے 12اکتوبر کے دن ان سے یوٹیوب پر گفتگوکروں۔ مرتضی کی حکم عدولی میرے لیکن ممکن نہیں۔جی کڑا کرکے مگر اپنی ضد پر ڈٹا رہا۔یہ بات البتہ ذہن میں بیٹھ گئی کہ پیر کی صبح اُٹھ کر 12اکتوبر1999کے بارے میں کچھ لکھنا ہوگا۔
مذکورہ فیصلے کو ذہن میں رکھتے ہوئے قلم اٹھایا تو ایک بار پھر یہ سوال ذہن میں گردش کرنے لگا جو کئی بار اس کالم میں اُٹھاچکا ہوں۔وہ سوال جو 12اکتوبر1999کی شام سے میرے ذہن میں اٹکا ہوا ہے اس کا آج تک تشفی بخش جواب نہیں ملا۔ سوال یہ ہے کہ جنرل مشرف کو آرمی چیف کے منصب سے ہٹانے کے لئے نواز شریف نے اس دن کا انتخاب ہی کیوں کیا۔ مشرف اس دن پاکستان میں موجود نہیں تھے۔ سری لنکا گئے ہوئے تھے۔ان کی واپسی کا انتظار ہوسکتا تھا۔
نواز شریف اور جنرل مشرف کے مابین معاملات تو کارگل جنگ کے دنوں ہی میں بگڑنا شروع ہوگئے تھے۔سابق وزیر اعظم کا دعویٰ رہا کہ انہیں اس ’’ایڈونچر‘‘ کی بابت بے خبررکھا گیا تھا۔ دوسری جانب سے ہمیشہ اصرار ہوا کہ کارگل کے پہاڑوں پر پیش قدمی سے قبل اس وقت کے وزیر اعظم کو راولپنڈی کے اوجڑی کیمپ میں ہوئے ایک اجلاس میں باقاعدہ ’’بریف‘‘ کیا گیا تھا۔
دعویٰ یہ بھی ہے کہ مبینہ بریفنگ کے بعد نواز شریف صاحب نے ’’آپریشن کارگل‘‘ کے لئے خیر کی دُعا بھی مانگی تھی۔حقائق کچھ بھی رہے ہوں۔میرے اور آپ جیسے عام پاکستانیوں کو مئی 1999میں پیغام یہ ملنا شروع ہوا کہ کارگل کی چوٹیوں پر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوپارہے۔ اس کی وجہ سے بلکہ پاکستان اور بھارت کے مابین ایک ’’وسیع تر جنگ‘‘ روکنے کی تیاری بھی شروع ہوگئی۔
اس ضمن میں سرتاج عزیز صاحب کو بطور وزیر خارجہ 11جون 1999کے روز نئی دہلی بھی جانا پڑا۔میں صحافیوں کے اس وفد میں شامل تھا جو ان کے ہمراہ گیا تھا۔ سرتاج صاحب کا یہ دورہ ہر حوالے سے ’’ناکام‘‘ رہا۔ بھارت سے لوٹے تو انہوں نے لاہور کے گورنر ہائوس میں ہوئے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں اپنی ناکامی کی داستان بیان کی۔
یہ اجلاس نوازشریف کی صدارت میں ہوا تھا۔سرتاج صاحب نے اپنی روئیداد سنائی تو ان دنوں کی نیوی اور ایئرفورس کے سربراہان نے بھی کارگل آپریشن پر بے تحاشہ سوالات اٹھادئیے۔ پرویز مشرف انہیں مطمئن نہ کرپائے۔اصولی طورپر نواز شریف کو اس اجلاس کے دوران ہی مشرف سے استعفیٰ طلب کرلینا چاہیے تھا۔ انہوں نے مگر گریز سے کام لیا۔
بالآخر 4جولائی 1999کے دن امریکی صدر کو اس کے ملک کے یوم آزادی کے دن ملنے چلے گئے۔ سعودی کاوشوں سے ہوئی اس ملاقات کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے مابین وسیع تر جنگ جو ’’ایٹمی‘‘ بھی ہوسکتی تھی نظر بظاہر ٹل گئی۔ پاکستانیوں کی اکثریت مگر یہ سوچنے کو مجبور ہوئی کہ نواز شریف نے کارگل کی پہاڑیوں پر ’’جیتی ہوئی جنگ‘‘ صدر کلنٹن کے ساتھ مذاکرات کے دوران ’’ہار‘‘ دی۔
مذکورہ تاثر کے فروغ کے بعد نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ سے فراغت دیوار پر لکھی ہوئی نظر آرہی تھی۔شہباز شریف اور چودھری نثار علی خان اگرچہ ’’سب اچھا‘‘ کا تاثر دیتے رہے۔دریں اثناء قومی اسمبلی کی گیلری میں بیٹھے ہوئے میں نے دریافت کیا کہ لاہور ہی سے ابھرے اور شریف خاندان کے دیرینہ دوست میاں اظہر نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کے اراکینِ قومی اسمبلی میں ’’اچانک‘‘ بہت مقبول ہوناشروع ہوگئے ہیں۔
وہ ایوا ن میں داخل ہوتے تو ان کے گردیہ اراکین مریددں کے جمگھٹے کی صورت جمع ہوجاتے۔ میرے وسوسوں بھرے دل کو شبہ ہوا کہ ’’اِن ہائوس‘‘ تبدیلی کی تیاری ہورہی ہے۔اس شبے کو میں نے ایک انگریزی اخبار کے لئے لکھی ’’پریس گیلری‘‘ میں بیان کردیا۔ وہ کالم چھپا تو میاں اظہر نے مجھ سے رابطے کی کوشش کی۔بالآخر قومی اسمبلی کی راہداری میں ان سے ملاقات ہوگئی۔
مجھے دیکھتے ہی وہ ایک کونے میں لے گئے اور سرگوشی میں مطلع کیا کہ ’’میاں شریف میرے والد کی مانند ہیں‘‘۔ یہ ’’اطلاع‘‘ دینے کے بعد انہوں نے انکشاف کیا کہ نواز شریف کے والد مرحوم کو میرا کالم دکھایا گیا تھا۔میاں اظہر انہیں مذکورہ کالم کی وجہ سے ’’دُکھ‘‘ دیتے نظر آئے۔
میاں اظہر کی ’’پریشانی‘‘ سے میں نے منافقانہ ہمدردی کا اظہار کیا۔اس وعدے کے ساتھ کہ آئندہ ان کی مسلم لیگی اراکین میں بڑھتی ہوئی ’’مقبولیت‘‘ کے بارے میں کچھ نہیں لکھوں گا۔وہ ’’آف دی ریکارڈ‘‘ لیکن مجھے اتنا تو بتادیں کہ نواز شریف کے ’’کتنے دن باقی رہ گئے ہیں‘‘۔میاں صاحب دائیں بائیں دیکھ کر فقط یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گئے کہ ’’تھوڑے ہی رہ گئے ہیں‘‘۔
میاں اظہر تو ’’نیویں نیویں‘‘ ہوکر دائیں بائیں ہوگئے مگر مسلم لیگ (نون) کے پارلیمانی اجلاسوں میں خورشید محمود قصوری صاحب نے ’’شریعت بل‘‘ کے خلاف دہائی مچانا شروع کردی۔ ان کی دہائی نے تاثر پھیلایا کہ مسلم لیگ (نون) کی صفوں میں ’’بغاوت‘‘ پھوٹ رہی ہے۔ ایسی ’’بغاوتوں‘‘ کے ’’اسباب‘‘ ہوا کرتے ہیں۔’’مناسب رابطوں‘‘ کے بغیر برپا نہیں ہوتیں۔
غالباََ وزیر اعظم ہوتے ہوئے نواز شریف کو اس تناظر میں اہم ٹھہرے رابطوں کا علم ہوگیا۔ طیش میں آکر انہوں نے 12اکتوبر1999والا قدم اٹھادیا۔ یہ بات مگر ان کے اٹھائے قدم کے چند گھنٹوں بعد ہی طے ہوگئی کہ اس کے لئے مناسب ہوم ورک نہیں ہوا تھا۔لینے کے بلکہ دینے پڑگئے اور جنرل مشرف صاحب 12اکتوبر1999سے 2008تک ہمارے بہت ہی بااختیار صدر مملکت رہے۔نواز شریف نے اگرچہ ہمیں آج تک نہیں بتایا ہے کہ نظر بظاہر ایک ’’خودکش‘‘ قدم اٹھانے کے لئے انہوں نے 12اکتوبر1999کا انتخاب ہی کیوں کیا۔
میری دانست میں یہ فروعی نہیں ایک بہت ہی بنیادی سوال ہے۔اس کا تشفی بخش جواب جانے بغیر 12اکتوبر 1999کے بارے میں ہوئی گفتگو ہے محض یاوہ گوئی ہے۔ قیاس آرائیاں ہیں۔فروعی تفصیلات ہیں۔’’تاریخ‘‘ کو بنیادی سوالات اٹھاتے ہوئے جاننے کی تڑپ لیکن ہم میں موجود ہی نہیں۔اس تڑپ کے بغیر مرتضی سولنگی کے ساتھ یوٹیوب پر گفتگو کرتے ہوئے میں 12 اکتوبر 1999 کے بارے میں آئیں،بائیں شائیں ہی کرسکتا تھا۔ ان دنوں ویسے بھی مجھے یہ سوال بے چین کئے ہوئے ہے کہ 20ستمبر2020کے روز آٹھ ماہ کی طویل خاموشی کے بعد نواز شریف صاحب نے ’’غداری‘‘ والا خطاب کیوں فرمایا ہے۔ تمام تر کاوشوں کے باوجود اس ضمن میں بھی کوئی تسلی بخش جواب حاصل نہیں کرپایا ہوں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر