نذیر ڈھوکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہنے کو تو 17 آگست 1988 کو فوجی آمر ضیا عبرت ناک انجام کو پہنچے مگر حقیقیت یہ ہے کہ ان کی جلی سڑی بد روح کے سائے پاکستان پر منڈلاتے رہے یہی وجہہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کا سایہ دار درخت جڑ نہیں پکڑ سکا ، جمہوریت سے نفرت کرنے والی اسٹیبلشمنٹ لڑاو اور حکومت کرو کی پالیسی سے بھی سیکڑوں میل آگے چلی گئی۔
اس نے لڑاو اور لوٹ مار کرو کی پالیسی اپنالی ، سچ بات یہ ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ تاریخ میں صرف دو بار گھبرائی ہے پہلی بار نائن الیون کے بعد جب وہ ناک کے بل الٹی سمت چلی تھی ، مگر اس کی چالاکیوں کو دنیا بھانپ گئی تھی ، آخر کار اس کے کان میں چھپا ہوا عالمی دہشت گرد اسامہ بن لادن کو برآمد کرلیا گیا ، دوسری بار محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف کے درمیان ہونے والی میثاق جمہوریت پر گھبرائی تھی۔
یہ انتہائی افسوس ناک بات ہے کچھ آستین کے سانپ غیبی اشارے پر اپنا کھیل کھیلتے رہے، صدر آصف علی زرداری نے انتہائی نیک نیتی سے میثاق جمہوریت کے ایک ایک لفظ پر عمل کیا اور اسٹیبلشمنٹ کے جبڑے سے نکال کر وہ اختیارات واپس پارلیمنٹ کو دلوائے، انہوں نے وہ صدارتی اختیار بھی پارلیمنٹ کو دیئے جس کا تقاضا پارلیمنٹ نے بھی نہیں کیا تھا ، 2014 میں جب جمہوریت کے خلاف دھرنہ لگایا گیا تو صدر آصف علی زرداری جمہوریت دشمن عزائم رکھنے والوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے۔
اور پھر جمہوریت کا دفاع کرنے کی انہوں نے بھاری قیمت بھی چکائی وزارت داخلہ کے ماتحت رینجرس نے سندھ ہر ہلا بول دیا ، 2018 کے انتخابات کے بعد سیاست نے ایک انگڑائی لی اور قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے عمران خان کو سلیکٹڈ وزیراعظم قرار دیا یہ ایک قابل اور ذہین سیاستدان کی چوٹ تھی جس کی گونج میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو عملی طور سیاست میں آئے دو سال ہوئے ہیں مگر ان دو سال میں انہوں نے سیاست کے انداز بدل ڈالے ہیں، اسلام آباد کے سینئیر ترین صحافی جنہوں نے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کو دیکھا اور ان کا قومی اسمبلی میں خطاب سنا اور پریس کانفرنسیں کور کی کا ماننا ہے کہ بلاول کے روپ میں بھٹو بول رہا ہے ، اور جن سینیئر صحافیوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی میڈیا کوریج کی کا کہنا ہے کہ کہ بلاول بھٹو زرداری کا اندازگفتگو اپنی والدہ محترمہ جیسا ہے۔
ان میں تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ اپنے والد صدر آصف علی زرداری جیسا ہے ،20 ستمبر 2020 کو ملک کی تمام جمہوریت پسند سیاسی پارٹیوں کو پارٹیوں کو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا بھی ایسے ہی ہے جیسے مادر جمہوریت بیگم نصرت بھٹو نے تمام جمہوریت پسند سیاسی پارٹیوں کو ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا تھا ۔
گزشتہ 32 سال سے اسٹیبلشمنٹ کا کرپشن کرپش کا ڈھول 2020 میں پھٹ چکا ہے الزام تراشی گھڑنے والی فیکٹری کے منشی کے بیرون ملک اربوں روپے کا کاروبار سوالیہ نشان بن چکا ہے اگر ایک منشی کے اتنے اثاثے ہون تو مینجروں اور ڈائریکٹروں کے کتنے اثاثے ہونگے اس سوال کا جواب تو دینا ہی ہوگا۔
قوم کی نہ صرف دعائیں بلکہ افرادی قوت یعنی عوام پی ڈی ایم کے ساتھ ہے۔ سابق وزیراعظم میان نواز شریف اور ان کے ساتھیوں پر غداری کے مقدمے نے وفاق کی تین اکائیوں سندھ ، بلوچستان، اور خیبر پختون خوا کے عوام میں ایک نیا حوصلہ پیدا کیا ہے ، عوامی شاعر حبیب جالب پنجاب کو جاگنے کی صدائیں دیتے دیتے ابدی نیند سوگئے۔
تاہم اہل پنجاب پر غداری کے پرچے درج ہونے کے بعد حبیب جالب اپنی ابدی آرام گاہ سے پنجاب کو آواز دے
رہے ہیں، جاگ میرے پنجاب کہ پاکستان چلا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر