نذیر ڈھوکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم سے این آر او مانگ کون رہا ہے؟
نہ تم فوجی آمر ہو، نہ تمہارے پاس قوم کا سچا مینڈیٹ ہے ، طوطے کی طرح این آر او کی رٹ لگائے جا رہے ہو ، ٹھیک ہے تم سازشی عناصر کی گود میں پلے بڑھے مگر تمہاری اوقات ہے کیا ؟
مگر ذرا ٹھہریئے این آر او کی کہانی بھی سن ہی لیجیئے، دوسری بار افغانستان میں جنگ چھڑی تو تختہ مشق پاکستان بھی بنا، فوجی آمر پرویز مشرف پانچ پانچ ڈالر کے عیوض اپنے ہم وطنوں کو دہشت گرد قرار دیکر امریکہ کے ہاتھوں بیچتے رہے ، جب امریکی انتظامیہ کو پرویز مشرف کی دھوکہ دہی کا پتہ چلا تو ایک امریکی عہدے دار نے پاکستانیوں کو گالی بکتے ہوئے کہا تھا کہ دو ڈالر کے عیوض پاکستانی اپنی ماں کو بھی بیچتے ہیں، پاکستان کی عزت اور وقار کو جنرل پرویزمشرف نے اس نہج پر پہنچا دیا تھا ، حقیقت یہ ہے کہ کہ عالمی دباو کی وجہ سے انہیں جمہوریت کی بحالی کیلئے اقدامات اٹھانے پڑے تھے اور بیرون ملک مقیم سیاسی قیادت پر پابندیاں اٹھانی پڑی تھی ، وہ بھی اس وقت جب ملک کے چپے چپے پر دہشت گرد ریاست کی رٹ کو چیلنج کر رہے تھے، وزیرستان کے بعد سوات میں اپنی حکمرانی قائم کر چکے تھے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ جنرل مشرف نے جس این آر او کا اعلان کیا تھا وہ مکاری اور دغا بازی تھا کیونکہ 18 اکتوبر کو وطن واپسی کے موقع پر دہشت گردوں کے ذریعے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو قتل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید پر حملہ ایسا شدید تھا کہ واقعے میں ان کے سیکڑوں جانثار شہید ہوئے تھے، اس واقعے کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو شہید جب اپنی علیل والدہ کی تیمارداری کیلئے کچھ دنوں کیلئے دبئی گئیں تو بزدل اور کانئر جنرل یہ سمجھ بیٹھا کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید ڈر کی وجہہ سے دبئی چلی گئی ہیں اب واپس وطن نہیں آئیں گی اس لیئے انہوں نے ایک بار پھر ملک میں ایمرجنسی کا انعقاد کرکے آعلی عدلیہ کے ججوں کو قید کردیا ، مگر محترمہ بینظیر بھٹو شہید فوری طور پہلی دستیاب پرواز سے وطن وپس پہنچ کر آمر پرویز مشرف کے ارادے خاک میں ملادیئے ، حیران کن بات یہ ہے کہ لاھور میں سردار لطیف کھوسہ کی رہائشگاہ اور اسلام آباد میں زرداری ہاوس پر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو نظر بند کرنے کیلیئے ھزاروں کی تعداد میں ملٹری فورس اور پولیس فورس کو تو تعینات کیا گیا مگر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی جان کی حفاظت کیلیئے ایک درجن بھی سیکیورٹی اہلکار مہیا نہیں کیئے گئے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کمزور اور پسے ہوئے طبقات کی مضبوط اور موثر آواز تھیں ان کا تعلق بھی چھوٹے صوبہ سندھ سے تھا مگر وہ وفاق کی تمام اکائیوں کے بندھن کی زنجیر تھیں، کمزور طبقات کی وکیل اور سندھ دھرتی پر جنم لینے والی سیاستدان کو راولنڈی شھر میں سرعام قتل کیا گیا ، کوئی مانے یا نہ مانیں ہماری پاک دھرتی ماں اپنی گود میں کسی غدار کو جگہہ نہیں دیتی فوجی آمر ضیا کا وجود خاک بن کر اڑ گیا ، اپنے آپ کو طاقتور سمجھنے والے پرویز مشرف کے پلید قدموں کو قبول کرنے کیلئے راضی نہیں ہے۔
رہی بات این آر او کی تو جنرل پرویز مشرف نے جب دوبارہ ایمرجنسی نافذ کی تو محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے این آر او پرویز مشرف کے منہ پر دے مارا تھا ، حیرت اس بات کی ہے کہ کٹھپتلی عمران خان دو سال سے تواتر کے ساتھ اکڑ خان بن کر شیخی بگھار رہے ہیں کہ وہ کسی کو این آر او نہیں دینگے ایسا لگ رہا ہے جیسے وہ چمکادھڑ ہیں جس کی سوچ یہ ہے کہ انہوں نے آسمان کو گرنے سے بچاکر رکھا ہے ، سچی بات یہ ہے کہ جب کٹھپتلی کی زبان سے این آر او کے لفظ قوم سنتی ہے تو اس کو فوجی آمر کے لگائے ہوئے گھاو پھر سے تازہ ہو جاتے ہیں اور زخموں سے خون ٹپکنے لگتا ہے۔
عقل مندوں کیلئے شہید قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی فلاسفی ہی کافی ہے کہ سیاسی جنت عوام کی قدموں میں ہے اس ہی فلاسفی کے وارث چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر