گزشتہ سے پیوستہ روز وفاقی دارالحکومت میں واقع پاکستان مونومنٹ پر برطانیہ کے شاہی جوڑے کے اعزاز میں دی جانیوالی تقریب جس کا اہتمام اسلام آباد میں برطانوی ہائی کمیشن نے کیا تھا، میں بدنظمی کے متعدد واقعات پیش آئے جس کے باعث تقریب میں مدعو کی جانے والے کئی اہم شخصیات جن میں بعض ورزاء بھی شامل تھے یا تو تقریب ادھوری چھوڑ کر چلے گئے یا پھر تقریب کے اختتام پر اظہار ناراضی کرتے دکھائی دیئے۔
جیونیوز نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں ہوئی تقریب میں نشستوں کا اہتمام نہیں تھا اس لئے شرکا کو جن میں بڑی تعداد میں معمر افراد بھی شامل تھے کئی گھنٹے تک کھڑے رہنا پڑا۔ پیرانہ سالی کے باوجود بعض مدعوین کو نہ چاہنے کے باوجود رکشے میں سوار ہو کر تقریب گاہ تک آنا پڑا۔
خیال رہے کہ ان سارے مناظر کے عینی شاہد میڈیا کے نمائندوں نے منتظمین کی درخواست پر ان واقعات کو محض اس لئے رپورٹ نہیں کیا کہ یہ دو ملکوں کے دوستانہ تعلقات کا معاملہ ہے اور برطانوی شاہی جوڑا پاکستان کا مہمان ہے۔
ہر چند کہ بعض میڈیا کے نمائندوں کو بھی پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑا لیکن آداب میزبانی کے پیش نظر انہوں نے اس حوالے سے خاموشی اختیار کی لیکن اب خود برطانوی نشریاتی ادارے نے اس ساری صورتحال کی تفصیل اپنی ویب سائٹ پر جاری کر دی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق منگل کی شب برطانوی شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ کیٹ مڈلٹن جب ایک رکشے میں بیٹھ کر اسلام آباد میں واقع پاکستان نیشنل مونومنٹ پہنچے تو ان سے ملنے کے متمنی افراد میں چند طاقتور وفاقی وزرا اور وزیر اعظم عمران خان کے قریبی مشیران بھی شامل تھے۔
لیکن اس موقع پر کیے گئے سخت سکیورٹی انتظامات کا کیا کیجیے کہ جس کی بدولت نصف درجن کے قریب وزرا اور مشیران شاہی جوڑے سے ملنے کی اپنی خواہش دل میں ہی لیے اس تقریب سے رخصت ہوئے۔
ان میں وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک، وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ، وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد حسین، وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور نعیم الحق اور مشیر برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان شامل تھے۔ ان میں سے دو نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر انھیں شاہی جوڑے کے قریب جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
وزیر اعظم کے ایک مشیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ برطانوی سکیورٹی حکام کی طرف سے اس موقع پر کیے گئے انتظامات بہت احمقانہ تھے،کابینہ کے اراکین کو شاہی جوڑے سے ملنے کی اجازت نہ دینا توہین آمیز تھا، وزارت خارجہ اس حوالے سے برطانوی حکام سے شکایت کرے گی۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی ویب سائٹ کے مطابق دوسری جانب ایک وفاقی وزیر نے بھی تصدیق کی کہ وزرا کو سکیورٹی وجوہات کی بنا پر شاہی جوڑے سے ملنے نہیں دیا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ جب دو وزرا بشمول غلام سرور خان کو ہائی کمیشن کے عملے کی جانب سے کہا گیا کہ وہ استقبالیے تک رکشے میں آئیں تو انھوں نے رکشے میں بیٹھنے سے انکار کر دیا اور واپس چلے گئے چند دیگر وزرا نے بھی رکشے میں بیٹھنے سے انکار کیا اور اپنی اپنی گاڑیوں میں مونومنٹ پہنچے۔
جب ہم مونومنٹ پہنچے تو پتا چلا کہ علیحدہ علیحدہ انتظامات کیے گئے تھے۔ چند وزرا کو جب علیحدہ انتظامات کا پتا چلا تو وہ تقریب چھوڑ کر واپس آ گئے۔
جیونیوز سے وابستہ سینئیر صحافی حامد میر نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ʼہم میں سے زیادہ تر لوگ رکشہ کے ذریعے مونومنٹ پہنچے ماسوائے چند سینئر بیوروکریٹس اور وزرا کے جو اپنے آپ کو وی آئی پی سمجھتے ہیں۔
وفاقی وزیر کے مطابق دیگر وزرا کے برعکس وزیر اعظم کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات تقریب کے اس حصے میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئیں جہاں شاہی جوڑا موجود تھا تا ہم برٹش گارڈز نے انھیں اس مخصوص جگہ سے باہر نکال دیا جس پر فردوس عاشق تقریب سے واپس روانہ ہو گئیں۔
یاد رہے کہ شاہی جوڑے کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے برٹش رائل گارڈ بھی ان کے ہمراہ پاکستان آئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق فردوس عاشق اعوان سے ان کا مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا تاہم مصروفیات کے باعث وہ دستیاب نہیں تھیں۔
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ