نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اپوزیشن رہنماوں اور آرمی چیف کی ملاقات ۔۔۔ حیدر جاوید سید

اس بریفنگ کا اہتمام قومی اسمبلی کے سپیکر یا سینیٹ کے چیئرمین کی توسط سے پارلیمنٹ کے کمیٹی روم میں کیوں نہ کیا گیا ؟

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی کی دعوت پر منتخب پارلیمانی لیڈروں میاں شہباز شریف ، بلاول بھٹو ، خواجہ آصف ، محترمہ شیریں رحمن ، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ، شیخ رشید احمد ، لالہ سراج الحق کی ملاقات کے حوالے سے ایک بیانیہ یہ ہے کہ پارلیمانی لیڈروں کو مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال ، سی پیک کے معاملات اور گلگت بلتستان کے انتخابی عمل کے حوالے سے بریفنگ دی گئی

اس ضمن میں جو پہلا سوال ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ

اس بریفنگ کے دوران گلگت بلتستان کو معروضی حالات میں باقاعدہ صوبہ کا درجہ دینے پر بھی تبادلہ خیال ہوا

یہ پارلیمانی لیڈروں کو خصوصی بریفنگ کا اہتمام تھا تو مسلم لیگ ق عوامی نیشنل پارٹی ، بلوچستان نیشنل پارٹی ۔ بلوچستان عوامی پارٹی ۔ ایم کیو ایم اور جی ڈی اے سندھ کے پارلیمانی لیڈران مدعو کیوں نہیں کیے گیے ؟

خود وزیراعظم عمران خان اور وزیر دفاع پرویز خٹک اجلاس ( بریفنگ ) میں شریک شریک کیوں نا ہوئے ؟

اس بریفنگ کا اہتمام قومی اسمبلی کے سپیکر یا سینیٹ کے چیئرمین کی توسط سے پارلیمنٹ کے کمیٹی روم میں کیوں نہ کیا گیا ؟

دستیاب معلومات کی بنیاد پر یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ اجلاس یا بریفنگ کی جو کہانی اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد اچھالی گئی پہلے آئی ایس پی آر کے لاڈے اینکروں اور ایک مخبر اعظم کے ذریعہ اور پھر شیخ رشید احمد کی میڈیا ٹاک سے یہ کہانی حرف غلط کی طرح غلط ہے۔

کیونکہ اگر واقعی کشمیر ، سی پیک اور گلگت بلتستان پر بریفنگ مقصود تھی تو ایک رکن پر مشتمل پارلیمانی لیڈر شیخ رشید احمد تو مسلم لیگ ق ایم کیو ایم بلوچستان عوامی پارٹی جی ڈی اے سندھ ، عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کی موجود و مسملہ سیاسی حثیتوں کے مقابلہ میں صفر ہیں۔

اجلاس یا بریفنگ جو بھی نام دیجے اس میں اپوزیشن کی تین بڑے پارلیمانی گروپس کے لیڈران کے علاوہ امیر جماعت اسلامی اور دو وفاقی وزرا کی شرکت یہ سمجھاتی ہے کہ پچھلے دوبرسوں کے دوران ریاست کے بعض محکموں کی اپنی پالیسیوں اور لائی گئی حکومت کی نازبرداریوں سے جو سبکی ہوئی اور حالیہ دنوں میں ایک ریٹائر جنرل جو اب سی پیک کے سربراہ اور وزیراعظم کے مشیر اطلاعات ہیں ان کا مالیاتی سکینڈل سامنے آنے کے بعد شروع ہوئی بحث سے صرف حکومت پر ہی نہیں بعض محکموں کے حوالے سے بھی سوالات اٹھے۔

حزب اختلاف تواتر کے ساتھ سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر جانبداری کا الزام لگارہی ہے سو یہی دوتین باتیں ہی اس ملاقات کی وجہ بنیں ناکہ بریفنگ کے اہتمام کی۔

اس ملاقات میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے تفصیل کے ساتھ اس تاثر کو دور کرنے کی کوشش کی کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ حزب اختلاف کے خلاف حکومت کی انتقامی کاروائیوں اور نیب گردی میں فریق ہے یہ بھی واضع کیا گیا کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ سیاسی عمل میں فریق نہیں اس لیے اپوزیشن کے حلقے اپنی حکومت مخالف سرگرمیوں میں اس پر تنقید سے گریز کریں۔

اس وضاحت پر بلاول بھٹو اور اسعد الرحمن نے دوہزار اٹھارہ کے انتخابی عمل خصوصاً پولنگ والے دن انتخابی عمل میں معاونت کرنے والے ان کے ماتحتوں کے جانبدارانہ طرزعمل کی روشنی میں سوال کیا کہ اس طرح کے رویوں کے ہوتے ہوئے گلگت و بلتستان کے آئندہ انتخابات پر بھی تحفظات ہوں گے

جواباً کہا گیا کہ فوج سیاسی و انتخابی عمل سے دور رہنا چاہتی ہے آپ لوگ فوج کو فریق بناکر پیش نہ کریں

یہ بھی پوچھا گیا کہ اگر اس اجلاس یا بریفنگ کا مقصد غلط فہمیاں دور کرنا ہے تو پھر غلط فہمیاں پیدا کرنے والی مرکزی شخصیت وزیراعظم عمران خان یہاں کیوں موجود نہیں ؟

قبل اس کے کہ آرمی چیف یا ڈی جی آئی ایس آئی کوئی جواب دیتے شیخ رشید احمد بولے

“وزیراعظم عمران خان اپوزیشن سے ملنا ہی نہیں چاہتے”

(شیخ رشید کے اس جواب سے جو بدمزگی پیدا ہوئی اس کا ازالہ شیخ رشید نے گزشتہ روز نیلی پیلی کہانیاں سنا کر کرنے کی کوشش کی )

امر واقعہ یہ ہے کہ یہ بریفنگ یا اجلاس فوج اور حزب اختلاف کے درمیان بڑھتے ہوئے تناو کے خاتمے کے ساتھ اس عمومی تاثر کو زائل کرنے کی رسمی یا پر خلوص کوشش تھی کہ فوج پیپلز پارٹی نون لیگ اور جے یو آئی کی دشمن ہے نا انہیں اپنا دشمن سمجھتی ہے

اس ملاقات کے بعد منعقد ہونے والی اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں کی گئی تقاریر سے بہر طور یہ تاثر ابھرا کی ملاقات برف پگھلانے میں ناکام رہی اسی لیے ٹوڈی اینکرز اور شیخ رشید کے ساتھ دیرینہ مخبر اعظم نے بریفنگ کے حوالے سے ایسی کہانیاں فروخت کرنے کی کوشش کی جن سے اپوزیشن پر رائے عامہ حرف گیری کرے۔

About The Author