نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

زراعت اور کسان کی زبوں حالی۔۔۔آفتاب احمد گورائیہ

پاکستان کا کسان فرسودہ اور پرانے طریقوں سے کاشتکاری کرنے پر مجبور ہے۔زرعی آلات اتنےمہنگے ہیں کہ کسان کی استطاعت سے باہر ہیں

آفتاب احمد گورائیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان کی تقریباً 64 فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے جن میں سے زیادہ تر کا ذریعہ معاش زراعت سے وابستہ ہے۔ پاکستان کا کل رقبہ 79.6 ملین ایکڑ ہے۔ جس میں سے تقریباً 23.7 ملین ایکڑ زرعی رقبہ ہے جو کل رقبے کا تقریباً 29 فیصد بنتا ہے۰ اس کے علاوہ ہماری تقریباً 45 فیصد آبادی کا ذریعہ معاش زراعت سے وابستہ ہے۔ پاکستان کی قومی پیداوار میں بھی زراعت کا حصہ تقریباً 24 فیصد کے قریب ہے جو دوسرے تمام سیکٹرز سے زیادہ ہے۔ پاکستان نہ صرف قدرتی وسائل سے مالا مال ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کا ماحول اورموسم بھی ہر قسم کی فصل کے لئے نہایت موزوں ہے۔ اس طرح پاکستان میں ہر قسم کی غذائی اشیاء کی پیداواری صلاحیت موجود ہے۔ ان تمام اعداد و شمار اور ملکی معیشت کے زراعت پر انحصار کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ ہمارا کسان دن بدن معاشی بدحالی کا شکار ہو رہا ہے جبکہ عالمی منڈیوں میں زرِ کثیر کمانے والی اجناس کپاس، گندم اور چاول کی پیداوار میں مسلسل کمی کا رحجان ایک لمحہ فکریہ ہے۔

زراعت پاکستان کی معیشت کے لئے ایک بنیادی جزو کی حیثیت رکھتی ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والی اجناس کپاس، گندم، گنا، چاول اور مختلف قسم کے پھلوں کی پیداوار بیرونی منڈیوں میں خاص اہمیت رکھتی ہے اور پاکستان ان فصلوں کی بدولت قیمتی زرمبادلہ حاصل کرتا ہے۔ اس کے باوجود ہمارے شعبہ زراعت کی ترقی کی رفتار نہایت سست ہے۔ ہماری فی ایکڑ پیداوار بھی دنیا کے دوسرے ممالک کی نسبت بہت کم ہے جس کی بنیادی وجہ غیر معیاری بیج، ناقص زرعی ادویات، ملاوٹ شدہ کھاد اور ہمارے کسان کا جدید طریقہ ہائے کاشت سے نا آشنا ہونا ہے۔

اگر زرعی ترقی کو درپیش رکاوٹوں پر غور کیا جائے تو کئی وجوہات سامنے آتی ہیں۔ کھاد نہ صرف مہنگی ہے بلکہ ناقص بھی ہے جو نہ صرف فصل کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ زمین کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔ جس کی وجہ سے فصلوں سے معیاری پیداوار حاصل نہیں ہو پاتی اور زمین کی زرخیزی بھی شدید متاثر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ زرعی ادویات کے نرخوں میں بے تحاشا اضافہ بھی کسانوں کی قوت خرید سے باہر ہے۔ ناقص کھاد اور غیر معیاری زرعی ادویات کے استعمال کی وجہ سے فی ایکڑ پیداوار میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ ڈیزل اور زرعی استعمال کی بجلی کے نرخ بھی آسمان سے باتیں کر رہے ہیں جس سے چاول کا کاشتکار خاص طور پر متاثر ہوا ہے۔ وسطی پنجاب جو چاول کی کاشت کے لئے مشہور تھا اس علاقے میں بھی چاول کی پیداواری لاگت میں بے پناہ اضافہ اور چاول کی قیمت خرید میں کمی کے باعث چاول کی پیداوار میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ پاکستان کا چاول دنیا بھر میں ایکسپورٹ کیا جاتا ہے لیکن اب چاول کا کاشتکار چاول کی بجائے باجرے کی کاشت کو ترجیح دینے لگا ہے جس کی لاگت بھی کم ہے اور قیمت بھی اچھی مل جاتی ہے لیکن اس سے چاول کی ایکسپورٹ کم ہونے کا اندیشہ ہے۔

اس جدید دور میں بھی پاکستان کا کسان فرسودہ اور پرانے طریقوں سے کاشتکاری کرنے پر مجبور ہے۔زرعی آلات اتنےمہنگے ہیں کہ کسان کی استطاعت سے باہر ہیں۔ بلند ترین شرح سود پر دئیے جانے والے زرعی قرضےغریب کسان کاایک اور سنگین مسئلہ ہے۔ کسان کو اس کی اجناس کی معقول قیمت نہیں ملتی کہ جس سے وہ اپنی پیداواری لاگت کو ہی پورا کر سکے جس کی وجہ سے غریب کسان مہنگائی اور قرضے کے بوجھ تلے دبتا چلا جاتا ہے۔ اس سال حکومت نے کسان سے گندم 1400 روپے فی من کے ریٹ پر خریدی لیکن جیسے ہی کسان سے گندم خرید لی گئی مارکیٹ میں گندم کا ریٹ 2200 سے 2500 روپے فی من تک چلا گیا۔ یہی حال کپاس کا ہے پیپلزپارٹی کے دور میں کپاس کا ریٹ 6000 روپے فی من تک تھا اور اخراجات کم تھے کسان خوشحال تھا لیکن اب 8 سال بعد کپاس کا ریٹ 3300 روپے فی من ہے جبکہ اخراجات آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ موجودہ حکومت نے کسان بورڈ کی جانب سے کپاس کی فکس پرائس 4424 روپے فی من کرنے کی تجویز کو مسترد کر کے بھی کسان دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔

پچھلے سال کی طرح اس سال بھی کپاس کی اسی فیصد فصل خراب ہو چکی ہے جس کی بنیادی وجہ ناقص بیج اور ناقص زرعی ادویات ہیں جس کی وجہ سے سفید مکھی اور تیلے کا تدارک نہیں ہو سکا۔ پچھلے سال بھی کپاس کے کسانوں کو بہت زیادہ نقصان برداشت پڑا جبکہ اس سال بھی کم و بیش وہی صورتحال ہے کسان قرض دار ہوتا جا رہا ہے جبکہ حکومت کو اس بات کی پرواہ ہی نہیں وہی پرانے ریٹ اور کسان کے لئے کسی ریلیف فنڈ یا سبسڈی کا تصور تک نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سونے جیسی کپاس کی فصل کی کاشت صرف تیس فیصد باقی رہ گئی ہے کیونکہ مسلسل نقصان کے باعث کسان دوسری فصلوں کی طرف راغب ہو رہا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ کسان کے مسائل کے حل کے لئے حکومتی سطح پر زرعی شعبہ کے لئے فنڈز میں اضافہ کیا جائے اور زرعی شعبے کے لئے خصوصی مراعات کا اعلان کیا جائے۔ زراعت کے لئے پانی کی فراہمی کو بہتر بنایا جائے، آبپاشی کے متبادل ذرائع تلاش کئے جائیں اور زرعی استعمال کی بجلی کو سستا کیا جائے۔ زراعت کے جدید طریقوں سے استفادہ کیا جائے اور اس کے لئے زرعی ریسرچ کے محکموں کو فعال بنایا جائے۔ سب سے ضروری اور اہم بات یہ ہے کہ حکومت کسانوں سے مشاورت کے بعد ہر فصل کے پیداواری اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے قیمتیں متعین کرے تاکہ کسان کو اس کی فصل کا مناسب معاوضہ مل سکے۔ کسانوں کو بلا سود قرضے فراہم کئے جائیں اور چھوٹے کاشتکاروں کو مالی اامداد دی جائے۔ دوسرے ملکو ں کی طرح پاکستان میں بھی زرعی آلات پر ٹیکس ختم کیا جائے۰ غیر معیاری بیجوں اور ناقص زرعی ادویات کی سپلائی کو کنٹرول کیا جائے۔

نیشنل ایگریکلچر ریسرچ کونسل (NARC) پاکستان میں زرعی ریسرچ کا سب سے بڑا ادارہ ہے لیکن زرعی پیداوار میں مسلسل کمی اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ نہ ہونا اس ادارے کی کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اس ادارے کی اہمیت کے پیش نظر حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس ادارے کی کارکردگی کا تفصیل سے جائزہ لے اور اس ادارے کو جدید خطوط پر منظم کرے تاکہ پاکستان کی زراعت کو بھی جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس ادارے سے وابستہ افراد کو ائیر کنڈیشنڈ کمروں سے نکال کر فیلڈ میں بھیجے تاکہ کسان کی مناسب رہنمائی کی جا سکے کہ کیسے جدید طریقوں سے فصلوں کو کاشت کر کے کم وسائل کے ساتھ زیادہ پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔

شعبہ زراعت کی اہمیت کے پیشِ نظر اگر حکومت زراعت کو اپنی ترجیحات میں شامل کرلے تو زراعت اور کسان کے گوناں گوں مسائل بآسانی حل ہو سکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف زراعت کا شعبہ دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرے گا بلکہ کسان بھی خوشحال ہو گا اور ملکی ترقی پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے وافر افرادی قوت سے بھی نوازا ہے جو باصلاحیت اور ہنر مند بھی ہیں۔ ذرا سی حکومتی توجہ سے زراعت کے شعبے میں انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے اور زراعت کا یہ سبز انقلاب ہماری گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

میرے دیس کی دھرتی سونا اگلے، اگلے ہیرے موتی۔

About The Author