نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ریاست ماں جیسی کب ہوگی؟ ۔۔۔ نذیر ڈھوکی

مجھے یاد ہے 1983 میں سندھ میں جمہوریت کی بحالی کیلئے تحریک شروع ہوئی اس تحریک میں سندھ کا ایک ضلع دادو ویٹنام بن گیا،

نذیر ڈھوکی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات کو اسلام آباد میں پاکستان بار کونسل کی طرف سے آل پارٹیز کانفرنس میں قومی راہ نماوں نے ریاست سے جو شکوے کیئے وہ توجہہ طلب ہیں۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے 19 ویں آئینی ترمیم کے سارے پوشیدہ راز فاش کردیئے کہ کس طرح دہونس اور دھمکی سے پارلیمنٹ سے 19 ویں ترمیم پاس کرائی گئی، ہمارا قومی میڈیا اس ترمیم پر سیاستدانوں پر لعن طعن کرتا رہا مگر طاقت کے زور پر سیاستدانوں کو مجبور کرنے والے کی طرف دیکھنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی، گزشتہ دنوں ایک صحافی احمد  نورانی نے ایک سابق جنرل عاصم باجوہ کی غیر اصولی معاشی ترقی کا پردہ فاش کیا تو اسے غدار ٹہرایا گیا، سپریم کورٹ کے معتبر جج جسٹس فائز عیسی نے کوئٹہ اور فیض آباد دھرنے کے کرداروں کو بے نقاب کیا تو ریاست کے غضب ناک قھر کے شکار ہوئے، یہاں تک کہ ان اہلیہ کو نشانہ بنانے میں بھی شرم محسوس نہیں کی، حیرت انگیز بات یہ ہے اعلٰی عدالت کے جج کی اہلیہ ریاست کے ایک محکمہ ایف بی آر کے ملازمین کے سامنے ایک ایک پائی کا حساب دینے کیلئے ٹھوکریں کھا رہی ہیں، مگر ریاست کا منشی خانہ ان کی بات سننے کیلئے تیار نہیں، دوسری طرف ایک سابق جنرل کے تہلکہ خیز اثاثے سامنے آتے ہیں تو کوئی سوال جواب کے بغیر انہیں ایمانداری کا سرٹیفیکیٹ دیا جاتا ہے، پتہ نہیں افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک میں اعتزاز احسن کس امید پر ریاست ہوگی ماں کی جیسی کی لوری سناتے رہے۔

مگر جب افتخار چوہدری بحال ہوئے تو ان کے ہاتھوں وہ وزیراعظم شہید ہوئے جنہوں نے وزیراعظم کا حلف اٹھانے سے پہلے افتخار چوہدری اور دیگر قیدی جج صاحبان کو رہا کرنے کا حکم جاری کیا تھا ، اور جس آمر کی ایما پر افتخار چوہدری کے بال نوچے گئے تھے انہیں طلب کرنے کی جرات بھی نہیں کر سکے تھے، سوال یہ ہے کہ اگر کہ ریاست واقعی ماں ہے تو اس کی کوکھ سے جنم لینے والوں کو کیوں اٹھاکر غائب کیا جاتا ہے ؟

مجھے یاد ہے 1983 میں سندھ میں جمہوریت کی بحالی کیلئے تحریک شروع ہوئی اس تحریک میں سندھ کا ایک ضلع دادو ویٹنام بن گیا، نواب شاہ میں بم گرائے گئے، رئیس پُنہل خان چانڈیو اگر چہ چانڈیو قبیلے کے سردار نہیں تھے مگر عزت و احترام میں وہ سردار سے بھی کم نہیں تھے، اس کے گاؤں پر اس طرح گولیوں کی بوچھاڑ کی گئی جیسے وہ دشمن ملک تھا، انتہائی باوقار عمر رسیدہ رئیس پنہل خان چانڈیو کو بھی گرفتار کرنے کے بعد غائب کردیا گیا تھا، اس کے بعد جب انہیں خیرپور جیل منتقل کیا گیا تو ان کے جسم کے ایک ایک انچ پر ریاست کے لگائے ہوئے زخم نمایاں تھے اور چلنے پھرنے کے قابل نہیں تھا۔

مگر صاحب ریاست سے شھریوں کے شکوے اب اس قدر بڑہ چکے ہیں ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے، اب تو محترمہ بینظیر بھٹو شہید بھی اس فانی دنیا میں موجود نہیں  ہے جو اپنے وجود پر لگنے والے زخموں کو نظرانداز کرنے کا حوصلہ رکھتی تھیں، یہ تو آصف علی زرداری کا جگر تھا جس نے جمہوریت کے نام پر ملک بچایا اور ریاست کی لاج رکھی مگر آخر کب تک وہ وفاق کو بچانے کیلئے کردار ادا کرینگے؟

بس اب ایک امید بلاول بھٹو زرداری ہے ضرورت اس امر کی ہے ان کی آواز پر کان دھرے جائیں ، ریاست ناگن بن کر اپنے بچوں کو کھانے کی روش ختم کرے۔

About The Author