مژدم خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1-اگلے ایک ڈیڑھ سال تک مسلسل نروان کی آنکھوں میں سرمہ ڈالا جائے گا اور اسکے ماتھے پر ٹیکا لگایا جائے گا اور جب تک بھوؤں کے بال نہیں آتے تب تک سرمے کے ساتھ اسکی نقلی بھویں بنائی جائیں گی اور گالوں کے نیچے کالا ٹیکا بھی تاکہ نظر سے بچ سکے ، متھ یہ ہے کہ سرمے سے نظر تیز ہوتی ہے آنکھیں صاف رہتی ہیں اور بڑھاپے تک کمزور نہیں ہوتیں، بھوؤں کے معاملے میں یہ خیال ہے کہ سرمہ سے بال اگ آتے ہیں، اسی طرح سر پہ زخم لگنے کی صورت میں بھی سرمہ وغیرہ لگایا جاتا ہے کہ اس جگہ سے بال دوبارہ اُگ آئیں،
2 منہ رکھنی، یہ مٹی اور لکڑی کا بنا ہوا ایک سانچہ ہوتا ہے جس کے اوپر تین مینار نما لکڑی کے تراشیدہ کھمبے نمایاں ہوتے ہیں، اسکے وسط و عقب میں جگہ بنی ہوتی ہے جو بہت سخت ہوتی ہے، بچے کو سلا کر اس کے سر کے اوپر والے حصے کے ساتھ جوڑ کر معاون کے طور پر رکھ دیا جاتا ہے جس سے بچہ دائیں اور بائیں گردن نہیں گھما سکتا دوسرا ایک مدت کے بعد اسکے سر کی بناوٹ تبدیل ہو جاتی ہے
جسے سر بٹھانے کی رسم یا رواج کہا جاتا ہے
جو اوپر لکڑی کے تین کھمبے ہوتے ہیں اس پر باریک یا موٹا موسم کے اعتبار سے کپڑا ڈالا جاتا ہے وہ تین کھمبے ستون کے طور پر کام آتے ہیں اور کپڑا بچے کے منہ پر نہیں آتا جس سے اسے سانس لینے میں آسانی رہتی ہے
3- بدھنا/ بدھنڑاں یہ ایک خاص طرح کا کپڑا ہوتا ہے اس میں رنگت کی ممانعیت نہیں ہوتی عموماََ یہ کپڑا سفید ہوتا ہے اور بہت نرم ہوتا ہے اس کا مقصد بچے کو باندھ کر سلانا ہوتا ہے اس کپڑے سے اُس کی ٹانگیں سیدھی باندھی جاتی ہیں، اور بازو بھی پسلیوں کے ساتھ جوڑے جاتے ہیں اس کا مقصد یہ بتایا جاتا ہے کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو وہ ڈرتا ہے نیند میں اور اچھلتا ہے یا بستر سے لڑک جاتا ہے تو اسے ایک جگہ پر مستحکم رکھنے کے لئے اسکا استعمال کیا جاتا ہے
ایک یہ کہ بچہ اپنے ناخن سے خود کو زخمی نہ کرے جو کہ عموماََ بچہ کرتا ہے
اور دوسرا اپنی انگلیاں نہ چوسے
تیسرا اُسے احساس رہتا ہے کہ وہ اب بھی ماں کے پیٹ میں ہے اور گرفتہ ہے
4- پسولے یا داسنے یہ روئی کے بیلنے کی طرح کے ہوتے ہیں یہ بچے کی پسلیوں اور بازوؤں کے نیچے رکھے جاتے ہیں اور ایک ٹانگوں کے نیچے رکھا جاتا ہے ایک گردن کے نیچے، یہ اس طرح رکھے جاتے ہیں کہ بچہ کروٹ نہ بدل سکے نیند میں، دوم اس لئے کہ اُسے گراماہٹ پہنچے سوم اس لئے کہ اسکی گردن کی رگیں اپنی جگہ پر رہیں تناؤ کا شکار نہ ہوں، یہ چاروں پسولے داسنے ایک ایسا سانچہ بناتے ہیں کہ جیسے گویا چارپائی پر بستر سے جھولا بن گیا ہو
5-آڈھنا- آڈھن، یہ ایک خاص طرح کا مساج ہوتا ہے جو تیل کے ساتھ کیا جاتا ہے ہر دن جس میں مختلف جسم کے حصوں کو آڈھا جاتا ہے ، یا انکا مساج کیا جاتا ہے
مثلاََ ناک کے معاملے میں ناک کی ہڈی کی ساخت بدلی جاتی ہے دو انگلیوں سے مسلسل دبا دبا کر یہ تکلیف دہ ہوتا ہے بچے کے لئے، مگر اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ موٹے ناک کو باریک اور خوش نما بنایا جا سکے
متھ یہ ہے کہ باریک چپٹا ناک پرکشش ہوتا ہے
متھا آڈھن، یعنی ماتھے کا مساج ماتھے کو بھی سر کی طرح بٹھایا جاتا ہے کہ یہ ابھرا ہوا ہوتا ہے ماتھے کا مساج کیا جاتا ہے اور ماتھے پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ اندر کو سرک جائے
اسی طرح جسم کی ہڈی والے تقریباََ تمام حصوں کو آڈھا جاتا ہے
کہ جوانی میں بچے کو جوڑوں کی تکلیف نہ ہو
اور وہ حسین بھی نظر آئے
6- گندولے، یہ قدیم پیمپرز تھے یہ بچے کی پیدائش سے قبل ماں بناتی تھی یہ بہت خوبصورت رنگین ہوتے ہیں اور انکا مقصد وہی تھا جو آج کے دور میں پیمپرز کا ہے
مگر پیمپرز خوش رنگ و خوش نما نہیں ہوتے اور گندولے واش ایبل بھی تھے
7- گھٹی و نام کرن کی رسم، یہ عموماََ بچے کی پیدائش کے چھ دن بعد کی رسم ہے
جس میں بچے کا نام رکھا جاتا ہے اور گھٹی دی جاتی ہے گھٹی سے مراد دودھ کے ایک پیالے میں دودھ رکھا جاتا ہے اور ایک ایسے آدمی سے گھٹی دلوائی جاتی ہے جو اپنی زندگی میں کامیاب ہو یا جس کی شخصیت متاثر کُن ہو
وہ آدمی اپنی چھوٹی انگلی دودھ میں ڈبو کر بچے کے منہ میں دودھ کے قطرے ڈالتا ہے
خیال کیا جاتا ہے کہ بچے میں اس کی تمام تر اچھی عادتیں در آئیں گی
چھٹی کا دودھ یاد دلانے کا محاورہ تو آپ نے سنا ہی ہو گا وہ دودھ اسی دن کا دودھ ہوتا ہے
8-ڈَانڑ، اس رسم میں مکھن کا ایک ٹکڑا بچے کے حلق تک پہنچایا جاتا ہے تاکہ اسکا گلا صاف رہے اور دودھ پینے میں آسانی ہو
اور دوسرا بچہ جسمانی طور پر طاقت ور بنے
خیال یہ ہے کہ بچپن میں کھلائی گئی خوراک بڑھاپے تک ساتھ رہتی ہے
9-ساہنڑی۔ یہ بچے کی وہ کیفیت ہے جس میں بچہ سانس کی تکلیف سے دو چار ہوتا ہے
اور یہ کیفیت بچے میں اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی عقیق نگ اس کے آس پاس ہو
خیال یہ ہے کہ عقیق نگ میں جان ہوتی ہے جب اسکی اپنی جان کم ہونے لگتی ہے تو وہ بچے کے اندر سے اسکی جان کھینچنا شروع کر دیتا ہے یعنی چوس لیتا ہے
ساہنڑی ہونے کی صورت میں بچے کے آس پاس موجود نگ کو پانی میں ڈبویا جاتا ہے اور اس پانی کے قطرے بچے کو پلائے جاتے ہیں،
خیال یہ ہے کہ جتنی جان وہ بچے کی چوس چکا ہوتا ہے یا کھینچ چکا ہوتا ہے وہ اسے واپس مل جاتی ہے اور وہ دوبارہ صحت مند ہو جاتا ہے
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر