نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے شہر لاہور میں ’’قانون کی بالادستی‘‘ کے تصور کو اُجاگر کرنے کا مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے۔حالات چند ہی ہفتے قبل تک وہاں معمول کے مطابق تھے۔ لاہوری صبح اُٹھ کر حسبِ عادت پوریوں کے ساتھ چنے اور تلوں والے نان پائے کے سالن میں ڈبوکر دن کا آغاز کررہے تھے۔ ’’جی حضوری‘‘ویسے بھی ان کی جبلت میں شمار ہوتی ہے۔ ’’جہیڑاجتے اودھے نال‘‘والی ’’حقیقت پسندی‘ ‘کوئی ان سے سیکھے۔
عمران خان کی ’’دیدہ وری‘‘ کے جلوہ نما ہونے سے پہلے، مثال کے طورپر فرض کرلیا گیا تھا کہ ’’تخت لہور‘‘ شریف خاندان کا ہوچکا ہے۔ کسی ’’غیر‘‘ کا ’’قبضہ‘‘ یہ شہر اب ہضم نہیں کر پائے گا۔ شہباز صاحب نے اپنے دس سالہ دورِ اقتدار میں پنجاب کے حصے میں آئی تمام ترقیاتی رقوم اس شہر کو دورِ حاضر کا شنگھائی یا پیرس بنانے میں جھونک دی تھیں۔ اسی باعث مذکورہ شہر میں مسلم لیگ (نون) کا ’’ووٹ بینک‘‘ 2018 کے انتخاب کے دوران بھی ’’ٹوٹ‘‘ نہیں پایا۔ سیاسی مبصرین کی اکثریت اس مغالطے میں مبتلا رہی کہ عمران خان کے نامزد کردہ عثمان بزدار اس شہر کو سنبھال نہیں پائیں گے۔ لاہور میں کسی بھی وقت ’’احتجاجی‘‘ تحریک شروع ہوسکتی ہے۔
عثمان بزدار صاحب کو ’’تخت لہور‘‘ پر براجمان ہوئے اب دو برس گزرچکے ہیں۔ دریں اثناء نواز شریف اپنی دُختر سمیت گرفتار ہوکر احتساب عدالت کے ہاتھوں ’’سزایافتہ‘‘ ہوکر جیل چلے گئے۔ مریم صاحبہ کی بالآخر ضمانت ہوگئی۔ ان کے والد مگر ایک اور مقدمے میں سنائی سزا کی وجہ سے جیل ہی میں رہے۔ لہوریوں کو اس کی وجہ سے ہرگز کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوئی۔ ’’کھابوں‘‘ سے بدستور لطف اندوز ہوتے رہے۔ میرے شہر کی گلیوں میں اکثر کہا جاتا ہے کہ گاجریں کھانے والوں کے پیٹ میں بالآخر درد بھی ہوتا ہے۔ نواز شریف صاحب گویا اپنی ’’گاجروں‘‘ کی وجہ سے مشکلات میں گھرے محسوس ہوئے۔ انہیں ’’وقت اچھا بھی آئے گا ناصرؔ‘‘والی اُمید پر قائم رہنا ضروری تھا۔ شہباز شریف صاحب کی کاوشوں سے بالآخر وقت اچھا ہوتا بھی نظر آنا شروع ہوگیا۔ نواز شریف جیل سے ہسپتال منتقل ہوئے۔ بالآخر ’’انہونی‘‘ یہ بھی ہوئی کہ ایک ’’سزا یافتہ مجرم‘‘ علاج کروانے لندن بھیج دیا گیا۔ ’’مجرم‘‘ سے توقع یہ باندھی گئی کہ صحت یابی کے بعد لاہور لوٹیں گے اور ایک ذمہ دار شہری کی طرح اپنی بقیہ سزا کاٹنے ایئرپورٹ سے سیدھا جیل چلے جائیں گے۔ نومبر2019 کے بعد مگر اب دسواں مہینہ شروع ہوگیا ہے۔ نواز شریف واپسی کی تیاری کرتے نظر نہیں آرہے۔ گھی شاید ٹیڑھی اُنگلی سے نکالنا ضروری ہوگیا ہے۔ دریں اثناء چند ہفتے قبل نیب کے لاہور آفس کو یاد آیا کہ محترمہ مریم نواز صاحبہ کی جانب سے چند قیمتی زمینیں خریدی گئی ہیں۔ اس خریداری کی ’’رسیدیں‘‘ درکار تھیں۔ قانون کا احترام کرتے ایک عام شہری کی طرح مگر وہ خاموشی سے سرجھکائے پیشی کے روز نیب کے دفتر حاضر ہوجانے کے بجائے ٹی وی سکرینوں پر اپنے حامیوں کے ’’لشکر‘‘ سمیت کوئی معرکہ سرکرنے کی کوشش کرتی نظر آئیں۔حکومتی ترجمان مسلسل یہ الزام لگارہے ہیں کہ اپنی پیشی سے ایک روز قبل انہوں نے ’’جاتی امرائ‘‘ میں ’’کن ٹُٹوں‘‘ کا ایک خفیہ اجلاس منعقد کیا۔ انہیں ’’خرچہ پانی‘‘ دے کر اس امر کو تیار کیا گیا کہ مریم صاحبہ کی پیشی کے روز لاہور کی سڑکوں پر کوئی ’’شو‘‘ لگائیں۔ یہ ’’شو‘‘ لگانے کے لئے مبینہ طورپر گاڑیوں میں نوکیلے پتھروں کی ’’رسد‘‘‘ بھی جمع ہوئی۔ ان پتھروں کے استعمال سے نیب اور لاہور پولیس کو گویا پیغام یہ دیا گیا کہ مریم صاحبہ کو آئندہ طلب کرنے کی جرأت نہ دکھائی جائے۔ نیب بھی اس پیغام کو ’’احترام‘‘ سے وصول کرتی نظر آئی۔ ہنگامے کے دوران اعلان ہوگیا کہ مریم صاحبہ نیب کے روبرو پیش ہوئے بغیر جاتی امراء لوٹ سکتی ہیں۔ وہ کسی ’’فاتح‘‘ کی مانند گھرلوٹ گئیں۔ قصہ مگر تمام نہیں ہوا۔ پنجاب میں ’’فرض شناس افسر‘‘ اگر ایک ڈھونڈنے نکلو تو ہزار مل جاتے ہیں۔ مریم نواز صاحبہ کی نیب کے روبرو پیش ہوئے بغیر گھر واپسی پر وہ بہت پریشان ہوئے۔ Whatsapp گروپوں میں ماتم برپا ہونا شروع ہوگیا کہ لاہورمیں ’’ریاست کی رٹ‘‘ اور ’’قانون کی بالادستی‘‘خاک میں مل گئی ہے۔ پُلس اور نیب کی ’’بزتی‘‘ کی وجوہات تلاش کرتے ہوئے دریافت یہ بھی ہوا کہ اپنے دس سالہ دورِ اقتدار کے دوران شہبازشریف نے 2008 سے 2018 کے دوران برطانوی راج کے زمانے سے اس خطے کی سب سے دبنگ شمار ہوتی ’’پنجاب پولیس‘‘ کو اپنے ذاتی وفاداریوں کی بے دریغ سرپرستی سے تباہ وبرباد کردیا ہے۔ اس ضمن میں بے تحاشہ نام گردش میں آئے۔ ان میں سے چند پیغامات پڑھتے ہوئے مجھے خدشہ یہ لاحق ہوا کہ بالآخر پنجاب پولیس کو بحیثیتِ اجتماعی Dissolve کرکے اس کی جگہ صفر سے شروع ہوکر امن وامان کو یقینی بنانے والی کسی نئی فورس کے قیام کی تیاری نہ شروع ہوجائے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر