نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ریاست بہاولپور کے تیسرے نواب:مبارک خان دوم ۔۔۔سلطان کُلاچی

محمد مبارک خان کے عہد میں ریاست نے خاصی ترقی کی لیکن اگرچہ نواب مبارک خان ساری ریاست کا نواب تھا لیکن مطلق حاکمیت حاصل نہیں تھی

تحریر و تحقیق: سلطان کُلاچی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ریاست بہاولپور کے تیسرے نواب

نواب مبارک خان دوم بانی ریاست بہاولپور صادق محمد خان اول کے دوسرے بیٹے اور محمد بہاول خان اول کے بھائی تھے۔ نواب مبارک خان نے ریاست پر 24 سال کامیاب حکمرانی کی۔

مبارک خان دوم.

سلسلہ نسب .

مبارک خان دوم بن نواب صادق محمد خان اول بن نواب مبارک خان اول بن بہادر خان دوم بن فیروز یا پیروج خان بن امیر محمد خان دوم بن بھکھر خان دوم بن بہادر خان بن بھکھر خان بن ہیبت خان بن امیر صالح خان بن امیر چندر خان بن داؤد خان دوم بن بن محمد خان بن محمود خان بن داؤد خان بن امیر چنی خان بن بہاءاللہ عرف بھلا خان بن امیر فتح اللہ خان

دستار بندی

چونکہ نواب بہاول خان اول کی کوئی اولاد نہیں تھی اس لیے اس کی جگہ اس کے بھائی مبارک خان نے لی ۔ داؤد پوترے اس انتخاب پر پوری طرح متفق تھے۔ اس لیے نواب مبارک خان کی دستار بندی مورخہ رجب 1163ھ بمطابق 1749ء میں ہوئی۔

ریاست میں وسعت .

نواب مبارک خان دوم کے بارے میں تاریخ کی کتب میں یہ ملتا ہے کے بہت ہی پرجوش انداز نوجوان تھے. جو نہ کے صرف ریاست کو توسیع دینا چاہتے تھے بلکہ شہروں کو خوبصورت اور ترقی یافتہ بنانے کا خواب بھی رکھتے تھے.

اس کی دستار بندی کے کچھ ہی عرصہ بعد نواب نے خیرپور کے وڈیرا محمد معروف خان قائم پور کے قائم خان اربانی اور حاصل پور کے حاصل خان کی معاونت سے جیسلمیر سے مروٹ چھین لیا۔ اس نے تاج و پنجند کے شمال و مغرب میں بھی فتوحات کیں۔ مدولا اور اس کے زیر نگین علاقے اور شیہنی (اب ضلع مظفر گڑھ میں) ناہڑوں سے چھینے گئے اور بیٹ ڈوما علاقہ سیت پور کے مخدوم شیخ راجو سے 1164ھ میں لیا گیا۔ نواب نے منچن آباد کی موجودہ کارداری شہروں سے چھینے گئے اور بیٹ ڈوبا علاقہ سیت پور کے مخدوم خراجو سے 1164ھ میں لیا گیا۔ نواب نے منچن آباد کی موجودہ کارداری کے سامنے والا علاقہ پاکپتن تک مطیع کیا جس میں کچھی، پیر غنی وغیرہ گاؤں (موجودہ ضلع منٹگمری) سمیت شامل تھا، نیز لودھراں و میلسی کے علاقے بشمول دنیاپور و کہروڑ (موجودہ ضلع وہاڑی و لودھراں) بھی شامل تھے۔

جہان خان کا حملہ

1165ھ بمطابق 1751ء میں احمد شاہ ابدالی کے ایک جرنیل سردار جہان خان نے اُچ پر حملہ کیا جس پرنواب محمد مبارک خان نے موج گڑھ، مروت اور پھولرا میں داؤد پوتروں کو تعینات کیا اور تمام افواج کو خیر پور میں جمع ہونے کا حکم دیا۔ اُچ سے جہان خان بہاولپور کی طرف بڑھا اور آٹھ ہزار آدمی خیر پور روانہ کیے لیکن اس کے بعد ہونے والی لڑائی میں یہ دستہ شکست سے دوچار ہوا (1751ء 1752ء) اور فاتحین نے لال سوہارنا تک اس کا تعاقب کیا۔ جہان خان امن قائم کرنے پر مان گیا اور فتح پور فیری کے ذریعے سے ملتان واپس روانہ ہوا۔

تعمیرات

نواب مبارک خان دوم کے بارے میں تاریخ کی کتب میں یہ ملتا ہے کے بہت ہی پرجوش انداز نوجوان تھے. جو نہ کے صرف ریاست کو توسیع دینا چاہتے تھے بلکہ شہروں کو خوبصورت اور ترقی یافتہ بنانے کا خواب بھی رکھتے تھے

داؤد پوترے سردار، جونواب کی غیر متعین اطاعت میں تھے ، اس دور حکومت کے دوران تسخیر اور آباد کاری میں سرگرم عمل بھی تھے۔ قائم خان اربانی کے بیٹے کرم خان نے پھولرا کی تعمیر نو کروائی (1753ء)۔ اختیار خان مندهانی نے کلہوڑوں سے گڑھی شادی خان چھینا اور اس کا نام بدل کر اپنے نام پر رکھا۔ بہاول خان پیر جانی نے خیر پورنورنگا کی بنیاد رکھی اور دجلہ نالہ ( اورنگ زیب کی کھدوائی ہوئی ایک نہر) صاف کروا کر اس کا نام اورنگا یا نگاہ رکھا۔ دین گڑھ قلعہ کی بنیاد معروف خان کہرانی کے بیٹے ابراہیم نے رکھی (1756ء) اور اس کے بھتیجے خدا بخش خان نے اسے مکمل کروایا۔ شکار پور سرحد پر سبزل کہرانی نے سبزل کوٹ کی بنیاد رکھی اور سبزل واہ نہر بنوائی (1757ء)۔ دریں اثنا نواب نے جوئیوں پر ہیبت طاری کرنے کی خاطر شہر فرید کے قریب مبارک پور قلعہ تعمیر کروایا تھااور چھ سال بعد ٹڈ ولھرا کو فصیل بند کرنے کی کوشش کی جو بیکانیر نے اسے پٹے پر دیا ہوا تھا، لیکن راجا نے مجوزہ فصیلوں پر اعتراض کیا اور نتیجاً ہونے والی جنگ میں نواب فتح مند رہا۔ تب نواب مبارک خان نے اپنی فتح کو یادگار بنانے کی خاطر ولھرا کے کھنڈر پر سردار گڑھ کا قلعہ بنایا (1758ء)۔ نواب نے خود لودھراں اور میلسی علاقوں میں مبارک واہ، سردار واہ، خان واہ اور کچھ دیگر چھوٹی نہریں بھی تعمیر کروائیں جو آج بھی جاری ہیں۔ رائے سنگھ نے 1173ھ بمطابق 1759ء میں نصف حصول کی ادائیگی کرنے پر قلعہ دراوڑ بھی نواب مبارک خان کو واپس کر دیا اور اسی سال اس نے بیکانیر کے راجا گج سنگھ سے انوپ گڑھ لیا، بہرحال اس نے اگلے برس دوبارہ اس پر قبضہ کر لیا۔ ونجھروٹ 1174ھ بمطابق 1760ء میں اس کے ہاتھ لگا۔ دریا خان جبرانی نے کاروانوں پرمحصول عائد کر کے 1757ء میں اس کی مرمت کروائی تھی، لیکن 1759ء میں علی مراد خان پیرجانی نے اسے غصب کر لیا اور اگلے سال علم بغاوت بلند کیا۔ چنانچہ نواب نے قلعے کو قبضے میں لیا اور اپنے علاقے سے ملحق کر لیا (1760ء)۔ مد منتھار کی بنیاد 1763ء میں منتھار نوہانی نے صادق آباد کار داری میں رکھی اور اختیار خان مندهانی نے بھیم وار پر قبضہ کیا جس نے جیسلمیر کے راول مول راج کی قلعہ دار فوج کو رشوت دی تھی اور اس کا نام بدل کا اسلام گڑھ رکھ دیا۔ 1761ء میں غلام شاہ کلہوڑا اس بات سے خفا ہو کر ریاست پر حملہ کیا کہ یہاں اس کے بھائی عطرخان (جسے اس نے سندھ سے بے دخل کیا تھا) کو پناہ دی گئی تھی۔ غلام شاہ نے گڑھی اختیار خان تک پیش قدمی کی لیکن اس وقت اپنے ملک میں واپس لوٹ آیا جب یہ طے پا گیا کہ عطر خان کو اس کے حوالے کر دیا جائے گا۔ دریں اثنا بھنگی سکھ داؤد پوتروں کی بڑھتی ہوئی طاقت سے خطرہ محسوس کرنے لگے تھے اور 1766ء میں جھنڈا سنگھ، گنڈا سنگھ اور ہری سنگھ نے نواب کے ستلج پار علاقوں پر حملہ کیا لیکن غیر فیصلہ کن معرکے کے بعد پاکپتن کو دونوں ریاستوں کے درمیان سرحد تسلیم کر لیا گیا۔ پانچ سال بعد سکھوں نے گنڈا سنگھ اور مجا سنگھ کی زیر قیادت ملتان علاقے پر دھاوا بولا اور اپنی کارروائیوں کو گھارا کے دائیں کنارے پر داؤد پوترا علاقے کے اندر تک لے گئے۔ داؤد پوتروں نے صاحب زاده جعفر خان (نواب بہاول خان دوم) کی زیر قیادت کہروڑ کے قریب دشمنوں سے ٹکرلی، جب مجا سنگھ مارا گیا تو سکھ میدان جنگ سے چلے گئے۔

ریاست کی حالت

محمد مبارک خان کے عہد میں ریاست نے خاصی ترقی کی لیکن اگرچہ نواب مبارک خان ساری ریاست کا نواب تھا لیکن مطلق حاکمیت حاصل نہیں تھی کیونکہ پیر جانی، کہرائی، اربانی، ہالانی، مندهانی، معروفیانی اور دیگر خوانین اپنے اپنے علاقوں پر خود مختار حکومت کر رہے تھے۔ درحقیقت ریاست متعدد چھوٹی چھوٹی رعیتوں کی کنفیڈریشن تھی۔ ہر رعیت کا حکمران ملکیتی حقوق کے علاوہ انتظامی اختیارات رکھتا تھا اورنواب کی سرداری برائے نام تھی۔

وفات

نواب مبارک خان 24 برس تک حکومت کرنے کے بعد 3 ربیع الاول 1186ھ بمطابق 5جون 1772ء کو فوت ہوئے۔ اس کی کوئی اولاد نہ تھی۔

یہ بھی پڑھیے:ریاست بہاولپور کے پہلے نواب:صادق محمد خان اول۔۔۔سلطان کُلاچی

About The Author