منگل کی سہ پہر قومی اسمبلی کااجلاس شروع ہونے سے قبل مجھ جیسے کئی پاکستانی ہمارے آزاد اور ہر پل کی خبر دینے والے ٹی وی چینلوں کی بدولت یہ جان چکے تھے کہ محترمہ مریم نوازصاحبہ نے لاہور پولیس کو ’’سوچے سمجھے منصوبے‘‘ کے تحت اشتعال دلایا۔ نیب کے لاہور آفس نے انہیں زمینوں کی خریداری سے متعلق تفصیلات بیان کرنے کو طلب کررکھا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ ’’رسیدیں‘‘ لے کر وہاں جاتیں۔ تفتیش کاروں کو ٹھوس جوابات فراہم کرنے کے بعد اطمینان سے گھر لوٹ آتیں۔حکومتی ترجمانوں نے مگر دریافت یہ کیا کہ اپنی پیشی سے ایک رات قبل انہوں نے جاتی امراء میں نوجوانوں کا ایک گروہ جمع کیا۔ ان میں رقم تقسیم کی۔ ہدایت ا نہیں یہ دی گئی کہ نیب آفس اور پولیس پر حملے کے لئے پتھر جمع کرکے انہیں گاڑیوں میں لاد کر ’’جائے وقوعہ‘‘ پر پہنچیں۔ مریم صاحبہ نیب آفس کے قریب پہنچیں تو پہلے سے جمع شدہ پتھر پولیس پر برسنا شروع ہوگئے۔جواباََ پولیس کو اولاََ لاٹھی چارج اور بعدازاں آنسو گیس کے شیل پھینک کر امن بحال کرنا پڑا۔ کارسرکار میں مداخلت کے الزام میں کئی نوجوان گرفتار بھی ہوئے۔پولیس کی حراست میں اب وہ تمام حقائق بیان کردیں گے۔ ان کے ’’اعترافی‘‘ بیانات کی روشنی میں پرچے کٹیں گے۔ ان کی پیروی میں عدالتوں سے ’’تخریب کاری‘‘ پر اُکساتے مسلم لیگ (نون)کے کئی رہ نمائوں کو بھی واجب سزائیں بھگتنا ہوں گی۔
حکومتی ترجمانوں کی بتائی کہانی پراعتبار کرتے ہوئے مجھے خدشہ لاحق ہوا کہ منگل کی سہ پہر قومی اسمبلی کا اجلاس ’’ہنگامہ خیز‘‘ ہوجائے گا۔ وہاں نون کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے اراکین لاہورمیں ہوئے ’’ظلم‘‘ کی بابت دہائی مچائیں گے۔ جواباََ وزارتی بنچوں سے مراد سعید صاحب کھڑے ہوکر گاڑیوں میں لادے پتھروں کا ذکر کرتے ہوئے ان کا مکو ٹھپ دیں گے۔ایسا مگر ہوا نہیں۔قومی اسمبلی کے اجلاس کا حسبِ معمول آغاز ہوا۔ یہ دن نجی اراکین کی جانب سے ہوئی قانون سازی کے لئے مختص تھا۔ اس سے قبل مگر حکومتی صفوںسے ایک ’’توجہ دلائونوٹس‘‘ پر سوالات اٹھنا شروع ہوگئے۔ وہ شکوہ کناں تھے کہ کسانوں کو درآمد شدہ کھاد پر Subsidyفراہم کرنے کا وعدہ ہوا تھا۔ کسان مگر اصل قیمت پر ہی کھاد کی بوری خریدتا رہا۔ اس بوری میں ایک ’’ٹوکن‘‘ ہوا کرتا تھا۔ اس ٹوکن کے بدلے امدادی رقم حاصل کی جاسکتی تھی۔یہ رقم لینے کسان جب متعلقہ محکموں سے رابطہ کرتے تو انہیں اطلاع دی جاتی کہ ان کے ٹوکن ’’زائد المعیاد‘‘ ہوچکے ہیں۔ ٹوکن سے قبل کسانوں کو موبائل فون میں بیلنس ڈالنے جیسے کارڈ دئیے جاتے تھے۔ ان سے رقم نکلوانے کی کوششیں بھی باورآور ثابت نہ ہوئیں۔ اپنے ساتھیوں کی جانب سے بیان کردہ واقعات کی پارلیمانی سیکرٹری -امیر سلطان-تردید نہ کر پائے۔ بالآخر یہ اعتراف کرنے کو مجبور ہوئے کہ حکومتِ پنجاب کھاد کی امدادی رقم کے لئے مختص سرمایہ بینکوں میں بروقت جمع نہیں کرواپائی۔اس وجہ سے پہلے کارڈ اور بعدازاں ٹوکن کے بدلے امدادی رقوم کی ادائیگی نہ ہوپائی۔اب کارڈ یا ٹوکن جاری کرنے سے قبل بینکوں میں مطلوبہ رقم کی موجودگی کو یقینی بنایاجائے گا۔کسان کو قصہ مختصر کھاد کی خریداری کے ضمن میں حکومت بروقت کوئی مدد فراہم نہیں کر پائی۔ اب اگرچہ مناسب اقدامات کا یقین دلایا گیا ہے۔
یہ معاملہ ختم ہوا تو مسلم لیگ (نون) کی صفوں سے خواجہ آصف پوائنٹ آف آرڈر پر کھڑے ہوگئے۔انہوں نے انتہائی نپے تلے الفاظ میں ’’لاہور واقعہ‘‘ کا ذکر کیا۔پٹ سیاپے‘‘ سے مگر گریز کیا۔ان کی معروضات کے بعد عمران حکومت کے سینئر ترین وزیر شاہ محمود قریشی صاحب کھڑے ہوئے۔اپنی تقریر کے ابتداء ہی میں انہوں نے ’’مشرقی روایات‘‘ کا ذکر کیا۔ ان روایات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے محتاط انداز میں گویا اعتراف کرلیا کہ غالباََ مریم نواز صاحبہ کے ساتھ کچھ ’’زیادتی‘‘ہوئی ہے۔ اس کے بعد مگر اصرار کرنے لگے کہ لاہور میں نیب آفس کے باہر پولیس نے جو بھی کیا تحریک انصاف کی حکومت کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔پولیس کے رویے کو انہوں نے جذبات کی روانی میں بلکہ ’’احمقانہ‘‘ بھی قرار دیا۔ساتھ ہی مگر عرض یہ گزاری کہ وہ اور دیگر وزراء منگل کے دن وفاقی کابینہ کے اجلاس میں مصروف رہے ہیں۔انہیں لاہور واقعہ کی حقیقی تفصیلات جاننے کے لئے وقت درکار ہوگا۔ نون لیگ کے اراکین قومی اسمبلی نے فراخدلی سے ان کی بات پر اعتبار کیا۔مریم نوازصاحبہ کے ساتھ ہوا واقعہ ہنگامہ خیزی کا سبب نہ بن پایا۔
شاہ محمود قریشی کے مدافعانہ طرز عمل نے البتہ حکومتی ترجمانوں کی جانب سے ہمارے آزاد میڈیا پر پھیلائی اس کہانی کو ’’ڈبہ‘‘ بنادیا جو گاڑیوں میں پتھر لاد کر آنے والے ’’اجرتی مظاہرین‘‘ کو ’’بے نقاب‘‘ کررہی تھی۔یہ کہانی بنیادی طورپر اس لئے چل نہیں پائی کیونکہ لاہور میں جاری ہنگامے کے دوران مریم نواز صاحبہ نے اپنے موبائل سے ایک تصویر بناکر اسے سرعت سے اپنے ٹویٹر اکائونٹ پر پوسٹ کردیا تھا۔اس تصویر میں محترمہ کے زیر استعمال گاڑی کی ونڈ سکرین پر ’’کریک‘‘ واضح نظر آرہا تھا۔گاڑی کے سامنے پولیس کی ورد ی میں ملبوس جوان سڑک سے پتھر اٹھاکر اسے مریم صاحبہ کی جانب اچھالتے ہوئے بھی نظر آرہے تھے۔مریم نواز اس تصویر کی بدولت اس شبہے کو پھیلانے میں کامیاب رہیں کہ انہیں نیب کے دفتر بلاکر تفتیش مقصود نہ تھی۔ اصل خواہش انہیں کسی صورت ’’حملے کا نشانہ‘‘ بنانا تھا۔
حقائق کچھ بھی رہے ہوں۔فنِ ابلاغ کا ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے میں یہ لکھنے کو مجبور ہوں کہ ذہن سازی یا Perception Buildingکے حوالے سے جو مقابلہ مریم نواز صاحبہ اور حکومتی ترجمانوں کی فوج ظفرِ موج کے مابین منگل کے روز لاہور میں ہوا وہ بالآخر نواز شریف کی دختر کے ہاتھ رہا۔اس رائونڈ میں ان کی کامیابی اس لئے بھی حیران کن ہے کہ 2011سے تحریک انصاف ہر حوالے سے یہ ثابت کرتی چلی آئی ہے کہ سوشل میڈیا کے مؤثر استعمال کے ہنر پر اس کا کامل اجارہ ہے۔اس اجارے کی بدولت تحریک انصاف کی سپاہ ٹرول نے پاکستانی صحافیوں کی ایک بڑی تعداد کو ’’لفافہ‘‘ بنادیا۔ہمارا تمام تر روایتی میڈیا بالآخر ان کی ذہانت کے طفیل ’’بکائو میڈیا‘‘ ثابت ہوا۔تحریک انصاف کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد اگست 2018سے ہمارا روایتی میڈیا دل وجان سے اپنے گناہوں کی تلافی میں مصروف ہے۔ ٹی وی سکرینیں ’’لفافہ صحافیوں‘‘ کی کثافت سے پاک ہوچکی ہیں۔ منگل کے دن حکومتی ترجمانوں کی جانب سے بتائی ’’اجرتی مظاہرین‘‘ والی کہانی بھی شدومد سے بیان ہوئی۔ تحریک انصاف کے ایک جید اور قدآور وزیرجناب شاہ محمود قریشی مگر اس کہانی کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران دہرانے کو آمادہ نہ ہوئے۔ جس کہانی کو مزید مصدقہ بنانے میں مخدوم صاحب نے گریز کیا اسے میرے اور آپ جیسا اخبارات کا عام قاری یا ٹی وی سکرینوں کا ناظرقابل اعتبار کیوں گردانے گا؟۔
تحریک انصاف کی سپاہ ٹرول کو لاہور واقعہ کے بعد یقینا ایک Refresher کورس کی ضرورت ہے۔ شاید اقتدار میں دو برس گزارنے کے بعد وہ حکمرانی سے لطف اندوز ہوتی ’’کاہلی‘‘ کا شکار ہوگئے ہیں۔ انہیں گماں ہے کہ یوٹیوب پر چھائے حق گو افراد سیاست دانوں کا روپ دھارے ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو ’’مجرمانہ خاموشی‘‘ اختیار کرنے کو مجبور کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی سپاہ ٹرول کو اب اپنی ذہانت اور مہارت شدت سے بروئے کار لانے کی ضرورت نہیں رہی۔1975سے ’’بکائو میڈیا‘‘ سے مسلسل وابستہ رہنے کی بدولت میں بھی ’’لفافوں‘‘ کا عادی ہوچکا تھا۔ ان دنوں مالی حالات کافی دُگرگوں ہیں۔ جی مچل رہا ہے کہ تحریک انصاف کے بیانے کو فروغ دینے میں حصہ ڈالتے ہوئے کچھ معاشی راحت کا بندوبست ڈھونڈا جائے۔ اپنا ’’سودا‘‘ بیچنے کی خاطر Sampleکے طورپر عاجزانہ تجویز ہے کہ مریم نواز کو ’’مریم صفدر‘‘ پکارنا کارِ بے سود ہے۔ مریم نواز کو جاتی امراء کے نواز شریف کی دختر پکارنے کی بجائے ’’صفدراعوان‘‘ کی اہلیہ بتاتے ہوئے حکومتی ترجمان لاشعوری طورپر درحقیقت اعتراف کررہے ہوتے ہیں کہ سپریم کورٹ سے تاحیات نااہل ہونے اور عدالت سے ’’سزا یافتہ مجرم‘‘ بن جانے کے بعد بھی نواز شریف صاحب سیاسی اعتبار سے بدستورمؤثر کشش کے حامل ہیں۔ ان کی دختر کی حیثیت میں مریم نواز صاحبہ مسلم لیگ (نون) کے ووٹ بینک کو ورثے کی شکل میں Encashکررہی ہیں۔ اسی باعث ان کی ’’شناخت‘‘ صفدر اعوان کی اہلیہ کے طورپر اجاگر کرنے کی مشق ہورہی ہے۔ ایسی کاوشیں ماضی میں بھی ناکام رہی ہیں۔ ان میں وقت ضائع نہ کیا جائے۔اصل ہدف ’’عدالتوں سے سزا یافتہ مجرم‘‘ کو سیاسی اعتبار سے غیر مؤثر بنانا ہونا چاہیے۔ یہ ہدف حاصل نہ ہوا تو ’’مریم صفدر‘‘ جب بھی سیاسی حوالوں سے عوام میں نمودار ہوں گی تو ویسے ہی واقعات دیکھنا ہوں گے جو لاہور میں منگل کے دن نظر آئے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر