جی ہاں: ہم میں سے بہت کم جانتے ہیں کہ آج مورخہ 11 اگست کو “اسلامی جمہوریہ الباکستان” میں کاغذی سطح پر “مینارٹیز ڈے” منایا گیا –
خواتین و حضرات؛ بانیء پاکستان کی “نیشنل آرکائیوز” سے غائب 11 اگست 1947 کی جس “المشہور” تقریر کے حوالے سے اس دن کو “یومِ اقلیتاں” قرار دینے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی بنیاد کو “سیکولر” ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے؛
آیئے آج ملک کی پہلی غیر منتخب “دستور ساز اسمبلی” کے پہلے اجلاس سے بانی گورنر جنرل کے اس خطاب کی حقیقت کو انہی کے اس سے پہلے اور اس کے بعد کے فرمودات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں ..
ہمارے ہاں کی “اقلیتیں” اور سیکولرازم کے علم بردار بانئی پاکستان کی 11 اگست 1947 کے “تاریخ ساز خطاب” کے جن الفاظ کو لے کر پهولے نہیں سماتے؛
ان کا مفہوم یہ ہے کہ “ریاست کو اس سے کوئی غرض نہیں ہونا چاہئے کہ آپ کس عقیدے، کس مذہب یا کس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں:
بحیثیت شہری آپ میں سے کسی کو دوسرے پر کوئی فوقیت یا امتیاز حاصل نہیں رہے گا”؛
اور یہ کہ “کچھ عرصہ بعد پاکستان میں سیاسی حقوق کے حوالے سے ہندو اور مسلم سمیت تمام طبقات مساوی حیثیت کے حامل ہو جائیں گے”..
قارئین گرامی: ہم بهی بابائے قوم کی محولہ بالا تقریر میں سے “مملکت خداداد” کی سیکولر بنیاد کشیدنے کے ساتھ ساتھ “اقلیتوں کو مملکت کے مساوی شہری” تسلیم کر لیتے؛
اگر ہم نے “بابائے قوم” کی زندگی میں ہی ابهر آنے والے چند تضادات دیکھ نہ رکهے ہوتے اور مذکورہ خطاب کی تردید کرتے ان کے کچھ بیانات نہ پڑهے ہوتے …
مثلاً آپ نومبر 1945 میں پیر صاحب آف مانکی شریف کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں کہ “نئی ریاست کی دستور ساز اسمبلی مسلمانوں کے غلبہ کے زیرِ اثر ہوگی، لہٰذا وہ شریعت کے منافی قانون سازی نہیں کرسکے گی اور اس طرح مسلمان غیر اسلامی قوانین کے پابند نہیں رہیں گے” …
خواتین و حضرات؛ اگر تھوڑی دیر کیلئے ہی سہی، اس مفروضہ تهیسز کو درست تسلیم کر لیں کہ جناح صاحب کی اصل پالیسی بعدازاں دستور ساز ادارے سے ان کے خطاب کی صورت میں ظاہر ہوئی؛
تو پهر درج ذیل اقدامات بارے کیا رائے قائم کی جائے..؟؟
1. بانئی پاکستان کی زندگی میں ہی، اور ظاہر ہے آپ کی منظوری سے سوڈان کے محمد اسد نامی اس نومسلم کو “علامہ” کے خطاب کے ساتھ پاکستان بلا کر ملک کیلئے “اسلامی آئین” کی تشکیل کی ذمہ داری سونپی گئی، جس نے اس سے پہلے سعودی عرب کیلئے “اسلامی قوانین” مرتب کئے تهے
2. قرارداد مقاصد جیسی متنازعہ دستاویز کی تیاری پر کام بهی آپ کی زندگی میں ہی شروع کر دیا گیا تھا، جسے بعد ازاں ریاست کے ہر آئین کیلئے رہنما دستاویز کی صورت میں ہر آنے والی مقننہ پر مسلط کر دیا گیا …
چلئے قارئین: اس مفروضے پر بهی ایمان لے آئے ہیں کہ مذکورہ بالا دونوں اقدامات سمیت دیگر ایسی پیش رفت جناح صاحب کو اعتماد میں لائے بغیر عمل میں لائی جاتی رہی …
لیکن پهر 11 اگست 47 کی “سیکولر تقریر” کے ٹهیک 13 ماہ بعد 11 ستمبر 48 کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب سے خطاب کے دوران آپ کی جانب سے فراہم کردہ اس “گائیڈ لائن” کو کیا نام دیا جائے کہ
“ملک کا اقتصادی نظام اسلام کے معاشی اصول و ضوابط کی روشنی میں ترتیب دیا جائے گا”..؟؟
مزید برآں: ان گائیڈ لائنز سے پہلے لیکن 11 اگست والے خطاب کے بعد 14 فروری 1948 کو “سبی دربار” سے خطاب اور اسی ماہ امریکی عوام کے بام نشریاتی پیغام کے ان فرمودات کی کیا تشریح ممکن ہے کہ
“ہماری جمہوریت کی بنیاد رسول اللہ صلعم کے مرتب کردہ سنہری اصولوں پر استوار ہے، جو آج بھی اسی طرح قابل نفاذ ہیں، 1300 سال قبل جیسے تهے”..؟؟
خواتین و حضرات؛ مندرجہ بالا شواہد و نکات کی روشنی میں آپ میری رہنمائی فرمائیں کہ
“بابائے قوم کے ذہن میں نوزائیدہ مملکت کے نظام بارے کوئی واضح نقشہ تها بهی یا آپ موقع محل اور ضرورت کے مطابق سیاسی قسم کے بیانات کے ذریعے کام چلانے کی “حکمت عملی” پر عمل پیرا رہے”…؟؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر