چودہ جولائی کو میں ایک کانفرنس میں شریک تھا جب مجھے چھوٹے بھائی نعیم کا موبائل فون پر پیغام ملا کہ ظفر لنڈ کو قتل کر دیا گیا ہے۔ اطلاع اندوہناک تھی لیکن اس نے مجھے حیران نہیں کیا۔ ظفر کی سیاسی و سماجی دیدہ دلیریاں دیکھ کر مجھے اور دوسرے دوستوں کو اس بات کا دھڑکا لگا رہتا تھا کہ ’پاکبازوں کی سرزمین‘ پرکسی بھی وقت ہمارے یار کی زندگی مختصر کی جا سکتی ہے۔
میں نے کوشش کی کہ کانفرنس کے اختتام تک اس میں شریک رہوں، لیکن میں وہاں موجود نہیں تھا۔ ظفر سے تعلق ایک دو برس نہیں بلکہ کم و بیش تیس برس پر مشتمل تھا۔ سب فلم کی طرح ذہن میں چل رہا تھا جس میں انٹرول اس وقت آیا جب کانفرنس کی میزبان میشیل نے میرا نام لے کر پوچھا کہ تمہارا کیا خیال ہے؟ میرا خیال تو سندھ ساگر میں بھٹک رہا تھا جس کا ایک عبادت گزار دہشت وحشت کی بھینٹ چڑھ گیا تھا۔
میں نے کہا میشیل میرا خیال رخصت ہونے کا ہے۔ میں نے ایک پرچی پر وجہ لکھی اور اجازت مانگی۔ میزبان مجھے دروازے تک چھوڑنے آئی اورتسلی دی، لیکن لفظ معنی کھو چکے تھے۔ صرف یادوں کے عکس باقی تھے ۔
ہائی سکول سے جب کالج پہنچا تو دوستیاں ہم مزاج ترقی پسندوں سے ہوئیں۔ ڈیرہ غازی خان کالج میں رجعتی تنظیمیں تھیں تو سہی لیکن زور بائیں بازو کی طلباء تنظیموں کا تھا۔میں ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن (ڈی ایس ایف) میں شامل ہوگیا جو کیمونسٹ پارٹی آف پاکستان کا طلباء محاذ تھا۔ ضیاء کا دور تھا، اگرچہ غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے مارشلائی جمہوریت متعارف کرائی جا چکی تھی۔
ضیاء امریکہ کا لاڈلہ تھا، کابل میں جہاد کے نام پر کمیونسٹ حکومت کے خاتمے کا ٹھیکہ لیے ہوئے تھا اور پاکستان میں بائیں بازو کے سیاسی کارکنوں کے لیے قہر تھا۔ کیمونسٹ پارٹی انڈر گراونڈ تھی اور کارکن ایک دوسرے کا ذکر اصلی ناموں کی بجائے دوسرے ناموں سے کرتے تھے، جو اکثر روس کے انقلابی ادب سے اخذ کیے گئے ہوتے تھے۔
ان میں ایک ’پاویل‘ کا نام بھی آتا تھا۔ میں ابھی ساتھیوں کے اعتماد کی منزلیں طے کر رہا تھا اس لیے مجھے نہیں پتہ تھا کہ پاویل کون ہے۔ ہاں یہ سننے کو ملتا تھا کہ وہ تعلیم مکمل کر کے آئے گا تو ڈیرہ میں پارٹی کو مضبوط کرے گا۔ اس کی سیاسی کامیابیوں کا ذکر بھی رشک انگیز انداز میں ہوتا۔ میرا تجسس بڑھتا رہا لیکن پارٹی نظم و ضبط کی وجہ سے تفتیش سے باز رہا۔
میکسم گورکی کا ناول ’ماں‘ میں پڑھ چکا تھا جس کا ہیرو پاویل تھا، جو مزدورں کو منظم کرتا ہے، ان کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتا ہے، ممنوعہ انقلابی کتابیں پڑھتا ہے، جلسے جلوس نکالتا ہے اور اس سارے عمل میں اپنی ان پڑھ ماں کوبھی سیاست پر لگا دیتا ہے۔
ابھی میں کمیونسٹ سیاست کے اسرار ورموز سمجھ ہی رہا تھا کہ پارٹی ایک بار پھر تقسیم کے مرحلے میں داخل ہوگئی۔دودھڑے بن گئے، ایک کا اصرار تھا کہ انقلاب طبقاتی جدوجہد سے آئے گا جبکہ دوسرے کا کہنا تھا کہ نہیں پاکستان ایک کثیرالاقومی ملک ہے اس لیے یہاں انقلاب قومی جمہوری جدوجہد سے آئے گا۔
مدر پارٹی میں دھڑوں کی یہ سیاست طلباء محاذ پر بھی اثر انداز ہوئی اور ڈی ایس ایف دو ہوگئیں۔ ایک کی قیادت امداد چانڈیو اور دوسری کی علی حسن چانڈیو کے پاس چلی گئی۔ اسی نظریاتی مار دھاڑ میں جب فریقین زیادہ سے زیادہ کارکنوں کی حمایت میں سرگرداں تھے تو مباحثوں میں ہم جیسے نوآموزوں پر کئی راز عیاں ہوئے جن میں ایک پاویل بھی تھا۔
پتہ چلا کہ پاویل اصل میں ظفر لنڈ ہے جو ڈی ایس ایف کا مرکزی پریس سیکرٹری ہے۔ ڈی ایس ایف میں آنے سے پہلے ظفر بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی مرکزی کمیٹی کا ممبر بھی رہ چکا تھا۔ ڈیرہ کے لفٹیوں کے لیے ظفر ایک رول ماڈل تھا، جس نے کراچی جیسے بڑے شہر میں اپنا لوہا منوا لیا تھا۔
کراچی یونیورسٹی سے انٹرنیشنل ریلیشنز میں ایم اے کر کے ظفر ڈیرہ آگیا۔ وہ اپنی دھرتی ماں کو سیاسی کرنا چاہتا تھا۔ ظفر سے اکثر ملاقاتیں رہنے لگیں۔ اس کے مزاج میں ایک درویشانہ ٹھہراؤ تھا۔ خودستائی، شیخی بازی اور مطالعہ کا بے جا رعب جھاڑنا اس میں تھا ہی نہیں۔ آسان زبان میں بات کرتا اور دوسرے کو بولنے کا پورا موقع دیتا۔ اگر اختلاف بھی کرتا تو سوال کے انداز میں اس طرح کہ دوسرے کو اپنے مؤقف کے پھیکے پن کا خوداحساس ہوجاتا۔
مجھے نہیں یاد پڑتا کہ ظفر نے کبھی کہیں ملازمت کے لیے درخواست دی ہو۔ وہ آزاد رہتے ہوئے سیاست کرنا چاہتا تھا۔ سیاست میں اس کامقصد حصول اقتدار نہیں بلکہ آگہی پھیلانا تھا، وہ کام جو وہ آخری دم تک کرتا رہا۔
ایک دفعہ ظفر کے پاس کچھ پیسے تھے تو اس نے پلاسٹک کے شاپنگ بیگ اور جوتے بنانے کا یونٹ لگانے کا اعلان کر دیا۔ ہم اسے مذاق سے کہتے کامریڈ تم بورژوا بننا چاہتے ہو۔
ظفر کی فیکٹری کاٹیج انڈسٹری تھی جو اس نے دوستوں کے لاکھ سمجھانے کے باوجود اپنی بستی شادن لنڈ میں لگائی۔ ’بورژوا‘ بنتے ہوئے بھی ظفر کے ذہن میں خیال مقامی لوگوں کو روزگار مہیا کرنا تھا۔ نہ ظفر کا مزاج کاروباری نہ اس کی لیبر ہنر مند، کامریڈ ظفر بورژوا تو کیا بنتا بے چارہ اپنی جمع پونجی سے بھی ہاتھ صاف کر بیٹھا۔ لیکن اس کے ماتھے پر ایک شکن نہ آئی، الٹا وہ ہنس ہنس کر اپنی کاروباری بے سمجھیاں بتایا کرتا۔
میں نے اس دوران تعلیم مکمل کر کے ڈیرہ سے ’ڈان‘ کے لیے صحافت شروع کردی تھی۔ ایک دن اشرف بزدار کی سوزو آرٹ پریس پر بیٹھے ہوئے دوستوں نے ظفر کو بھی صحافی بننے کا مشورہ دے دیا، اور چند ہفتوں میں وہ انگریزی اخبار نیوز کے لیے کام کر رہا تھا۔
ظفر کو لوک کہانیاں سننے ، لکھنے اور انہیں ڈرامائی شکل دینے کا جنون تھا۔ کراچی میں اس نے اسلم اظہر سے تھیٹر کی تربیت بھی حاصل کی تھی جسے اس نے بعد میں بادل سرکار سے سٹریٹ تھیٹر کی تربیت لے کر دو آتشہ کر دیا تھا۔ نیوز کو ظفر نے جو پہلی تحریر بھیجی اس کا عنوان تھا ’ناگ فقیر ہےء‘۔ جس میں اس نے بتایا تھا کہ آج بھی سرائیکی دیہی علاقوں میں سانپ کے حوالے سے ہندو مائیتھالوجی اپنا اثر رکھتی ہے۔
کئی دن تک ظفر کی یہ تحریر اخبار کی زینت نہ بنی تووہ بہت حیران تھا کہ اتنا منفرد مضمون چھپنے سے قاصر ہے۔ میں نے اسے کہا کامریڈ اخبار کو جرم و سیاست کی خبریں چاہیں تمہارا مضمون ان کے سر کے اوپر سے گزر گیا ہوگا۔ ظفر کا کہنا تھا کہ تھانے کچہری جانے سے وہ باز ہے۔
خیر دو تین ہفتوں کے انتظار کے بعد اس کی تحریر چھپ گئی تو ظفر نے مسکراتے ہوئے اخبار میرے آگے پٹخا اور کہا ’تم تو کہتے تھے یہ چھپنے والی نہیں۔‘ خوشی اس کو بائی لائن کی نہیں تھی بلکہ اس بات کی تھی کہ اس نے اس دھرتی کے اس ماضی سے پردہ اٹھایا ہے جو آج بھی لوک قصوں میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے لیکن درسی کتب سے نکال دیا گیا ہے۔ ظفر کو صحافت بھی راس نہ آئی اور پھر اس نے بیٹ کے علاقے کے لوگوں کے حقوق کے لیے ایک تنظیم بنا لی۔
ظفر کو ایمان کی حد تک اس بات پر یقین تھا کہ عام دیہاتی آدمی پڑھے لکھے شہریوں کی نسبت کم رجعتی ثابت ہوتے ہیں۔ وہ شہروں سے بھاگتا تھا اور دیہاتوں اور ان کے باسیوں میں خوش رہتا تھا۔اسے تو ڈیرہ بھی شہر لگتا تھا، اسی لیے اس نے اپنی تنظیم ’ہیرک‘ کا ہیڈکوارٹر کوٹ ادو میں بنایا جو نیم شہر نیم دیہات ہے اور اس کے شادن لنڈ کے قریب بھی تھا۔
این جی اوز اور بھی بہت ہیں لیکن ظفر نے ہیرک کو علاقے میں ایک سماجی و سیاسی طاقت بنا دیا تھا۔ بے زمین ہاریوں، تونسہ بیراج کی ری ماڈلنگ سے نقل مکانی پر مجبور خاندان، تھرمل پاور سٹیشنوں سے بڑھتی مظفر گڑھ کی حدت سے متاثرہ عوام، تازہ پانیوں کے کچھوؤں اور انڈس ڈولفن وہ سب کے حقوق کے لیے میدان میں تھا۔
اس نے اپنی جدوجہد میں کئی میدان مارے بھی لیکن کامیابی کے دعوے کرنا اور اترانا اس کی سرشت میں نہیں تھا۔ میں کوئی آٹھ سال ملتان میں ڈان اور پھر بی بی سی کا بھی نامہ نگار رہا لیکن ظفر نے ایک دفعہ بھی نہیں کہا کہ یار ہماری یہ خبر لگا دو یا اس پر کوئی فیچر لکھ دو۔ ہاں جب بھی میں ماحولیات پر کوئی فیچر لکھتا تو وہ شاباش دینے والاپہلا دوست ہوتا۔
عام لوگوں کو منظم اور بااختیار کرنا اس کی زندگی اور سندھ کنارے گھنٹوں بیٹھ کر اس کی وسعتوں کو جذب کرناظفر کی عبادت تھی۔
گئے سال میں پاکستان گیا تو ہم ایک شام ملتان میں اکھٹے ہوئے، شام جو اگلی صبح تک جاری رہی۔ میں پانچ سال بعد پاکستان گیا تھا لیکن ظفر سے میری ملاقات کافی عرصے بعد ہو رہی تھی۔ ان خوابوں کا ذکر ہوا جنہیں تعبیر نہ ملی اور پھر کیسے ہم ایسے کاموں میں لگ گئے جہاں خواب دیکھنا جاری رہا، لوگوں سے جڑت برقرار رہی، چاہے انفرادی سطح پر ہی سہی۔
بچوں کا ذکر آیا تو وہ بڑا مطمئن تھا، بتایا کہ بڑا بیٹا سکالرشپ پر آسٹریا جا رہا ہے، دوسرے نے انجینئرنگ مکمل کر لی ہے، بیٹی مایئکرو بیالوجی پڑھ رہی ہے اور تیسرا بیٹا پرائمری میں ہے۔ میں نے کہا کامریڈ چوتھی واردات کب ہوئی، تو ہنس پڑا کہنے لگا بچے بڑے ہوگئے تھے ٹائم نہیں دیتے تھے، یہ جو شاہمیر ہے سب سے چھوٹا یہ میرے بڑھاپے کا دوست ہوگا۔
میں نے پوچھا یار یورپ آنا نہیں ہوا کبھی، این جی اوز کے لوگ جو بظاہر کچھ خاص نہیں کر رہے وہ بھی ابن بطوطہ اور مارکو پولو بنے ہوئے ہیں۔ ظفر کا جواب سادہ تھا، کہا یار میرا علاقہ چھوڑنے کو دل نہیں کرتا۔
جس دن نامعلوم افراد نے اپنے معلوم ہدف کو گرمیوں کی دوپہر کی نیند سے اٹھا کر نشانہ بنایا اس دن اپنی فیس بک پر اس نے جو پوسٹ شیئر کیے ان میں اخبار نیوز کی ایک خبر تھی ’پاکستان دہشتگردی روکنے میں ناکام‘، دوسری نیشن میں امریکی کانگریس کے حوالے سے ایک خبر تھی ’پاکستان کو دہشتگردی کو سپورٹ کرنے والی ریاست سمجھا جائے‘۔
ایک پوسٹ ’سٹیزن فار سیکولر ڈیموکریسی ‘ کی شیئر تھی جس میں سچا مسلمان کون کے دعوؤں کا احاطہ کیا گیا تھا۔ ہر فرقہ دوسرے فرقے کو کمتر مسلمان سمجھتا ہے، ماڈریٹ مسلمان شدت پسند مسلمانوں کو اصلی مسلمان نہیں مانتے اور شدت پسند اپنے علاوہ کسی کو سچا مسلمان نہیں مانتے۔ لیکن جب اسلام پر کوئی تنقید ہوتی ہے تو یہ سب اکٹھے ہوکر کہتے ہیں ’ایک ارب ساٹھ کروڑ مسلمانوں پر تنقید کرنے کی تمہاری جرات کیسے ہوئی؟‘
ظفر احمدی والدین کے ہاں پیدا ہوا لیکن اس کا مذہب سے تعلق بس حادثہ پیدائش والا ہی تھا۔ اس کی عبادت افتادگان خاک کی خدمت اور ان کو زبان دینا تھی۔ڈی ایس ایف کے ہمارے ایک ساتھی اور حال کے صحافی ناصر جمال نے ظفر کے قتل پر ٹویٹ کیا کہ جن لوگوں کے لیے ظفرکام کر رہا تھا ان کے لیے وہ ایدھی سے بھی بڑی حیثیت کا حامل تھا۔
ظفر نے اپنی عبادت میں آخری دم تک کوتائی نہ کی اور اپنے قاتلوں کو بھی وہ ضرورتمند سمجھ کر ملنے کے لیے کچی نیند سے اٹھ کر موت کی دہلیز پار کر گیا۔ دہشتگردی پر پاکستانی ریاست کی دوہری پالیسی کی نظر پتہ نہیں ابھی اور کتنے ظفر ہونگے۔
گورکی کا پاویل سیاسی جدوجہد کی پاداش میں سزا کے طور پر سائبیریابھیج دیا جاتا ہے جہاں سے واپس آنے کی امید تو تھی لیکن ہمارا پاویل دنیا سے ہی رخصت کر دیا گیا۔ ظفر تمہارے جیسے بیٹے ماؤں کا مان ہیں، وہ ماں ہو یا دھرتی ماں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر