میں کئی بار مدینے گیا ہوں۔ وہاں بہت سے سادات آباد ہیں۔ شاید ہجرت نبوی کے زمانے ہی سے مقیم ہیں۔ اہل تشیع ہیں اور بہت غریب۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ حکومت کا ان کے ساتھ رویہ متعصبانہ ہے۔
مجھے ایک مولانا صاحب ایک مقامی سید سے ملوانے لے گئے جن کے گھر میں کچھ تبرکات تھے۔ وہ عام لوگوں پر بھروسا نہیں کرتے لیکن ان مولانا کی وجہ سے مجھے بھی زیارت کروائی۔ کچھ تلواریں تھیں جو ان کے بقول آئمہ کی تھیں۔ شاید لباس تھے۔ اور ایک قدیم زمانے کی چکی۔ مولانا نے کہا کہ یہ بی بی فاطمہ کی چکی ہے۔ ذاکرین مجلسوں میں پڑھتے ہیں کہ بی بی فاطمہ نے خود چکی پیس پیس کر حسنین کو پالا تھا۔
میں نے باہر نکل کر اپنی عادت کے مطابق مولانا صاحب سے کہا کہ مجھے اس بات میں شک ہے کہ یہ چکی تیرہ چودہ صدیاں بعد بھی محفوظ ہے۔ مولانا صاحب نے بہت اہم جواب دیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا مذہب نسبت پر قائم ہے۔ جلوس میں جو گھوڑا لایا جاتا ہے، وہ امام حسین کی نسبت سے ذوالجناح بن جاتا ہے۔ جو جھنڈا لایا جاتا ہے، وہ حضرت عباس کی نسبت سے مقدس علم بن جاتا ہے۔ اس چکی کے ساتھ بی بی کا نام آگیا ہے۔ اگر یہ اصلی نہیں ہے تب بھی اپنی نسبت سے ہمارے لیے اتنی ہی محترم و مقدس ہے جتنی اصلی چکی ہوتی۔
میں اپنی معلومات کا اظہار اس لیے نہیں کرتا کہ یہ میرا عقیدہ ہے۔ نہ کسی کو برتر یا کمتر دکھانا چاہتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ مختلف فرقوں، نسلوں، زبانوں، قوموں سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں بہت فاصلہ ہے۔ اس فاصلے کی وجہ معلومات کی کمی ہے۔ جب ہم کسی کو جاننے لگتے ہیں تو ہمارا خوف اور نفرت کم ہوجاتی ہے۔
یہ میں عام لوگوں کی بات کررہا ہوں۔ کچھ لوگوں کی خصلت میں نفرت کے جراثیم ہوتے ہیں۔ ان کا کچھ نہیں کیا جاسکتا۔
میرا تعلق شیعہ خاندان سے ہے اس لیے مجھے اہل تشیع کے بارے میں زیادہ معلومات ہیں۔ میں دیوبندیوں، بریلیوں یا ہندوؤں اور مسیحیوں کے بارے میں اس طرح نہیں بتاسکتا۔
اہل تشیع نسبت مانتے ہیں۔ معجزات کو بہت زیادہ مانتے ہیں۔ جو لوگ شیعہ نہیں، وہ حیران ہوتے ہیں کہ یہ بھلا کیا بات ہوئی۔ دوسری جانب اہل تشیع غیروں کے عقائد پر حیران ہوتے ہیں کہ یہ لوگ آںکھوں دیکھی حقیقت نہیں مانتے۔
میں کسی کو نشانہ نہیں بنانا چاہتا لیکن بقرعید آرہی ہے تو ایک معمولی سی مثال پیش کردیتا ہوں۔ بہت سے لوگ خصی بکرے کی قربانی کرتے ہیں۔ اہل تشیع اعتراض کرتے ہیں کہ جب جانور میں عیب آگیا تو اس کی قربانی کیسے جائز ہوگئی۔ لیکن جو لوگ خصی بکرے کی قربانی کرتے ہیں، انھیں کوئی پریشانی نہیں۔ ان کے خیال میں بکرے کا پیشاب پینا زیادہ بڑا عیب ہے۔
دنیا میں کروڑوں اہل تشیع ہیں اور انھیں اپنے شیعہ ہونے پر فخر ہے۔ ایک ارب سنی ہیں اور وہ خود کو سب سے برتر سمجھتے ہیں۔ اربوں مسیحی ہیں اور انھیں مسلمانوں کا انجیل میں تحریف ہوجانے یا ایک سے زیادہ انجیلیں ہونے کا اعتراض پریشان نہیں کرتا۔ وہ سب خوش اور اپنے مذہب پر عامل ہیں۔
میں الہیات اور دینیات کی کتابوں کا مطالعہ کرتا ہوں اور سوچتا ہوں تو خود کو عاجز پاتا ہوں۔ یہ عاجز ہونا مجھ میں عاجزی پیدا کرتا ہے۔ انکساری نہیں، عاجزی یعنی میں خود کو درست نہیں سمجھتا۔
تشکیک عاجزی کا دوسرا نام ہے۔ یعنی میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا۔ الحاد ایک نتیجہ ہے۔ ابھی میں اس نتیجے پر نہیں پہنچا۔ مذہب بھی ایک نتیجہ ہے۔ یہ الحاد سے اس لیے مختلف ہے کہ اکثر اوقات یہ گھر سے قدم باہر نکالے بغیر مل جاتا ہے۔ مجھے بھی مل گیا تھا لیکن میں اسے گھر میں چھوڑ کر باہر نکل آیا۔
ممکن ہے کہ اب مجھے کبھی گھر کا راستہ نہ ملے۔ ممکن ہے کہ میں گھر کے بجائے کسی اور منزل پر پہنچ جاؤں۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ میں ہمیشہ بھٹکتا رہوں۔ لیکن اس بھٹکنے میں ایک تسکین ہے۔ یہ تسکین مجھے مذہب ہی نے فراہم کی ہے کہ علم کی تلاش میں نکلنے والا اگر راستے میں مرجائے تو شہید ہے۔ مجھے شہادت وغیرہ سے دلچسپی نہیں لیکن یہ قول گھر سے نکلنے کی ترغیب دیتا ہے۔
نوے کی دہائی میں ایک سال تھا کہ کراچی میں محرم کے دوران بہت معجزے ہوئے۔ مجھے سال بھی یاد ہے کہ 1989 تھا۔ ہم کرائے کے مکانوں میں رہے ہیں اس لیے مجھے یاد آجاتا ہے کہ کس واقعے کے موقع پر ہم کون سے مکان میں رہتے تھے۔ اسی سے سنہ یاد آجاتا ہے۔
اس سال جہاں معجزے کی خبر ملتی تھی، میں تنہا یا دوستوں کے ساتھ پہنچ جاتا تھا۔ کہیں علم کے پنجے پر خون ہوتا تھا۔ کہیں سیاہ چادر پر شبیہہ نمودار ہوجاتی تھی۔ کہیں جھولا خود بخود ہلنے لگتا تھا۔
سچ یہ ہے کہ میرے سامنے کوئی معجزہ نہیں ہوا۔ میں کسی کو جھٹلانا نہیں چاہتا کیونکہ سب کے اپنے اعتقادات ہوتے ہیں۔ جو لوگ شیعوں کے معجزے جھٹلاتے ہیں، وہ بھی چاند کے دو ٹکڑے ہوجانا تسلیم کرتے ہیں۔ کسی مسیحی کے سامنے یہ معجزہ بیان کرکے دیکھیں۔
میں عمومی طور پر معجزات کو نہیں مانتا۔ فقط ایک ناقابل فہم واقعے کا مشاہدہ کیا ہے جو میں بیان کرچکا ہوں کہ عاشور کے دن تسبیح سرخ ہوجاتی ہے۔ مشاہدے کا کوئی نعم البدل نہیں۔ میں کسی کو اس واقعے کو تسلیم کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا۔ جو خود مشاہدہ کرے گا، صرف وہی مانے گا۔
میں خود شیعہ بن کر معجزے کو نہیں مانتا، صحافی بن کر مشاہدے کو مانتا ہوں۔
تسبیح کی بات پر یا کسی اور شیعہ روایت کو بیان کرنے پر اکثر مجھے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مجھے دوست اسکرین شاٹ بھیجتے ہیں تو میں تبصرے پڑھ کر ہنستا رہتا ہوں۔ بعض اوقات میری فرینڈ لسٹ میں موجود لوگ وہاں عجیب و غریب تبصرے کرتے ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ انسان اندر سے کتنا منافق ہوتا ہے۔
شکر ہے کہ میں جیسا اندر ہوں، ویسا باہر ہوں۔ تشکیک ہے یا الجھن، مشاہدہ ہے یا آںکھ کا دھوکا، جو بھی دل میں ہے، وہی زبان پر اور قلم کی نوک پر ہے۔
کل میں نے فروغ نسیم پر بھبتی کسی کہ دوسرے سیاستدان وزارت سے شادی کرتے ہیں، فروغ نسیم متعہ کرتا ہے۔ شیعہ دوست متعہ کا ذکر آنے پر خفا ہوگئے اور ایک دو نے ان بکس اس کی حمایت کی۔ دشمنوں نے اسکرین شاٹ لگاکر کہا کہ میں متعہ کو فروغ دے رہا ہوں۔
ناصبیوں کی عادت ہے کہ متعہ کا ذکر کرکے بار بار شیعوں کو گالیاں دیتے ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ جس طرح رسول پاک نے غلامی پر پابندی نہیں لگائی، متعہ پر بھی اپنے وصال تک پابندی نہیں لگائی۔ اور اگر ناصبی حضرات رافضیوں کی وہ روایت سن لیں، جو وہ متعہ پر پابندی کے ضمن میں بیان کرتے ہیں، تو زندگی بھر یہ لفظ نہ بولیں۔
میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ تمام فرقوں کے علما کو جدید دور کے تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر اجتہاد کرنا چاہیے اور جس طرح غلامی پر پابندی لگ گئی ہے، متعہ، مسیار اور جہاد بالنکاح پر بھی پابندی عائد کرنی چاہیے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر