نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیوں نہ این ڈی ایم اے کو ختم کردیا جائے؟چیف جسٹس پاکستان

چیف جسٹس نے کہا کہ کراچی میں اتنا کیش (نقد) کوئی کیسے دے سکتا ہے، ‏لگتا ہے ہمارے ساتھ کسی نے بہت ہوشیاری اور چالاکی کی ہے۔

سپریم کورٹ میں کورونا وائرس از خود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے مختلف معاملات پر اداروں کی کارکردگی پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے اور ریمارکس دیے ہیں لگتا ہے این ڈی ایم اے کو ہی ختم کرنا پڑے گا۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا ہے کہ ملک کے اداروں کو شفاف انداز میں چلنا چاہیے، کسی کو ایک روپے کا فائدہ نہیں پہنچنے دیں گے، مزید یہ کہ جعلی ادویات بیچنے والوں کو سزائے موت ہونی چاہیے۔

عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کورونا وائرس از خود نوٹس کی سماعت کی، اس موقع پر چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی ہدایت بھی کی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے ابھی تک اہم دستاویزات جمع نہیں کرائیں، ‏الحفیظ کمپنی کی مشینری کو درآمد کرنے کی اجازت دینے کی دستاویز کہاں ہے، 3 بار حکم دینے کے باوجود دستاویز کیوں نہیں دیں۔

اسی دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ جہاز چارٹرڈ کرنے اور اس کی ادائیگیوں کی تفصیلات کہاں ہیں۔

عدالتی استفسار پر ڈائریکٹر ایڈمن این ڈی ایم اے نے کہا کہ الحفیظ کمپنی کی مشینری این ڈی ایم اے نے درآمد نہیں کی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی تک الحفیظ کمپنی کا مالک تک سامنے نہیں آسکا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اصل مسئلہ کسٹم اور دیگر قوانین پر عمل نہ ہوانا ہے، ساتھ ہی وہ بولے کہ ‏کیا عدالت چیئرمین این ڈی ایم اے کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرے، کیا عدالت وزیراعظم کو سفارش کردے کہ این ڈی ایم اے کے محکمے کو ہی ختم کردیں۔

عدالت کی برہمی پر سماعت کے دوران دستاویز پیش کی گئیں، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن بولے کہ دستاویزات کے مطابق مشینری کی قیمت ظاہر نہیں کی گئی۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چارٹرڈ کے لیے ایک کروڑ 7 لاکھ سے زائد نقد رقم ادا کی گئی، چارٹر معاہدے کے مطابق ادائیگی کیسے کر سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کراچی میں اتنا کیش (نقد) کوئی کیسے دے سکتا ہے، ‏لگتا ہے ہمارے ساتھ کسی نے بہت ہوشیاری اور چالاکی کی ہے۔

اس دوران چیف جسٹس نے یہ پوچھا کہ ویکسین اور ادویات کی درآمدات کی دستاویز کہاں ہیں، جس پر اٹارنی جنرل برائے پاکستان خالد جاوید نے کہا کہ متعلقہ حکام کو عدالت کو مطمئن کرنا ہوگا۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل کیا تماشہ چل رہا ہے، لگتا ہے این ڈی ایم اے کو ہی ختم کرنا پڑے گا، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین این ڈی ایم اے وضاحت کرنے میں ناکام رہے ہیں، شاید بہت کچھ غلط ہوا ہے جس پر پردہ ڈالنے کی کو شش کی جار ہی ہے، کیوں نہ چیئرمین این ڈی ایم اے کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کردیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی کو ایک روپے کا فائدہ نہیں پہنچنے دیں گے، ‏ملک کے اداروں کو شفاف انداز میں چلنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ نقد ادائیگی اس کمپنی کو کی گئی جس کا کوئی واسطہ ہی نہیں تھا، لگتا ہے چین میں پاکستانی سفارتخانے نے چین کو نقد ادائیگی کی ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن کے یہ ریمارکس سامنے آئے کہ این ڈی ایم اے کو فری ہینڈ اور بھاری فنڈز دیے گئے تاکہ کورونا سے لڑا جاسکے، این ڈی ایم اے عدالت اور عوام کو جوابدہ ہے۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ صرف زبانی نہیں، دستاویز سے شفافیت دکھانا پڑے گی۔

دوران سماعت این ڈی ایم اے کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب پر اٹارنی جنرل نے اسے واپس لینے کی استدعا کی اور کہا کہ دستاویزات سمیت جامع جواب جمع کرائیں گے۔

بعد ازاں عدالت نے این ڈی ایم کا جواب رکن ایڈمن کو واپس دیتے ہوئے جامع جواب طلب کرلیا۔ ساتھ ہی عدالت نے سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن پاکستان (ایس ای سی پی) سے الحفیظ کمپنی کی تمام تفصیلات طلب کرلیں۔

جعلی ادویات بیچنے والوں کو سزائے موت ہونی چاہیے، چیف جسٹس
عدالت میں سماعت کے دوران ادویات کا معاملہ آیا تو چیف جسٹس نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان (ڈریپ) سے متعلق کہا کہ اس نے نان رجسٹرڈ ادویات کی درآمدات کی اجازت کیسے دی،جس پر چیئرمین ڈرپ بولے کہ ہنگامی صورتحال میں ادویات اور مشینری درآمد کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کس ہسپتال نے مشینری اور ادویات مانگی تھیں، بھارت سے آنے والی ادویات کونسی تھیں، جس پر انہیں جواب دیا گیا کہ بھارت سے آنے والی ادویات کی درآمدات پر پابندی لگی تھی، تاہم وہاں سے خام مال دوبارہ آرہا ہے، جس پر چیف جسٹس بولے کہ بھارت سے آنے والی ادویات غیرقانونی تھیں اور اس کی حیثیت کیا تھی؟

عدالتی استفسار پر اٹارنی جنرل نے یہ اعتراف کیا کہ کابینہ نے چند ادویات کی اجازت دی تھی لیکن وہاں سے درآمدات بہت زیادہ ہوئیں، شہزاد اکبر نے رپورٹ جمع کرائی کہ اجازت کا غلط استعمال کیا گیا۔

اس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈریپ کی ملی بھگت کے بغیر کوئی بھی دوا نہیں آسکتی، ڈریپ کی ناک کے نیچے جعلی ادویات مل رہی ہیں، ‏جعلی ادویات بیچنے والوں کو سزائے موت ہونی چاہیے۔

سماعت کے دوران حکومت پنجاب کی جانب سے گاڑیوں کے معاملے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عطیات دہندہ ایجنسیاں امداد کے لیے رقم دیتی ہیں اور ہمارے افسران اس رقم سے مہنگی گاڑیاں خریدتے ہیں، جس کے ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے حکومت پنجاب کے پاس موجود تمام گاڑیوں کی تفصیلات طلب کرلیں۔

پوری دنیا میں جعلی لائسنسز کا اسکینڈل ہمارا مشہور ہوا، چیف جسٹس
عدالت میں ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران جعلی لائنسنز کا معاملہ بھی زیر غور آیا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پوری دنیا میں جعلی لائسنسز کا اسکینڈل ہمارا مشہور ہوا، پاکستان کے بہت سے اور اسکینڈل پہلے سے مشھور تھے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا سول ایوی ایشن اتھارٹی کے کسی افسر کے خلاف کارروائی ہوئی، عملی کام کیا تو جواب دیں، تقریر نہیں سنیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ‏پاکستان میں تمام برائیاں ایئرپورٹ سے آتی ہیں، لگتا ہے یہ آج آپ پر انکشاف ہو رہا ہے، جس جے جواب میں ڈی جی سول ایوی ایشن نے کہا کہ سول ایوی ایشن میں اصلاحات لا رہے ہیں، اس پر چیف جسٹس بولے کہ ہمیں کہیں بھی اصلاحات نظر نہیں آرہی ہیں۔

چیف جسٹس نے ڈی جی سے مکالمہ کیا کہ آپ اس عہدے کے اہل نہیں ہیں، ‏سی اے اے چلانا آپ کے بس کی بات نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا پائلٹس کو لائسنس دینے کے وقت سی اے اے کے تمام کمپیوٹر بند ہوگئے۔

پی آئی اے جعلی پائلٹس سے ملی ہوئی ہے، عدالت
اظہار برہمی کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی آئی اے جعلی پائلٹس سے ملی ہوئی ہے، ‏سول ایوی ایشن کے کمپیوٹر محفوظ نہیں، سول ایوی ایشن اتھارٹی میں ہونے والا کوئی کام محفوظ نہیں رہا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے لیے شرم کا مقام ہے کہ پائلٹس کے لائسنس جعلی نکلے، سی اے اے نے عوام کی زندگیاں داؤ پر لگا دی ہیں لیکن ‏سی اے اے نے کسی افسر کے خلاف کاروائی نہیں کی، بھیانک جرم کرنے اور کرانے والے آرام سے تنخواہیں لے رہے ہیں۔

اس موقع پر عدالت میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے سربراہ ارشد محمود ملک پیش ہوئے اور بتایا کہ جعلی ڈگری والے 750 ملازمین کو نکالا ہے جبکہ بھرتیوں میں ملوث افراد کو بھی نکالا گیا ہے۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ لوگوں نے پی آئی اے پر سفر کرنا چھوڑ دیا ہے، اس پر ارشد ملک بولے کہ پی آئی اے میں 141 جعلی لائسنس والے پائلٹس نکلے، جعلی ڈگریوں پر 15 پائلٹس کو برطرف کردیا گیا، جس پر چیف جسٹ نے پوچھا کہ کیا آپ کو پائلٹس برطرف کرنے کا اختیار ہے، اس کے جواب میں سی ای او پی آئی اے بولے میں صرف پائلٹس کو معطل کرسکتا ہوں، برطرف سول ایوی ایشن کرتا ہے، بدقسمتی سے قانون نے میرے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں۔

ان کی بات پر جسٹس اعجاز الاحسن نے پائلٹس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے کو 450 پائلٹس کی ضرورت ہی کیوں ہے۔

اس پر ارشد ملک بولے کہ پی آئی اے کا 50 فیصد عملہ نکال رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ مسئلے کا حل نہیں کہ 500 ملازم نکال کر اتنے ہی بھرتی کر لیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایک وقت تھا ہالی وڈ اداکار پی آئی اے میں سفر کرنا اعزاز سمجھتے تھے، آج حالت دیکھیں پی آئی اے کی کہ کہاں کھڑی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم پی آئی اے میں بھرتیوں پر پابندی عائد کریں گے۔

ساتھ ہی چیف جسٹس بولے کہ ‏پی آئی اے کا کوئی اثاثہ بھی فروخت نہیں کر سکیں گے، انہی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ روزویلٹ ہوٹل سمیت پی آئی اے کا کوئی اثاثہ عدالت کی اجازت کے بغیر فروخت نہیں ہوسکتا۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے کہا کہ ‏گلشن جناح میں پی آئی اے پلاٹ پر آج بھی شادی ہال بنا ہوا ہے، یہ شادی ہال نہ گرانے پر توہین عدالت کی کارروائی کریں گے۔

سماعت کے دوران جعلی پائلٹس کے معاملے پر ایم ڈی پی آئی اے نے بتایا کہ ‎ ‏سندھ ہائی کورٹ نے 5 جعلی پائلٹس کو حکم امتناع پر بحال کیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہائی کورٹ کا حکم امتناع چیلنج کیوں نہیں کیا؟

اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ مروجہ طریقہ کار کے مطابق کارروائی تیز کریں۔

اسی دوران ہی پالپا کے وکیل مخدوم علی خان جب عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے پوچھا کہ ‏کیا آپ جعلی پائلٹس کی وکالت کر رہے ہیں؟ جس پر انہیں جواب دیا گیا کہ کسی جعلی پائلٹ سے کوئی ہمدردی نہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پائلٹس کا فیصلے متعلقہ ادارے کرینگے، ساتھ ہی انہوں نے پالپا کی فریق بننے کی درخواست خارج کر دی۔

جعلی لائسنس جاری کرنے والے افسران کیخلاف فوجداری مقدمات کا حکم
بعد ازاں عدالت نے جعلی لائسنس رکھنے والے پائلٹس کے خلاف کارروائی فوری مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے جعلی لائسنس جاری کرنے والے افسران کے خلاف فوجداری مقدمات درج کرانے کا حکم بھی دے دیا۔

عدالت نے سول ایوی ایشن اور پی آئی اے کی رپورٹس پر عدم اطمینان کرتے ہوئے 2 ہفتے میں کارروائی پر مبنی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

خیال رہے کہ پائلٹس کے مشکوک یا جعلی لائسنسز کے معاملے کا آغاز 24 جون کو اس وقت ہوا تھا جب قومی اسمبلی میں کراچی مسافر طیارہ حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کہا تھا کہ 860 پائلٹس میں سے 262 ایسے پائے گئے جن کی جگہ کسی اور نے امتحان دیا تھا۔

جس کے بعد پاکستان نے 26 جون کو امتحان میں مبینہ طور پر جعل سازی پر پائلٹس کے لائسنسز کو ‘مشکوک’ قرار دیتے ہوئے انہیں گراؤنڈ کردیا تھا۔

کورونا صورتحال از خود نوٹس
خیال رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے 10 اپریل کو ملک میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے حکومتی اقدامات پر ازخود نوٹس لیا تھا۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے کورونا وائرس سے متعلق ازخود نوٹس پر 13 اپریل کو پہلی سماعت کی تھی۔

واضح رہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافے کے بعد اب کمی دیکھنے میں آرہی ہے اور ملک میں مجموعی کیسز 2 لاکھ 66 ہزار سے تجاوز کرگئے ہیں جبکہ 5600 سے زائد اموات ہوچکی ہیں تاہم ان کیسز میں سے 2 لاکھ 8 ہزار سے زائد صحتیاب بھی ہوئے ہیں۔

About The Author