محنت کرنے کے عادی کو محض ثمرات سمیٹنے ہی پر خوشی نہیں ہوتی وہ محنت کے لمحات سے بھی لطف اندوز ہوتا ہے. بات ہے سنہ 2017 کی جب راجہ پرویز اشرف پنجاب کی تنظیم سازی کے دورہ پر تھے۔ ان کی ہم قدم ٹیم بھی ان کی رفاقت کے سبب پراعتماد تھی۔ جب پوچھا گیا کہ صاحب پنجاب میں مایوسی کا سامنا کس ضلع میں ہوا تو جواب ملا کہ میانوالی اور بھکر کے اضلاع میں چیلنجز ہیں تاہم مایوسی کہیں بھی دامن گیر نہیں۔
راقم سوال اٹھاتا ہے، صاحب آپ پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں، کردار کشی کا میدان جو گرم ہے سو ہے مگر عدالتیں آپ کے ساتھ کیا سلوک کریں گی؟ جواب ملتا ہے، میری کردار کشی ہی نہیں کر رہے دراصل سیاستدان میری خدمت اور سیاست کو گزند پہنچانے اور اپنی سیاسی دکانداری چمکانے کے درپے ہیں۔ رہی بات عدالتوں کی، تو مجھے انصاف ملے گا اور اقدامات کو سراہا جائے گا۔
جب یہ سب باتیں زیر بحث تھیں اس وقت صاحب کے گرد دھندلاہٹ تھی، کہیں سے بھی چہرہ صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا، میڈیا کی بازگشت اور مخالفین کے شورشرابا کی اس قدر گونج تھی کہ، صاحب کی بات کانوں تک پہنچنے کے بجائے بیچ ہی میں کہیں گم ہوجاتی مگر ایک بات یاد ہے کہ ” میں مسائل کا نہیں چیلنجز کا شکار ہوں، اور سیاست دان ہوتا ہی چیلنجز کا سامنے کرنے کیلئے ہے، چیلنجز ہی سیاست دان کو قد کاٹھ دیتے ہیں.” یہ تھے راجہ صاحب!
جہاں آئین پاور فل ہوگا وہاں قانون کی پاور انتہائی مفید ہوگی، جہاں پارلیمنٹ پاور فل ہوگی وہاں جمہوری حکومت کی پاور قابل رشک ہوگی اور ایسے باغ و بہار میں کردار کا پھل بھی شیریں ہی سامنے آئے گا بصورت دیگر محرم اور مجرم میں ایک نکتہ لگانا اور ہٹانا ہی قانون کی تشریح بن جائے گا، اور تاریخ ہاتھ ملتی رہ جائے گی۔ تابناک تاریخ سچائی اور اچھائی کی تحریک کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔
دھیان آج اس طرف ہے کہ سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو سزا کس چیز کی ملتی رہی؟ تمسخر اڑانے کی حد کیوں اور کس لئے پار ہوئی؟ جمہوریت کو داغدار کیا جارہا تھا یا جمہوری کاوشوں کو؟ نشانہ پاکستان پیپلزپارٹی تھی یا ایک خدمت کی جدوجہد۔ ان سوالوں کے جواب ابھی باقی ہیں، اور کچھ راجہ پرویز اشرف کو مل بھی گئے۔ ساہیوال ریفرنس سے بری ہونا ہو یا پیراں غائب ریفرنس سے، ملازمتیں دینے یا گوجر خان ترقیاتی پراجیکٹس جیسے دیگر کیس ہوں، اگر یہ سب کیس اور نیب ریفرنس سیاسی بنیاد پر بنے یا پارٹی اور شخصی ساکھ کی خرابی کیلئے بنائے گئے، تو اصل جواب دہ پھر سیاست ہوئی یا سیاست دان؟
نیب سابق وزیر اعظم اور سابق وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف کی بریت کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں جائے یا نہ جائے، یہ معاملہ اور مسئلہ زیر بحث نہیں۔ سوال یہ ہے کہ خواجہ آصف نون لیگی رہنما اور پی پی پی میں واپس لوٹ آنے والے مخدوم فیصل صالح حیات جو 2010 تا 2018 تک راجہ صاحب پر شدید تنقید کرتے اور پگڑی اچھالتے رہے وہ اب اس حالیہ سیاست اور ریاست کے تناظر میں پشیمان ہیں یا شادمان؟ میاں برادران، احسن اقبال، سعد رفیق اور خواجہ آصف کو میثاق جمہوریت کی افادیت کا خیال آرہا ہے کہ نہیں؟ چوہدری نثار علی خان کی خاموشی اور کنارہ کشی کسی احساس اور درد کا باعث ہے کہ نہیں؟ اہل نظر کی نذر، لاکھ کوتاہیاں اور غلطیاں پیپلزپارٹی یا راجہ صاحب میں ہوں گی تاہم نون لیگ کے دور حکومت سے تین گنا عالمی منڈی میں مہنگے تیل کے باوجود 3 سے 4 روپے کا یونٹ دیا صرف کراچی انڈکشن میں تقریباً 8 روپے کا یونٹ دیا، یعنی تین گنا مہنگا تیل ہونے کے باوجود، چاہے سبسڈی ہی دی ہو گی، مگر عوام کو سہولت تو ملی لیکن نون لیگی دور حکومت میں تیل تقریباً 3 گنا سستا ہونے پر بھی یونٹ 15 روپے تک گیا تھا ! اہل نظر آج کے تناظر میں بجلی کا بھاؤ اور تیل کے عالمی منڈی میں نرخ نکل کر موازنہ کرلیں، اور ایک نظر اس پر کہ راجہ پرویز اشرف نے کس قدر جاندار ریلیف دیا تھا اور آج تحریک انصاف کی حکومت کا بجلی کا نرخ نامہ کیا کہتا ہے ؟
ایک دلچسپ بات یہ بھی کہ، وہ رینٹل پاور پراجیکٹس RPPs جس کے خلاف 2011ء میں پی پی پی حکومت میں خواجہ محمد آصف سر سے پاؤں تک خلاف تھے۔ انہوں نے نون لیگ حکومت میں بطور وزیر پانی و بجلی 10 جنوری 2015ءمیں تین RPPs کو نئے نام یعنی ری برانڈنگ کے ساتھ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (IPPs) کا نام دیا۔
یہ بھی یاد رہے کہ، رینٹل پاور پراجیکٹس پر جناب افتخار چودھری (سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ) نے 15 دسمبر 2011ء میں سوموٹو لیا۔ دو رکنی بنچ میں چیف جسٹس صاحب کے ساتھ جسٹس خلجی عارف حسین بھی تھے۔ واپڈا، نیپکو اور جینکوز (GENCOs)، فنانس منسٹری اور پانی و بجلی کو وزارت کو “کرپٹ” گردانا گیا۔ عدالت عظمیٰ کا اس وقت خیال تھا کہ بجلی بنانے کی پرانی مشینیں پروڈکشن کے لئے کافی ہیں اور خواہ مخواہ راہ جاتی کمپنیوں کو ٹھیکے دیئے گئے علاوہ ازیں 19 رینٹل پاور پراجیکٹس بروقت فنکشنل نہیں ہوئے۔ یہ سبھی باتیں ممکن ہے “درست” ہوں مگر پرانی گاڑی کبھی میٹر کے مطابق سپیڈ نہیں دیتی نہ پرانی مشین ۔ ریکارڈ سے ایک بات اور یادداشت کہ راہ جاتی کمپنیاں تھیں تو انہوں نے عدالتی حکم کے مطابق (سوائے ایک ترکش کمپنی) رقم کے پے آرڈر بروقت عدالت میں کیسے جمع کرا دیئے؟ جب کہا گیا کہ قوم کا نقصان ہوا ہے پس اصل رقم کے ساتھ مارک اپ بھی دیں، تو کمپنیوں نے بروقت مارک اپ بھی جمع کرا دیئے۔ پس ثابت کیا تھا کہ وہ راہ جاتی کمپنیاں نہ تھیں ۔
راجہ صاحب کیلئے بہرحال عشق کے امتحاں اور بھی ہیں، تسلی رکھئے اور فی الحال جو جتنی اور جب تک بریت ملی ہے وہ انجوائے کیجئے .تاریخ کے اوراق یہ بھی بتاتے ہیں کہ، سب سے سنگین الزام بھٹو پر لگے تاہم وہ وزیراعظم بنے، دو دفعہ بی بی وزیراعظم رہیں، بعدازاں زرداری صدر اور پھر پیپلزپارٹی وزیر اعظم رہی، عوام کا بھی ایک پیمانہ اور کسوٹی ہے گر موقع دیا جائے تو طاقت کا سرچشمہ بہرحال عوام ہی ہیں!
خیر، رب جانے اس راز الفت کو کہ راجہ کی مہنگے دور میں سستی بجلی پذیرائی پاسکی نہ حسن ظن، پھر بعد ازاں دوحکومتوں کے سستے ادوار کی مہنگی بجلی کی پسندیدگی کا راز کیا ہے؟ اور “سزا” بہرحال بھگت لی راجہ نے ! وہ سزا جو بنتی بھی نہ تھی، گر بنی تو محض اس لئے کہ راجہ ذوالفقار علی بھٹو کے نقش قدم پر انسان دوست تھا، اس لئے بھی بھگتی کہ اس کے حلقے میں بسنے والے دل میں بھی بستے تھے، شاید اس لئے بھی کہ نام نہاد فلاسفر اور بے اصول سیاست دان کی نظر بد اور حسد کھلنا تھا کہ، ایک کارکن وزیراعظم تک بن گیا۔ سزا راجہ نے نہیں ایک قابلِ قدر شہری کی حب الوطنی نے پائی، وفا اور محبت نے پائی …۔ شاید وہ ان کہی یا ناکردہ جرائم کی سزا کردار کشی کیلئے تھی یا پھر وہ سزا تھی ہی نہیں عشق کی جزا تھی..۔ کبھی موقع ملا تو پوچھیں گے ہم فرزندان سیالکوٹ اور جھنگ سے، آج ان میں سے کوئی راجہ کے نگر لوٹ چکا اور کوئی پشیمان اور راجہ نگر کا قدردان ٹھہرا۔ واہ ! واہ، واقعی جمہوریت بہترین انتقام ہے۔
سو جان سے ہو جاؤں گا راضی میں سزا پر
پہلے وہ مجھے اپنا گنہ گار تو کر لے
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر