کالم کے چند قارئین نے ای-پیغامات کے ذریعے یہ گلہ کیا ہے کہ میں نے ترکی کے صدر اردوان کی جانب سے استنبول میں تقریباََ پندرہ سو سال سے قائم ’’آیۂ صوفیہ‘‘ کی بابت لئے فیصلے کے بارے میں کچھ نہیں لکھا۔ اکثریت ان قارئین کی 30سال سے 40سال کے درمیان عمر والے افراد پر مشتمل تھی۔اس گروہ میں شامل افراد کی رائے کو میں بہت سنجیدگی سے لیتا ہوں۔وہ کئی حوالوں سے ہمارا مستقبل ہیں۔انکے ذہن میں اٹھے سوالوں کا جواب دینا ضروری ہے۔لازمی نہیں کہ وہ ان جوابات سے اتفاق بھی کریں۔سنجیدہ اور حساس موضوعات پر ٹھنڈے دل سے دلائل کے ساتھ مکالمے کے لئے مگر مناسب ماحول بھی درکار ہے۔دست بستہ عرض کرنے کو مجبور ہوں کہ فی الوقت ہمارے ہاں وہ ماحول موجود نہیں ہے۔
دانشوری بگھارنے کے بجائے لہٰذا ’’اپنے بچنے کی فکر کرجھٹ پٹ‘‘ والی فکر میں مبتلا رہتا ہوں۔کوئی مانے یا نہیں یہ حقیقت مگر اپنی جگہ مسلم ہے کہ اردوان کا اٹھایا قدم ہر اعتبار سے ’’تاریخی‘‘ ہے۔اس کا مثبت اور منفی ردعمل بہت شدت سے فقط ترکی ہی میں نہیں بلکہ بین الاقوامی سیاست میں بھی رونما ہوگا۔اس سے مفرممکن ہی نہیں۔اردوان کی جانب سے اٹھائے قدم پر اپنی رائے کے اظہار سے اجتناب برتتے ہوئے ایک وضاحت البتہ ضروری سمجھتا ہوں۔ ہمارے ہاں سوشل میڈیا کے شوروغوغا کی بدولت عمومی تاثر یہ پھیلا ہے کہ ’’آیۂ صوفیہ‘‘ ایک ’’عجائب گھر‘‘ میں تبدیل ہوچکا تھا۔وہاں خلافتِ عثمانیہ کے دوران قائم ہوئی مسجد میں نماز ادا نہیں ہوتی تھی۔’’مسجد‘‘ کا جو تصور ہمارے ذہنوں میں موجود ہے اس کے مطابق جائزہ لیں تو شاید اتاترک نے ’’آیۂ صوفیہ‘‘ کو واقعتا ایک عجائب گھر میں تبدیل کردیا تھا۔حقیقت مگر یہ ہے کہ اس عمارت میں موجود ’’مسجد‘‘ قائم ودائم رہی۔وہاں منبر بھی اپنی جگہ موجود ہے۔فرش پر دریوں کی صورت صفیں بھی برقرار ہیں۔1990کی دہائی میں تین بار اس عمارت میں گیا تھا۔پہلی بار ترک حکومت نے اپنے ہاں ہوئے انتخاب کے مشاہدے کی دعوت دی تھی۔ کراچی کے ایک اخبار کے بزرگ صحافی بھی میرے ہمراہ مدعو تھے۔ وہ ترک تاریخ کے بہت سنجیدہ طالب علم تھے۔ ان کے بزرگوں نے علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی تھی۔میرے ہمراہ وہ اس عمارت میں داخل ہوئے تو نماز ادا کی۔ میں نے ان کا ساتھ دیا۔وہاں موجود ’’مسجد‘‘ میں نماز لہٰذا پڑھی جاتی تھی۔ اس مسجد کا لیکن باقاعدہ ’’امام‘‘ تعینات نہیں ہوا تھا۔منبر سے خطبہ بھی نہیں پڑھاجاتا تھا۔ٹھوس حوالوں سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’’آیۂ صوفیہ‘‘ میں قائم مسجد میں پانچ وقت کی باقاعدہ نماز کا اہتمام موجود نہیں تھا۔اردوان نے اب وہ بندوبست قائم کردیا ہے۔اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ صدر اردوان نے ’’آیۂ صوفیہ‘‘ میں قائم ہوئی مسجد کو ’’بحال کردیا ہے۔یہ ’’بحالی‘‘ جدید ترکی کے بانی اتاترک کے ’’سیکولر‘‘ خیالات کو رد کرنے کی ایک ٹھوس سیاسی کاوش ہے۔ترکی کی شناخت اب بنیادی طور پر مذہب یعنی اسلام کے حوالے سے ہوگی۔ یہ خود کو ایک ’’مذہبی ملک‘‘ قرار دینے پر مدافعانہ طرز عمل اختیار نہیں کرے گا۔اپنے مذہبی اور ثقافتی ورثے کو بلکہ بہت فخر سے Ownکرے گا۔اتاترک کے متعارف کردہ نظام سے جدائی کا سفر ایک اہم ترین محلے میں داخل ہوگیا ہے۔طیب رجب اردوان کی سیاست میں اتاترک کے ورثے سے ’’بغاوت‘‘ ہمیشہ کلیدی کردار ادا کرتی رہی ہے۔استنبول کا میئر منتخب ہونے کے بعد اس نے مذکورہ بغاوت کا سفر شروع کیا۔اس بغاوت کو مؤثر بنانے کے لئے اس نے مگر نعرے بازی پر انحصار نہیں کیا۔ اپنی سیاست کے ابتدائی ایام میں بلکہ نہایت ہوشیاری اور بردباری کے ساتھ بتدریج اپنے ذہن میں طے شدہ اہداف کی جانب ثابت قدمی سے بڑھتا رہا۔
استنبول ہر حوالے سے ایک عظیم تر تاریخی شہر ہے۔ یہ بازنطینی ایمپائر کا مرکز رہا۔ ایشیاء کو یورپ سے ملاتا ہے۔اس حوالے سے ہمارے کراچی کی طرح ترکی کا معاشی مرکز بھی ہے۔ خلافتِ عثمانیہ کے دور سے اس شہر کی پہچان البتہ Elitistرہی۔یہاں کی اشرافیہ ’’کشادہ دلی‘‘ کے باعث ’’لبرل‘‘ شمار کی جاسکتی تھی۔ اسی باعث یہاں کے باسی فقط مسلمانوں پر ہی مشتمل نہیں تھے۔ مسیحی مذہب کے ایک خاص فرقے کے لوگ بھی اسے ’’اپنا شمار کرتے تھے۔یورپ کے ’’مہذب ترین‘‘ ممالک میں بھی جب یہودیوں کو اپنی پہچان چھپانا ہوتی تھی تو خلافت عثمانیہ ان کی بھرپور سرپرستی کرتی۔
اس شہر میں یونانی اور آرمینی نسل کے لوگ بھی کثیر تعداد میں آباد تھے۔خلافتِ عثمانیہ کے زوال کے بعد اس شہر کا ’’ثقافتی مزاج‘‘ بدلنا شروع ہوگیا۔مزاج کی اس تبدیلی کو ترکی کے مشہور ناول نگار اورحان پامک نے مسحور کن انداز میں اپنی ایک کتاب میں بیان کیا ہے جس کا عنوان ہی ’’استنبول‘‘ ہے۔اس شہر کی معاشی کشش کے باعث اناطولیہ کے پہاڑی علاقوں سے لاکھوں لوگ رزق کی تلاش میں یہاں آنا شروع ہوگئے۔اس کے نواحی علاقوں میں ’’کچی بستیاں‘‘آباد ہونا شروع ہوگئیں۔استنبول کی روایتی اشرافیہ اپنے شہر میں ’’وارد‘‘ ہوئے دیہاڑی دار ترکوں کو جاہل اور اجڈ قرار دیتی رہی۔
الزام یہ بھی لگا کہ ’’کچی بستیاں‘‘ غیر قانونی ہیں۔وہ جرائم کی آماجگاہ ہیں۔یہ رویہ تقریباََ ایسا ہی تھا جو امریکی سفید فام اپنے شہروں میں سیاہ فام غریبوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے بارے میں اپناتے رہے۔استنبول کا میئر منتخب ہونے کے بعد اردوان نے کچی بستیوں کو ’’قانونی‘‘ بنانا شروع کردیا۔ وہاں بسے افراد کو مالکانہ حقوق دئیے۔ان کے محلوں میں گلیوں کو پختہ کیا گیا۔
گندے پانی کی نکاسی کا باقاعدہ بندوبست ہوا۔جھونپڑیوں کو جدید مکانوں میں تبدیل کے رحجان کو فروغ دینے کے لئے بینکوں سے رعایتی قرضے فراہم ہوئے۔اس حوالے سے جائزہ لیں تو اردوان نے اناطولیہ کے دیہاتوں سے استنبول منتقل ہوئے غرباء کو معاشی اعتبار سے Upward Mobilityکے راستے پر ڈالا۔کچی بستیاں سماجی اعتبار سے Gentrifiedہوگئیں۔’’ککھ سے لکھ‘‘ہوئے ہزاورںگھرانے اردوان کو اپنی خوش حالی کا باعث ’’مائی باپ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ان کے رویے سیاسی اعتبارسے ’’قدامت پرست‘‘ہیں۔ وہ ترکی کی اسلامی شناخت ہی بحال نہیں کرنا چاہتے بلکہ اس ’’دور زرین‘‘ کے احیاء کے خواہاں بھی ہیں جب خلافتِ عثمانیہ ایک ایمپائر تصور ہوتی تھی۔
ایران کی سرحد سے شروع ہوکر آج کے تمام عرب ممالک سمیت یورپ کے کئی ملک بھی اسی سلطنت کے زیر نگین علاقے تھے۔ مغل بادشاہ اکبراعظم کے دور سے قبل برصغیر پر وسطی ایشیاء سے آئے مسلم سلاطین بھی خود کو سلطنت عثمانیہ کے مطیع وفرمانبردار تصور کرتے تھے۔وہاں بیٹھے خلیفہ سے اپنے اقتدار کے لئے ’’شفقت‘‘ کے خواہاں تھے۔اردوان کی Core Constituencyاس دور کا بھرپور احیاء چاہتی ہے۔اسی باعث اس کے خلاف ہوئی فوجی بغاوت ناکام ہوئی۔اس ناکامی کے بعد مگر اردوان نے خود کو ’’سلطان‘‘ میں بدلنا شروع کردیا۔ اپنے ملک کاوزیر اعظم ہونے کے بجائے اس نے بااختیار صدر بننے کو ترجیح دی۔
اس سفر کے دوران مگر ترکی کی معیشت میں وہ رونق برقرار نہ رہی جو رجب اردوان نے کئی برسوں سے جمارکھی تھی۔لوگوں میں یہ شک بھی شدت اختیار کرنا شروع ہو گیا کہ اردوان ان کی ’’خدمت‘‘ میں مصروف رہنے کے بجائے اب خود کو بادشاہ کی صورت دینے کی ضد میں مبتلا ہوگیا ہے۔اس شک کی بنیاد پر حال ہی میں ضلعی حکومتوں کے انتخاب ہوئے تو استنبول شہر کا میئر بھی حزب مخالف کی جماعت سے ابھرا۔ اردوان کے لئے اپنے سیاسی مرکز یعنی استنبول میں ہوئی اس شکست کو ہضم کرنا بہت مشکل تھا۔اس کی اپنی جماعت میں بھی ’’بغاوت‘‘ شروع ہوگئی۔ اپنی سیاسی بقاء کے لئے اردوان کے لئے اب واحد راستہ یہ بچا تھا کہ وہ بھرپور استقامت کے ساتھ خلافت عثمانیہ سے وابستہ رومان کو شدت سے اجاگر کرے۔ ’’آیۂ صوفیہ‘‘ کی بابت لیا فیصلہ اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
اس تناظر پر غور کرتے ہوئے آپ کو یہ حقیقت بھی نگاہ میں رکھنا ہوگی کہ تاریخی اعتبار سے خلافتِ عثمانیہ کے اہم ترین حریف اسلامی دنیا کے حوالے سے ایران کے صفوی حکمران رہے ہیں۔اس حوالے سے مسلکی اختلافات بھی شدید تر ہوتے رہے۔اردوان جب خلافتِ عثمانیہ سے وابستہ علامتوں کو بھرپور انداز میں ’’بحال‘‘ کرتا ہے تو ایران کو اپنا ’’شاندار ماضی‘‘ بھی یاد آنا شروع ہوجاتا ہے۔ شام میں ایران اور ترکی کے مابین چھڑی Proxyجنگ مذکورہ پس منظر کا واضح اظہار ہے۔خلافت عثمانیہ سے وابستگی کے تمام تر دعوئوں کے باوجود اردوان کا ترکی مگر آج بھی امریکہ کی قیادت میں بنائے فوجی اتحاد NATOکا اہم ترین رکن ہے۔ اس کی سرزمین پر امریکی ایٹمی ہتھیار بھی نصب ہیں۔ یہ ہتھیار سردجنگ کے دوران سوویت یونین کو اس کی ’’اوقات‘‘ میں رکھنے کے لئے نصب ہوئے تھے۔
امریکہ اب چین کے ساتھ سردجنگ کا آغاز کرچکا ہے۔اسی حوالے سے اسے سنکیانگ کے مسلمان بھی بہت یاد آنا شروع ہوگئے ہیں۔وہاں سے اُٹھی ’’تحریک‘‘ کے سرکردہ عناصر کی کثیر تعداد ترکی ہی میں پناہ گزین ہے۔ایران نے دریںاثناء چین کے ساتھ ایک طویل المدتی Strategic Allianceبنالیا ہے۔مستقبل کے نقشے بناتے ہوئے اس پہلو کو بھی نظرانداز نہ کیجئے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر