کورونا ٹیسٹ بند کردیں گے تو گراف نیچے آئے گا ہی لیکن اس نیچے آتے گراف کے باوجود ملک کے 30چھوٹے بڑے شہروں میں سمارٹ لاک ڈائون جاری ہے، ابھی کل لاہور کے سات علاقوں میں سمارٹ لاک ڈائون کا اعلان ہوا۔
گزشتہ روز63اموات ہوئیں 3313مریضوں کیساتھ متاثرین کی کل تعداد 2لاکھ 39ہزار 779 ہوگئی۔
بدقسمتی ہے کہ اس مسئلہ پر جس طور توجہ دینے کی ضرورت ہے نہیں دی گئی، کورونا پر سیاست ہوئی اور خوب ہوئی۔
وفاق کا رویہ سنگدلانہ رہا۔ خطرہ ابھی ٹلا نہیں’ جولائی کے مہینے کو اس حوالے سے خطرناک قرار دیا گیا تھا۔ خدا خیر کرے’
مگر کیا بنا احتیاط’ طبی اصولوں پر عمل اور حکمت عملی کو نظرانداز کرنے سے خیر ہوگی؟
ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں’ پچھلے کچھ عرصہ سے ملک میں شدت پسندی بڑھ رہی ہے۔
صورتحال کتنی تشویشناک ہے اس کا اندازہ وفاقی وزیر داخلہ کے اس بیان سے لگا لیجئے جس میں انہوں نے کہا
” مقدس ہستیوں کی توہین کرنے والوں کیخلاف سخت کارروائی ہوگی۔ تمام مذاہب اور مکاتب فکر کو آئین وقانون کے مطابق حقوق و تحفظ حاصل ہے”
کڑاوا سچ یہ ہے کہ آئین وقانون اب فقط کتابی باتیں ہیں، یہاں اگر ایک شخص اُٹھے اور منبر پر بیٹھ کر ججوں کو لٹکانے’ سیاستدانوں کو اسرائیل کاایجنٹ کہنے لگ جائے تو بجائے اس کے کہ اس طرزعمل کی مذمت ہو ایک طبقہ اس کی وکالت کیلئے کود پڑتا ہے۔
ہم سبھی اپنا اپنا مرغا بغل میں دابے گھوم رہے ہیں، ہر شخص کے پاس اپنے” بونے” کے حق میں دلائل ہیں ۔ مثلاً راولپنڈی میں عدلیہ کی توہین اور بعض سیاسی شخصیات پر گھناونے الزامات عائد کرنے والے مولوی صاحب کے حامی کہتے ہیں
”ہمارا مکتب فکر اور مولوی چونکہ کمزور ہیں اس لئے کارروائی ہوئی، مولوی خادم اور پیر افضل کو کچھ نہیں کہا گیا”
ایک حوالے سے یہ نادرست بات بھی درست ہے۔
اگر قا نون نے ماضی کے واقعات کے حوالے سے اپنا راستہ بنایا ہوتا، بداخلاقی’ توہین اور لاقانونیت پر گرفت ہوئی ہوتی تو پھر کسی میں حوصلہ نہ ہوتا۔
ماضی میں ایک پیر صاحب اپنی بد زبانی کی وجہ سے گرفت میں آئے تو امراض قلب کے ایسے مریض کے طور پر خود کو پیش کیا جو بس چند گھنٹوں کا مہمان ہے۔
اب جو تازہ تازہ مولوی صاحب گرفت میں آئے ہیں وہ بھی کہتے ہیں کہ “میں دل کا مریض ہوں بسا اوقات ادویات کے ری ایکشن سے غصہ آجاتا ہے۔ عدلیہ کیخلاف جو کہا اسی غصہ میں کہا’ مجھے معاف کردیا جائے”۔
ارے واہ! غصہ میں آپ نے کسی سودخور’ ذخیرہ اندوز’ بہنوں کو شرعی حق نہ دینے والوں’ سماجی واخلاقی روایات کی پامالی کے مرتکبین کو تو کبھی کچھ نہیں کہا۔
بہت ادب واحترام سے عرض ہے ہم شدت پسندی وہ کسی بھی قسم کی ہو اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
چالیس برس اور ہزارہا زندگیاں اس شدت پسندی کی بھینٹ چڑھا آئے ہم۔
آئین وقانون کی بالا دستی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ دستور کہتا ہے کہ شہریوں کے سیاسی’ سماجی’ معاشی اور مذہبی حقوق کا تحفظ ریاست وحکومت کی ذمہ داری ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جب یہ حقوق پامال ہو رہے ہوتے ہیں تو ریاست اور حکومت دونوں دکھائی نہیں دیتے۔
مطلب یہ ہے کہ قانون اور ضابطہ اخلاق آخر پورا سال آنکھیں کھول کر کیوں نہیں رکھتے؟
شدت پسندی کی حالیہ لہر اسلام آباد میں ہندو برادری کیلئے مندر کی تعمیر کے حوالے سے اُٹھی۔
ہندو برادری کو مندر کیلئے زمین جناب نواز شریف کے دور میں فراہم کی گئی۔ سی ڈی اے نے اس وقت زمین کی قیمت وصول کی، دلچسپ بات یہ ہے کہ مندر کی تعمیر کیخلاف سوشل میڈیا پر جو اہل ایمان متحرک ہوئے اس میں نون لیگ کے حامی پیش پیش تھے۔
کسر دوسروں نے بھی نہیں چھوڑی مگر لیگیوں نے اس مسئلہ کو لیکر وزیراعظم کی ذات پر حملے کئے۔ پنجابی زبان میں کہتے ہیں ”عقل نہ موت”۔ مندر کی تعمیر کیخلاف مہم میں ہندووں کی مقدس شخصیات کی تصاویر میں فوٹوشاپ کے ذریعے وزیراعظم عمران خان کا چہرہ لگا دیا گیا۔
کونسا مذہب اس طرح کی توہین کی اجازت دیتا ہے؟
یہاں وزارت داخلہ اور سائبر کرائم سیل سے سوال ہے’ ہندو برادری کے مذہبی جذبات کی توہین پر کونساقانون حرکت میں آیا’
کتنے لوگوں کیخلاف قانونی کارروائی ہوئی؟۔
پاکستان میں مسلمانوں کے علاوہ ہندو’ سکھ’ مسیحی’ پارسی بھی بستے ہیں ان سب کی مجموعی تعداد سات سے 10فیصد ہے’ دیگر مذہبی برادریوں میں سب سے بڑی آبادی ہندووں کی ہے 50سے 60لاکھ کے قریب۔
دوسرے نمبر پر مسیحی برادری ہے، یہ حکومت کو ٹیکس بھی دیتے ہیں، مساوی شہری ہیں ریاست پر ان کا بھی اتنا حق ہے جتنا دوسروں کا۔
کیا پاکستان کے قانون میں کہیں لکھا ہے’ یہ مسلم ٹیکس ہے اور یہ غیرمسلم ٹیکس؟
مسلم مکاتب فکر کے باہمی تعلقات کبھی خوش آئند نہیں رہے، سال کے بارہ مہینے فتووں کی چاندماری جاری رہتی ہے۔
تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ شدت پسندی بے لگام ہوچکی، بعض حلقے اگر شکایت کرتے ہیں کہ ہر دور کی حکومت نے ایک خاص طبقے کی مذہبی بالادستی کی لاٹھی بن کر دوسروں کو ہانکا تو یہ کچھ ایسا غلط نہیں۔
یہ بھی المیہ ہے کہ ہٹ دھرمی وشدت پسندی محض مذہبی حوالوں سے ہی نہیں سیاست کے بازار میں بھی یہی جنس سب سے زیادہ فروخت ہوتی ہے اور یہ بھی کہ عام زندگی میں ہر شخص منہ پھٹ ہے، داو لگے تو ہاتھ بھی چلا لیتا ہے، یہاں تک کہ اشراف زادیاں غیرقانونی پارکنگ سے منع کرنے پر ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کو منہ بھر کے کوستی ہی نہیں بلکہ گالیاں اور دھمکیاں بھی دیتی ہیں۔
یہ سارے روئیے افسوسناک ہیں۔
یہ جہل کی زد میں نہیں بلکہ جہل میں جکڑا ہوا سماج ہے۔
پچھلے کرداروں سے جان نہیں چھوٹ رہی اوپر سے ٹائیگر فورس آگئی ہے، پچھلے چند دنوں میں اس فورس کے چند واقعات بتاتے ہیں کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ