نومبر 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈنگ ٹپائو اور جوں کا توں زیادہ دیر نہیں چلے گا ۔۔۔ مرتضیٰ سولنگی

اب سمارٹ لاک ڈائون کے نام پر شہروں کے بڑے حصے بند کرائے جا رہے ہیں، حفاظتی اقدامات پر سختی کی اطلاعات آ رہی ہیں۔

پاکستان کی ہچکولےکھاتی ہوئی نیم سیاسی ھائبرڈ حکومت مختلف بحرانوں کے تھپیڑوں کی زد میں ہے۔ ناتجربہ کار ناخدا نہ اسے آگے لیجا سکتا ہے اور نہ پیچھے۔ بیچ منجدھار نہ اسے چھوڑ کر بھاگ سکتا ہے اور نہ ساحل پر واپس لا سکتا ہے۔ کرونا کی بڑھتی ہوئی یلغار، معاشی بدحالی، بغیر سر اور پیر کے بجٹ کیا کم تھے کہ اب ایلفیاں جوڑ جوڑ کے بنائی ہوئی پارلیمانی اکثریت بھی ہاتھوں سے پھسل رہی ہے۔ رہی سہی کسر قاضی فائز عیسیٰ کیس کے فیصلے نے پوری کردی ہے جس نے ریاستی نظام کی قلعی تو کھول ہی دی ہے لیکن عمران سرکار پر لگی اخلاقی، سیاسی اورجمہوری  لیپا پوتی کی آخری چادر بھی  تار تار کردی ہے۔

“لوگ بچائیں یا لوگوں کا ذریعہِ معاش بچائیں” کی لایعنی بحث میں ساڑھے تین مہینے ضایع کرنے اور سندھ حکومت اور مقتدرہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کی بجائے اس کی مخالفت برائے مخالفت کے نتائج اب ہر ایک کے سامنے ہیں۔ ماہرین اور ڈاکٹروں کے مشوروں کو حقارت سے نظرانداز کرنے کا نتیجہ بھی سامنے آچکا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تین ھزار سے زائد معصوم پاکستانیوں کی زندگیوں کے چراغ گُل کرنے کے بعد اب عمران حکومت وہ کچھ کرنا چاہتی ہے جس کی اس نے مارچ سے لیکر ابتک شدید مزاحمت کی ہے۔

لاک ڈائون کو کرفیو قرار دیکر اس کی ساڑھے تین ماہ مخالفت کرنے والوں اور آزاد معاشرے کا بہانہ بنا کر حفاظتی اقدامات پر عمل درآمدی اقدامات نہ کرنے والی سرکار نے اب ریاستی مشینری کے ذریعے سخت اقدامات کرنے کے فیصلوں کا اعلان کردیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے عمران احمد نیازی بقول منیر نیازی ” ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں” پر عمل پیرا ہیں۔

ماہرین جب لاک ڈائون کا مشورہ دے رہے تھے تو اس وقت وہ اسے کئی اقدامات کا ایک اہم حصہ گردانتے تھے۔ ان کے خیال میں صرف لاک ڈائون نہیں کرنا تھا بلکہ اس کے ساتھ کئی اور اقدامات بھی کرنے تھے۔ کرونا کی آمد کے ساتھ ساتھ فوری طور پر متاثرہ افراد کو باقی آبادی سے دور کرنا، بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ کرنا، متاثرہ افراد کے ساتھ ملنے والوں کو ڈھونڈ نکالنا، انہیں قرنطینہ اور ٹیسٹنگ کے عمل سے گزارنا، متاثرہ علاقوں کے اندر آمد و رفت کو محدود کرنا اور عوام کو اس وبا سے محفوظ کرنے کی میڈیا کی ذریعے ماہرین کی معلومات ہر روز کی بنیاد پر پہنچانا اس پیکیج کا حصہ تھا۔

تفتان، رائےونڈ اور ہوائی اڈوں پر غفلت کے نتیجے میں ہزاروں کرونا متاثرین افراد کو ملک بھر میں کرونا پھیلانے دینا اور اس کی روک تھام کیلیے گمراہ کن بیانیے کو فروغ دینا، سندھ حکومت سے محاذ آرائی اور حزب اختلاف کی ان تمام کوششوں کو سبوتاژ کرنا جن کا مقصد ایک قومی بیانیہ ترتیب دینا تھا، یہ وہ پہلے بنیادی گناہ تھے جس کی وجہ سے ہم یہاں پہنچے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اب پاکستان ان درجن بھر ممالک میں شامل ہے جہاں کرونا وائرس تیزی کیساتھ پھیل رہا ہے۔ یہ سطریں تحریر کرتے وقت ملک میں 171,665 کرونا کے مصدقہ کیس آ چکے تھے، تین ھزار سے زائد پاکستانی موت کی وادی میں پہنچ چکے تھے اور اب ٹیسٹنگ کی موجود سطح کو دیکھتے ہوئے، ہر روز تقریبآ پانچ ھزار نئے کیس سامنے آ رہے ہیں اور روزانہ جانبحق ہونے والوں کی تعداد 150 کے قریب ہے۔ انفیکشن ریٹ اور ہلاکتوں کی شرح، دونوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد ان شہروں میں شامل ہیں جہاں یہ مہلک بیماری تیزی سے پھل پھول رہی ہے۔

ساڑھے تین ماہ بعد عمران سرکار نے اپنے پرانے بیانیے پر 180 درجے کی قلابازی لے لی ہے۔ اب:  کرونا معمولی نزلہ فلو ہے، صرف دو فیصد کو متاثر کرتا ہے، یہ جان لیوا بیماری نہیں ہے، ہمارے اندر کوئی خاص مدافعت ہے اس لیے گھبرانا نہیں ہے، چھینک آجائے تو ٹیسٹ کرانے بھاگنا نہیں ہے، لاک ڈائون غریبوں کیخلاف اشرافیہ کی سازش ہے، لاک ڈائون پر سختی نہیں کرنی کیونکہ ہم “ازاد” ملک ہیں، ہمیں لاک ڈائون پر یورپ اور امریکہ کی نقالی نہیں کرنی چاہیے، پاکستان میں کرونا کمزور اور سی گریڈ کا ہے،  گرمیاں آتے ہیں کرونا پگھل کر مرجائے گا، آپ لوگ خود ہی ٹھیک ہوجائیں گے، ہر ایک کو ماسک کی بھی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ جیسے بیانات اب کوڑے دان کی زینت بن گئے ہیں۔

اب سمارٹ لاک ڈائون کے نام پر شہروں کے بڑے حصے بند کرائے جا رہے ہیں، حفاظتی اقدامات پر سختی کی اطلاعات آ رہی ہیں۔ عوام جنہیں درج بالا غلط معلومات دی گئی اور انہیں حالِ مست میں رہنے کی ترغیب دی گئی اب جاہل کا خطاب دیا جارہا ہے۔ وزیر اعظم ٹی وی پر آ کر لوگوں کو جھاڑ پلا رہے ہیں لیکن اپنے نئے یو ٹرن کی کوئی وضاحت نہیں دے پا رہے۔ ہو سکتا ہے کہ نئے اقدامات سے کچھ فرق پڑے لیکن اب انفیکشن کی شرح آسمان کو چھو رہی ہے، ہسپتالوں میں صورتحال خراب ہو رہی ہے، ہر جگہ سے زندگی بچانے والی ادویات کی قلت، غیر معمولی مہنگائی اور زخیرہ اندوزی کی خبریں آ رہی ہیں۔ لوگوں میں گمراہی پھیلانے والی حکومت نے ایسا ماحول پیدا کیا ہے کہ ڈاکٹروں پر حملے ہو رہے ہیں اور ڈاکٹر پریس کانفرنسیں کرکے تحفظ کا مطالبہ کر رہے ہیں اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں لاک ڈائون کی دھمکی دے رہے ہیں۔ یہی وہ خدشہ تھا جس سے ہم ان صفحات میں خبردار کرتے رہے ہیں لیکن حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اب معاملہ سو پیاز ۔۔۔ والا ہو گیا ہے۔

دنیا میں صرف ان ملکوں نے کرونا کو شکست دی ہے جہاں پر عوام، سیاستدان اور میڈیا یک زبان ہوکر اس وبا کیخلاف لڑے ہیں۔ فتح پانے والوں میں نہ معاملہ ان کے ترقی یافتہ ہونے کا ہے اور نہ ان کے گورے یا کالے ہونے کا۔ گورے اٹلی، سپین، برطانیہ اور امریکہ نے نقصان اٹھایا ہے جبکہ چین، تائیوان، ھانگ کانگ، سنگاپور، ویتنام، نیوزیلینڈ، کموچیا، لائوس کو کامیابی ملی ہے۔ ہمارے پڑوس میں بھارت میں، مہاراشٹرا میں ناکامی ہے جبکہ کیرالہ میں جہاں کمیونسٹوں کی حکومت ہے، تعلیم، صحت اور مقامی حکومتوں کو فوقیت ہے، جہاں جاسوسی ایپ کو استعمال کیے بغیر، حکومت اور حزب اختلاف نے ملکر کام کیا وہاں کامیابی نے ان کے قدم چومے ہیں۔ کیرالہ میں وہاں ماہریں کی قیادت میں حکومت، عوام، مقامی حکومت اور میڈیا ایک صفحے پر تھے۔

اب بھی اگر حکومت عقل کے ناخن لے تو کرونا کو شکست دی جاسکتی ہے لیکن اس کیلے جس طرح کے قومی جذبے کی ضرورت ہے وہ عمران خان کی نرگیست پسند قیادت میں موجود نہیں ہے اور اس کے کوئی آثار بھی نہیں ہیں۔ اس لیے صرف چند سخت اقدامات سے کرونا کو شکست دینا ممکن نہیں ہے۔ اس وقت طبی عملہ بھی شدید اضطراب کی کیفیت میں ہے، قوم الجھاوؐ  کا شکار ہے، میڈیا فروعی معاملات پر زیادہ وقت صرف کر رہا ہے اور حکومت قوم کو بچانے کی بجائے اپنے آپ کو بچانے میں مصروف ہے۔

جمعے کے روز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ  کیس میں صدارتی ریفرنس کا خارج کیا جانا عمران سرکار کیلیے ایک بہت بڑی سبکی ہے۔ یاد رہے کی ریفرنس متفقہ طور پر خارج کیا گیا ہے۔ ابھی تفصیلی فیصلہ نہیں آیا اس لیے ہم کہہ نہیں سکتے کہ اس کے وزیر اعظم، صدر، وزیر قانون، احتساب کے اعلیٰ افسر شہزاد اکبر وغیرہ پر کیا اثرات ہونگے لیکن حکومت کی اخلاقی اور جہموری حیثیت پر بڑے سوال کھڑے ہوگئے ہیں۔ فیض آباد دھرنہ کیس میں فیصلے کے بعد جس طرح جسٹس عیسیٰ  کیخلاف ایک زہریلی مہم چلائی گئی اور جس طرح پی ٹی آئی سرکار اس مہم کا حصہ بنی اس نے اس حکومت کی سیاسی اور جمہوری حیثیت مشکوک کر دی ہے۔ پرویز مشرف کیس میں جس طرح عمران سرکار نے پنتیرا بدل کر سابق فوجی آمر کی حمایت کی اور فیصلہ دینے والی عدالت کیخلاف محاذ آرائی کی، موجود کیس کے فیصلہ نے عمران سرکار کو مزید ٹھیس پہنچائی ہے۔ جمعے کے فیصلے نے عمران حکومت کو مزید کمزور کردیا ہے اور اس کی رہی سہی سیاسی اور جمہوری ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

بی این پی مینگل کی حکومت سے علیحدگی کے بعد عمران حکومت اب چند نشستوں کی اکثریت پر کھڑی ہے۔ حکومت کی آگ بجھاوؐ  کمیٹی حرکت میں آچکی ہے۔ ہوسکتا ہے حکومت یہ جھٹکا برداشت کر جائے لیکن قوم معاشی بدحالی اور کرونا کا جھٹکا برداشت نہیں کرپائے گی۔ سیاسی بحران اسی طرح قائم رہے گا جب تک ملک میں نئے انتخابات نہ ہوں، جس کے فی الحال کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ اگر معاشی بحران اور کرونا کی صورتحال مزید خراب ہوتی ہے تو عین ممکن ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اپنے اتحادیوں کیساتھ اپنی میعاد تو پوری کرلے لیکن عمران خان ملک کے وزیراعظم نہ رہیں۔ قبرستان ناگزیر لوگوں سے بھرے پڑے ہیں۔

About The Author