ا فون نمبر ہوتا تو ان کی خدمت میں عرض کرتا ”یہ تو ہوگا“ کیونکہ ”پیا“ یہی چاہتے ہیں۔
اچھا خیر چھوڑیں اس قدر سنجیدہ باتیں کرنے کی ضرورت نہیں۔ بجٹ کے موسم میں یوں بھی سنجیدگی صحت کیلئے اچھی نہیں اور آج کل تو کورونا بھی ہے اور ہے نہیں بلکہ دندناتا پھر رہا ہے۔ ان دونوں کے علاوہ مہنگائی کا کورونا بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے،
پچھلے تین دنوں کے دوران 21اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ابھی تو حضرت بجٹ آئے ہیں یہ بیٹھیں گے‘ کچھ کھائیں پئیں گے۔
فقیر راحموں کے بقول بجٹ اور پیر کچھ لئے بغیر رخصت نہیں ہوتے۔
حیران مت ہوں وبا کے اس موسم اور بجٹ ڈاکہ سے بنے ماحول میں یہ ہلکا پھلکا کالم آپ کیلئے ہی لکھ رہا ہوں
ورنہ سنجیدہ بات یہ تھی کہ پنجاب حکومت کورونا سے پیدہ شدہ حالات کی سنگینی سے لرزاں تھی۔
پنجاب کے بڑوں نے مسلسل پانچ دن کی مشاورت کے بعد صوبے میں 15دن کے سخت گیر لاک ڈاؤن کا فیصلہ کر لیا۔ گورنر وزیراعلیٰ اور چیف سیکرٹری میں مکمل اتفاق رائے تھا وہ تو خدا بھلا کرے وزیراعظم عمران خان کا جو دورہ لاہور پر تشریف لائے اور لاک ڈاؤن کو کان سے پکڑ کر نکال دیا۔
مگر یہ ضرور کہا کہ ”جولائی مشکل ضرور ہے لیکن لاک ڈاؤن نہیں کریں گے البتہ سلیکٹڈ لاک ڈاؤن ہوگا۔ یہ بھی کہا سختی کا وقت آگیا ہے، ماسک پہنے بغیر کوئی گھر سے نہ نکلے۔ ماسک سے 50فیصد کورونا رکتا ہے”۔
کورونا سے یاد آیا‘ ہمارے مرشد پاک ملتانی قبلہ سید یوسف رضا گیلانی‘ میڈا سئیں لکھنے والی تہمینہ درانی سمیت 6668 نئے مریض سامنے آئے اور گزشتہ روز بھی 100افراد جان سے گئے۔ کل مریضوں کی تعداد سوا لاکھ سے تجاوز کر چکی۔ صحت یاب بھی ہو رہے ہیں لوگ،
لاک ڈاؤن سے معیشت تباہ ہوتی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ پچھلے اڑھائی تین ماہ کے دوران ٹھنڈے میٹھے لاک ڈاؤن سے تین ہزار ارب روپے کا نقصان ہوا‘ کاش ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا جاتا کہ کورونا سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد بھی تین ہزار کو پہنچنے والی ہے۔
بیجنگ دوبارہ سخت لاک ڈاؤن کی طرف بڑھ گیا ہے۔
چلیں چھوڑیں‘ یہ نیب لاہور نے ہمارے نوجوان دوست اور نون لیگ کے رکن قومی اسمبلی محسن شاہ نواز رانجھا کو 16جون کو طلب کر لیا ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ تحریر نویس طلبی کی اصل وجہ سے آگاہ ہے مگر نیب جیسے ”مقدس“ ادارے کے پریس ریلیز پر شک کرکے اپنی حب الوطنی بھرشٹ کروانے کا سوچ بھی نہیں سکتا، اس لئے نیب درست کہتا ہے یقینا محسن شاہ نواز را نجھا کو آمدنی سے زائد اثاثوں کے الزام میں ہی بلایا گیا ہوگا۔
محسن بھی عجیب سا آدمی ہے، پرسوں سنا ہے شکرپڑیاں خریدنے کیلئے کسی پراپرٹی ڈیلر سے بات کر رہا تھا، اس سے قبل مینار پاکستان والے پلاٹ کی خریداری کی خواہش بھی ظاہر کر چکا تھا۔
اپنے وزیر کھلی زبان معاف کیجئے گا وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کی طبیعت گزشتہ روز بگڑ گئی جس کے بعد انہیں راولپنڈی کے سی ایم ایچ منتقل کر دیا گیا۔
اب چلتے چلتے یہ عرض کردوں کہ فقیر راحموں اور تحریر نویس دونوں نے لاک ڈاؤن کی حمایت کرنے سے توبہ کرلی ہے۔
وجہ بتانے میں ہرج تو کوئی نہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ ایوب خان کے دور سے قائم ہوا محکمہ بہبود آبادی اور جنرل ضیاء کے دور سے پالے ہوئے لشکر جو نتائج نہ دے سکے ان نتائج کی توقع اب کورونا سے باندھ لی ہے۔
آپ حیران ہو رہے ہوں گے کہ یہ کیا کہہ رہا ہوں‘ ارے صاحب مشکل سے سات کروڑ کی آبادی کیلئے وسائل رکھنے والا ملک بائیس کروڑ پاکستانیوں‘ ایک کروڑ قانونی وغیرقانونی تارکین وطن کو پالنے کیساتھ پڑوسیوں کیلئے سمگلنگ کرنے والوں کے نخرے بھی تو اُٹھا رہا ہے۔
لاک ڈاؤن ہوا تو اس معیشت کا بھٹہ بیٹھ جائے گا اس لئے معیشت کی گاڑی رکنی نہیں چاہئے، بندوں کا کیا ہے پھر پیدا ہو جائیں گے۔
نسل بڑھانے بلکہ بڑھاتے چلے جانے میں برصغیر پاک وہند (بھارت‘ پاکستان اور بنگلہ دیش) کا مقابلہ تو افریقی نہیں کر پائے، ہم سا ہو تو سامنے آئے۔
آخری بات پشاور سے کالم کے قاری محمد رفیق خان کی وہ فرماتے ہیں ”میں نے تحریک انصاف کو اس لئے ووٹ دیا تھا کہ وہ نجکاری کی مخالف تھی لیکن اب نجکاری کے عمل کو جاری رکھنے کے اعلانات ہو رہے ہیں“
جناب رفیق خان خاطر جمع رکھیں تحریک انصاف خسارے والے بلکہ ملک کی گردن پر سوار ادارے فروخت کرنا چاہتی ہے۔
معاف کیجئے یہ فقیر راحموں مجھے بہکانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اس کے بتائے ان اداروں کا نام بھی نہیں لوں گا جو بقول اس کے ملک کی گردن پر سوار ہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ