نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ٹیم دوبارہ بنانی ہوگی ۔۔۔۔ محمد عامر خاکوانی

پیگی نونن معروف امریکی کالمسٹ اور صحافی ہیں، وہ ممتاز امریکی اخباروال سٹریٹ جرنل کے لئے کالم لکھتی ہیں، کئی نیوزچینلزکے پولیٹیکل کمنٹری بھی کرتی ہیں، صدر ریگن اور بش کی سپیچ رائٹر بھی رہیں۔ پیگی کی صدر ریگن پر لکھی کتاب خاصی مشہور ہے۔ اس میں ایک دلچسپ ، فکرانگیز ٹکڑا انہوں نے لکھا۔ برسوں پہلے روئیداد خان کی کتاب” پاکستان انقلاب کے دھانے پر “میں اس کا حوالہ پڑھا۔ روئیداد خان کی یہ کتاب ایسے بے شمار نہایت دلچسپ، معلومات افزا اقتباسات، فقروں اور واقعات سے معمور ہے۔ کسی ایک کتاب میں اتنے زیادہ خوبصورت حوالے ، اس قدر دلچسپ چیزیں کم ہی پڑھیں۔ یہ شائد پہلی کتاب تھی جو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے انگریزی کے بعد اردو میں بھی شائع کی، اس کا ترجمہ بھی ایک معروف بیوروکریٹ نے کیا تھا اور کیا کمال ترجمہ ہے۔اس وقت کتاب سامنے نہیں،یاد پڑتا ہے کہ عرفان احمد امتیازی صاحب نے وہ ترجمہ کیا تھا اور ظاہر ہے روئیداد خان سے کسی تعلق خاطر کی بنا پر کیا ہوگا۔پیگی نونن کا وہ اقتباس بھی اپنی یاداشت کے بھروسے پر لکھ رہا ہوں، الفاظ آگے پیچھے ہوسکتے ہیں، اس کا مفہوم لکھ رہا ہوں۔ پیگی نونن لکھتی ہیں کہ ایوان صدر(ہم پاکستانی اسے وزیراعظم ہاﺅس سمجھ لیں یا پھر ایوان اقتدارکہہ لیں)میں آنے والے مکیں کے لئے بہت ہوشیار ، چالاک ہونے کی ضرورت نہیں، دنیامیں ایسے چالاک اور ہوشیار ترین ماہرین مل جاتے ہیں، جنہیں وہ مشیر رکھ سکتا ہے۔ وہ اسے اپنے سیاسی مخالفین کو ناک آﺅٹ کرنا سکھا دیں گے۔ کیسے چالیں چلنی ہیں، یہ سب بھی تجویز کریں گے ۔ اس کے لئے معاشی ماہر ہونا بھی ضروری نہیں،معیشت کے بڑے سے بڑے ماہر مل سکتے ہیں،نیا حکمران ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کر سکتا ہے۔البتہ ایک چیز ایسی ہے جو ایوان اقتدار میں نہیں ملتی، وہ دیانت ہے۔ دیانت ، اپنے ملک کی تقدیر بدلنے کا عزم ایسی چیزیں ہیں جو نیا حکمران اپنے ساتھ لاتا ہے۔ یہ چیزیں اقتدار کے ایوانوں میں نہیں مل سکتیں اور نہ ہی انہیں کہیں سے خریدا جا سکتا ہے۔ اگر لیڈر اپنے ساتھ یہ خوبی لاتاہے تو اپنے اندر موجود دیگر کمی یا کمزوری (ناتجربہ کاری، معیشت یا انتظامی معاملات سے بے خبری وغیرہ)کی تلافی وہ کر سکتا ہے۔ کسی بھی اہم شعبے کے بہترین ماہر کی خدمات اسے مل سکتی ہیں۔

پچھلے پونے دو سال کی حکومتی کارکردگی کو دیکھ کر مجھے بار بار یہی خیال آتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان صاحب پر یہ بات ایک اور عجیب وغریب انداز میں درست ثابت ہوئی ہے۔ میں ان لوگوں میں ہوں جنہیں وزیراعظم کی دیانت داری پر شک نہیں۔ وہ پیسہ کمانے سیاست میں نہیں آئے۔ وہ وزیراعظم اس لئے نہیں بنے کہ اپنے سے پہلے والے وزرااعظم کی طرح دل کھول کر مال کمائیں یا وزیراعظم ہاﺅس میں بیٹھ کر مزے کریں ، اپنے تمام اہل وعیال کو کھلی چھوٹ دیں کہ جو کچھ بنا سکتے ہو بنا لو، اپنے اپنے لیٹرپیڈ چھپوا کر جتنے کام کرا سکو، جس جس کو زیراحسان کرنا ہے کرو۔ ایسا نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ عمران خان خان کرپٹ نہیں۔ وہ مناسب حد تک دیانت دار(Reasonably Honest)ہیں۔یہ البتہ یاد رہے کہ وہ اصغر خان یا نور خان کی طرح Dead Honest بھی نہیں ہیں ، اسی لئے کسی حد تک سمجھوتے کر کے آگے بڑھے ہیں۔ الیکٹ ایبلز اور چودھریوںکو برداشت کیا، پچھلے آٹھ نو سالہ سیاسی سفر میں اپنی معروف اے ٹی ایمز کو 

بھی استعمال کیا ۔یوں ایوان اقتدار تک پہنچے۔ حسن ظن البتہ یہی ہے کہ یہ مجبوری کے سمجھوتے ہیں، خوشی سے نہیں کئے گئے۔ اس رائے سے ظاہر ہے بہت لوگوں کو اختلاف ہوگا۔ جو عمران خان کو ذرا برابر بھی رعایت دینے کو تیار نہیں، وہ ان کے سمجھوتوں کو محدب عدسوں سے دیکھتے ہیں۔ یہ اور بات کہ ایسے لوگ اپنے پسندیدہ سیاستدانوں کے میگا کرپشن سکینڈلز بھی خوشدلی سے نظرانداز کر دیتے ہیں۔عمران خان سیاست میں آنے سے پہلے ہی ایک مقبول قومی ہیرو تھا۔ ایک ایسی سیلیبریٹی جس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ سیاست میں عمران خان تبدیلی لانے کے خواب کے ساتھ آیا۔ نظام بدلنے، عوام کی تقدیر بدلنے کے خواب کے ساتھ۔ اسے اس نے سیاسی نعرہ بھی بنایا اور پھر خاصا عرصہ سیاسی ناکامیاں سہنے کے بعد آخر کار اپنے نعروں کو عوام کے بڑے طبقے تک پہنچانے میں کامیاب ہوگیا۔ پڑھے لکھی کلاس اورنوجوانوں کی بڑی تعداد کو اس نے خواب دیکھنا سکھایا۔ اس خواب کی خاطر جدوجہد کرنے اور اپنے ووٹ سے تبدیلی لانے کا یقین بھی دلایا۔ یہ سب کافی نہیں تھا۔ اس نے مزید اتحاد بنائے، طاقت کے مراکز کے ساتھ ہاتھ ملایا، کچھ حالات بھی اس کے حق میں گئے۔ پاناما، پوسٹ پانامہ دور میں جو غلطیاں میاں نواز شریف نے کیں، ان کا فائدہ خان نے اٹھایا۔

عمران خان کے وزیراعظم بننے کے پیچھے عوامل اور وجوہات کئی ہیں، ان پر بحث بھی ہوسکتی ہے۔ مختلف حلقے مختلف آرا رکھتے ہیں۔نتیجہ بہرحال سب کے سامنے ہے۔ عمران خان وزیراعظم بن گیا۔ پونے دو برسوں سے وہ وزیراعظم ہے۔ ایوان اقتدار میں ایک ایسا شخص آگیا ، جس کے بارے میںلوگوں کی خاصی بڑی تعداد یہ خیال رکھتی ہے کہ وہ اپنے ساتھ دیانت داری کا اثاثہ اور تبدیلی لانے کا عزم رکھتا ہے۔ ایک دلچسپ معاملہ یہ بھی ہے کہ پہلی بار طاقت کے اہم ترین مراکز اس کی سپورٹ میں کھڑے ہیں۔ جو سہولت یا لگژری آصف زرداری اور میاں نواز شریف کو حاصل نہیں تھی، عمران خان اس سے مالا مال ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت نہ صرف ایک ہی صفحے پر ہیں بلکہ شائد سطر بھی ایک ہی ہے۔ میڈیا بھی عمران خان کا مخالف نہیں ۔ میڈیا کا بڑا حصہ ایسا ہے جس نے اپنی بھرپور سپورٹ سے عمران خان کی کامیابی کا راستہ ہموار کیا اورشریف خاندان کی سیاسی بالادستی کا خاتمہ ممکن بنایا۔ میڈیا ویسے بھی اپنی قوت کا بھرم کھو چکا ہے۔ طاقت کے مراکز سے ٹکرانے یا انہیں زیر کرنے کا خواب اگر کسی نے دیکھا بھی ہوگا تو وہ اسے بھیانک سپنا کہہ کر بھول جانا چاہتے ہیں۔ سوال پھر یہی ہے کہ اس سب کچھ کے باوجود حکومت بری طرح ناکام کیوں ہوئی ہے؟ بدترین گورننس کے مظاہر ے ہر جگہ نظر کیوں آ رہے ہیں؟

یہ درست کہ ایک طاقتور لابی عمران خان کی مخالف بھی ہے۔ شریف خاندان اور ان کے سیاسی اتحادی ہر حال میں عمران خان کو ناکام دیکھنا چاہتے ہیں۔ روایتی سیاستدان اور روایتی پارٹیاں کبھی عمران خان کو کامیاب ہوتا نہیں دیکھنا چاہیں گی۔ عمران خان کے مخالف سیاستدانوں کی کمی نہیں۔ ان کے حامی بڑے کاروباری اور تاجر گروپ بھی خان کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔یہ سب باتیں اپنی جگہ ، مگر ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو طاقت کے مراکز سے زیادہ قوت رکھتا ہو یا انہیں آﺅٹ کلاس کر سکے ۔ بڑے کاروباری بھی اپنے مفادات کے تحت ہی سابق حکمرانوں کے قریب رہے۔ان کے آکسیجن پائپ پر کسی زیادہ طاقتور کا پاﺅں آئے تو وہ مزاحمت کر سکتے ہیں ؟ نہیں، بالکل نہیں۔ 

خامی پھر کہیں اور ہے۔امریکی صحافی نے درست کہا تھا،” لیڈر اگر اپنے ساتھ دیانت اور تبدیلی کا عزم لے کر آئے تو وہ سب کچھ کر سکتا ہے، ہر شعبے کا بہترین ماہر اسے دستیاب ہوسکتا ہے۔ “ بات درست ہے، لیکن لیڈر اگر ٹیم ہی بری بنائے، ہر شعبے سے ڈھونڈ کر خودغرض اور 

نالائق ماہر کو اپنے ساتھ بٹھا لے ، تب وہی ہوگا جو آج ہو رہا ہے۔ جیت کے لئے بہترین ٹیم درکار ہوتی ہے۔ بہترین کپتان بھی ناقص ، کمزور ٹیم کے ساتھ ڈیلیور نہیں کر سکتا۔ عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود تجربہ کار اور اہل نہیں۔ یہ واضح ہوچکا کہ انہیں بہت سے باتوں کے بارے میں بالکل نہیں علم۔ معیشت کو وہ نہیں سمجھتے، مردم شناس نہیں،اپنا امپیکٹ (تاثر)نہیں بنا پا رہے۔ انہیں میڈیا کواستعمال کرنا نہیں آ رہا۔ سب سے بڑھ کر وہ بہت بری تقرریاں کر چکے ، مگر اپنی غلطیوں کو سدھارنے کو تیار نہیں۔ اناکا اسیر ہیں یا پھر ضعیف الاعتقادی کا شکار ۔ وجہ جو بھی ہوں، خان صاحب اچھی ٹیم نہیں بنا پائے۔ ان کی بدترین گورننس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے۔چینی، آٹا، گندم، پٹرول…. ان تمام بحرانوں کو اچھے طریقے سے ہینڈل کیا جا سکتا تھا، اگر مطلوبہ اہلیت رکھنے والے لوگ ان کی ٹیم میں ہوتے۔

انہی غلطیوں کی وجہ سے عمران خان اپنا اثاثہ جات بے دردی سے تباہ کر رہے ہیں۔ ان کی دیانت اور تبدیلی کا عزم بھی بے اثر اور بیکار ثابت ہو رہا ہے۔ وہ ساٹھ ماہ کے لئے اقتدار میں آئے ہیں، وہ بھی اگر سب کچھ ٹھیک رہے جو کہ پاکستان میں معمول نہیں۔ آخری چھ ماہ میں ہر حکومت کمزور ہوتی ہے، انگریزی محاورے کے مطابق Lame Duck۔ بڑا ریلیف وہ نہیں دے سکتی۔ باقی بچے چون ماہ ۔ چون میں سے بائیس ماہ گزر چکے ہیں۔ یعنی چالیس فیصد وقت ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ اگرو ہ شرمندگی سے بچنا چاہتے ہیں، حقیقی تبدیلی لانے کے خواہشمند ہیں تو اپنی ٹیم تبدیل کریں۔خان صاحب اس ٹیم کے ساتھ آپ ورلڈ کپ نہیں جیت سکتے۔ ٹیم خواہ کتنی کمزور ہو، جیتنے کے لئے اس میں جاوید میانداد اور وسیم اکرم جیسے میچ ونر لازمی ہونے چاہئیں،عاقب اور رمیز جیسے درمیانے اور انضمام ، مشتاق جیسے کرشمہ ساز لڑکے بھی ضروری ہیں۔اگر یہ نہ ہو تو باقی پھر کہانیاں ہیں باب

About The Author