نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

صدارتی ریفرنس:سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواست پر سماعت کا احوال

جسٹس مقبول باقر نے کہا ‏فروغ نسیم صاحب یہ بات بھی یاد رکھیئے گا کہ ایک جمہوری حکومت ججز کی جاسوسی کرنے پر ختم ہو چکی ہے۔

سپریم کورٹ کے سینئیر جسٹس  عمرعطا بندیال نے کہاہے کہ سابق وفاقی وزیر قانون جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواست پر اپنے دلائل میں ایک نقطہ پر بھی مطمئن نہیں کرسکے ، فروغ نسیم نے عدالت سے مزید وقت مانگ لیا اور کہا دو روز میں اپنے دلائل مکمل کرلوں گا۔ کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی ۔

صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی اور دیگر درخواستوں کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی ہے ۔ جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ  نے سماعت کی ۔

سماعت کے آغاز پر ہی جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا فروغ نسیم سے مخاطب ہو کر کہا  اپنی مرضی کے مطابق بحث کریں،آپ کے اکثرسوالات غیر متعلقہ ہیں،اے آر یو سے متعلق 2 تین مثالیں اور بیان کر دیں ،یہ بھی بتا دیں ججز کے ضابطہ اخلاق کی قانونی قدعن ہے کہ نہیں،ہم آپ کو تفصیل سے سنیں گے۔

فروغ نسیم نے کہا  بنیادی سوال ہے کہ کیا جج پر قانونی قدعن تھی کہ وہ اہلیہ اور بچوں کی جائیداد ظاہر کرے، درخواست گزار کا موقف ہے کہ انکی اہلیہ اور بچے انکے زیر کفالت نہیں، جج کیخلاف کارروائی صرف اسی صورت ہوگی جب جج کا مس کنڈکٹ ہو، معاملہ ٹیکس کا یا کسی اور جرم کا نہیں ہے، مس کنڈکٹ کی آرٹیکل 209 میں تعریف نہیں کی گئی، ہندوستان میں ثابت شدہ مس کنڈکٹ لکھا گیا ہے،آئین کے آرٹیکل 209 میں مس کنڈکٹ کی تعریف نہ کرنا دانستہ ہے،209میں مس کنڈکٹ کی بات کی تو دیگر انتظامی قوانین سے اصول لیے جائیں گے ۔

جسٹس منیب اخبر نے کہا آئین ہی انتظامی قوانین کو اختیار دیتا ہے ،آئین دیگر تمام قوانین کا ماخذ ہے ،مس کنڈکٹ کی تعریف دیگر قوانین کے بجائے بہتر ہو گا کہ آئین کے تحت ہی دیکھی جائے۔

فروغ نسیم نے کہا آئین میں زیر کفالت اہلیہ اور خود کفیل اہلیہ کی تعریف موجود نہیں،ایمنسٹی اسکیم کے تحت جج اور انکی اہلیہ پبلک آفس ہولڈر ہیں ،جج کی اہلیہ بھی ایمنسٹی نہیں لے سکتیں ۔ بچوں کے لیے تو پھر بھی زیر کفالت یا خود کفیل کا ایشو ہے ، اہلیہ کے لیے ایسا کچھ نہیں، 209میں مس کنڈکٹ کی بات کی تو دیگر انتظامی قوانین سے اصول لیے جائیں گے۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ یا انکی اہلیہ سے ان جائیدادوں کے بارے میں کسی نے نہیں پوچھا۔

فروغ نسیم نے کہا جج سے سوال کرنے کا حق صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو ہے ،سپریم جوڈیشل کونسل نے اسی حق کے تحت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے جائیدادوں کے بارے میں پوچھا۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا حقیقت میں یہ ثابت کرنا ہے کہ اہلیہ کی جائیداد ظاہر نہ کر کے جج نے قانونی تقاضہ پورا نہیں کیا۔

فروغ نسیم نے کہا پانامہ کیس میں نواز شریف صاحب نے یہی کہا تھا کہ بچوں کی جائیداد کا مجھ سے مت پوچھیں، اس کیس میں بھی تینوں جائیدادوں کا آج تک نہیں بتایا گیا۔ 2018 کی ایمنسٹی سکیم قانون کے تحت ججز، بیگمات یا انکے زیر کفالت بچے فائدہ نہیں لے سکتے، پاکستان میں تین ایسے قوانین ہیں جسکے تحت ججز اور انکی بیگمات کو اثاثے ظاہر کرنا ضروری ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دیگر شہریوں کو ٹیکس ایمنسٹی سکیم میں چھوٹ حاصل ہے،لیکن ججز اور اہل خانہ کو ٹیکس ایمنسٹی سکیم میں چھوٹ حاصل نہیں،آپکی اس بات کا اس کیس سے کیا تعلق ہے؟

فروغ نسیم نے کہا اعلیٰ عدلیہ کے کسی بھی جج سے سپریم جوڈیشل کونسل کا فورم سوال کر سکتا ہے،اگر ہم آج یہ مان لیتے ہیں کہ جج سے انکی اہلیہ یا زیر کفالت بچوں کے اثاثوں کے بارے میں نہیں پوچھ سکتے تو تباہی ہو گی،درخواست گزار جج کے بیرون ملک اثاثے تسلیم شدہ ہیں، معزز جج کے اہل خانہ کے بیرون ملک اثاثوں کی کوئی موڈگیج نہیں ہے،پانامہ کیس میں نواز شریف نے بھی کہا تھا مجھ سے نہ پوچھا جائے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آپ یہ کہتے ہیں جو اثاثے تسلیم کیے گئے انکو ظاہر کرنا چاہیے تھا؟اگر بیگم آزاد اور اپنی  انکم سے اثاثے خرید سکتی ہیں تو اسکی وضاحت بھی بیگم ہی دے سکتی ہیں۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا آپ سے کوئی نہیں کہتا کہ نہ پوچھیں،کیا آپ نے بیگم سے پوچھا کہ جائداد یا فلیٹ کہاں سے لائیں؟

فروغ نسیم نے کہا ڈسیپلنری ایکشن میں بیگم سے نہیں پبلک آفس ہولڈر سے پوچھا جاتا ہے۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا نیب قانون میں بھی جس کے نام پراپرٹی ہوتی ہے اسکو ظاہر کیا جاتا ہے، اگر اصل سورس نہ ملے تو پھر دیگر سے پوچھا جاتا ہے۔

فروغ نسیم نے کہا پاکستان کے تمام ججز پولیٹیکل ایکسپوزڈ  پرسنز ہوتے ہیں،پولیٹکل ایکسپوزڈ پرسنز میں ملٹری اور جوڈیشل افسر شامل ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آج آپ کو مقررہ وقت سے بھی زیادہ وقت دیا ہے۔۔اس دوران ایک پوائنٹ بھی آپ مکمل نہیں کر سکے۔

فروغ نسیم نے کہامیں نے تو درخواست گزاروں کے وکلا سے کم وقت لیا ہے۔ مجھے اپنے نکات پر دلائل کے لئے مزید وقت چاھیئے۔

جسٹس بندیال نے کہا آپ نے عدالت کو ریفرنس کی بد نیتی پر دلائل دینے ہیں،آپ نے بتانا ہے کہ ریفرنس سے پہلے شواھد کیسے اکٹھے کئے اور جاسوسی کیسے کی؟

فروغ نسیم نے کہا آئین کے آرٹیکل 63(1) این اور او میں بھی ایک کلاس بنائی گئی ہے،آئین بنانے والوں نے اس میں بھی خود مختار یا زیر کفالت کا ذکر نہیں کیا۔ قانون میں جج کی بیوہ پینشن لے سکتی ہے، لیکن قانون میں یہ نہیں بتایا گیا کہ جج کی بیوہ خود مختار ہے یا نہیں۔ اگر بیوہ مالدار ہے اور کوئی کاروبار کرتی ہے تب بھی وہ پینشن لیتی ہے،اگر کسی جج کی بیوہ آگے شادی کر لیتی ہے تو پھر معاملہ ہی ختم ہو جاتا ہے،ایک 22 گریڈ کے سیکرٹری کے تمام قوانین ججز پر بھی لاگو ہوتے ہیں، آرٹیکل 19 کے مطابق جہاں جہاں فیڈرل سیکریٹری موجود ہے وہاں اس کے رولز ججز پر لاگو ہو سکتے ہیں۔ ججز پینشن قانون میں بھی جج کی بیوہ خودمختار ہے یا نہیں اس کو پینشن دینے کا کہا گیا ہے، اس میں بھی خود مختار یا زیر کفالت کی کوئی تقسیم نہیں کی گئی۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا ‏فروغ نسیم صاحب یہ بات بھی یاد رکھیئے گا کہ ایک جمہوری حکومت ججز کی جاسوسی کرنے پر ختم ہو چکی ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اگر ایک خودمختار بیگم اپنی آمدن سے جائیداد خریدتی ہے تو وہ کل اسکی وضاحت بھی دے سکتی ہے۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا سوال یہ ہے کہ کیا بیگم سے پوچھا گیا کہ جائیداد کہاں سے خریدی گئی؟

فروغ نسیم نے کہا ڈسپلنری کارروائی میں بیگم صاحبہ سے نہیں پوچھا جاتا ،گریڈ بائیس کے سیکرٹری کے لیے بنائے گئے قوائد ججز پر بھی لاگو ہیں ،سپریم کورٹ ججز کے مختلف قواعد میں بھی اہلیہ کے زیر کفالت یا خود کفیل کی تمیز نہیں ۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ججز کو ملنے والی مراعات ، قواعد اس کیس سے کیسے متعلقہ ہیں؟

جسٹس مقبول باقر نے کہا یاد رکھنا چاہیے کہ ریفرنس میں بنیادی ایشو ٹیکس قانون کی شق 116 کی خلاف ورزی ہے۔

فروغ نسیم نے کہا میرا عدالت سے وعدہ ہے کہ شق 116 پر بھی بھرپور دلائل دونگا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا سیکرٹری لیول آفیسر کے لیے بنائے گئے قوائد مراعات سے متعلق ہیں  کنڈکٹ سے متعلق نہیں۔ ججز کے کنڈکٹ سے متعلق صرف آئین میں درج  ہے باقی کہیں بھی نہیں،آج آپ کو مکمل وقت دیا گیا ،آج آپ  ایک نقظہ پر بھی دلائل مکمل نہ کر سکے۔

فروغ نسیم نے کہا میں آئندہ دو روز میں اپنے دلائل مکمل کر لونگا۔

جسٹس عمر عطابندیال نے کہا بدنیتی کا نقطہ نہایت اہم ہے آپ نے ابتک نہیں بتایا کہ شواہد کیسے اکھٹے کیے ؟ ججز کی نگرانی بھی اہم نقطہ ہے ۔

کیس کی سماعت کل کل تک ملتوی کردی گئی ۔

یہ بھی پڑھیے:سپریم کورٹ: صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز کی درخواست پر سماعت کا احوال

About The Author