ایک زمانہ تھا جب پاکستان کی قومی ائیر لائن پی آئی اے ہمارے لیے باعث فخر ہوتی تھی اور پاکستان کی شناخت تھی۔ آج یہ پڑھ کر شاید شدید حیرت کا جھٹکا لگے کہ 1960 سے 1980 تک اس
ائیر لائن کا معیار انتہائی قابل اعتبار تھا۔ قومی ائیر لائن کی فلائٹ چاہے قومی ہوں یا بین الاقوامی اپنی پابندی وقت کے لیے اور اپنیبہترین جہازوں کے لیے مشہور تھی۔دنیا کی چند بہترین فضائی کمپنیوں میں اس کا شمار ہوتا تھا غیر ملکی قابل ذکر شخصیات بھی اسی ائیر لائن سے سفر کرنا اپنا اعزاز سمجھتی تھیں۔
تاہم بدقسمتی سے اب پی آئی اے صرف اور صرف زوال اور بدحالی کا شکار ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پی آئی اے کو بدعنوان حکمرانوں نے اپنی سیاست چمکانے کے لیے استعمال کیا رہی سہی کسر بددیانت نوکر شاہی نے پوری کردی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت سے شروع ہونے والا بھرتی پالیسی میں واضح سیاسی اثرو رسوخ اور اقربا پروری کا پروان چڑھنے والا کلچر اس تلخ حقیقت کا عکاس ہے کہ کسطرح ایک بہترین ادارہ سیاسی بنیادوں پر صرف ووٹ لینے کی خاطر مفادات کی بھینٹ پر کیسے قربان کیا جاتا ہے۔ پی آئی اے میں سیاسی وابستگیوں اور بلیک میلنگ کلچر نے اس کو ایک کرپشن کے ایک ایسے گورکھ دھندے میں الجھا کر رکھ دیا ہے جس کی گتھی کسی طور سلجھتی ہی نہیں۔ پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے محروم تنگ نظر پی آئی اے کی انتظامیہ اور اس کی پالیسیاں ہر حکومت کے لیے ایک چیلنج ہی رہی ہیں۔ اس امر سے ہرگز انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پی آئی اے کو سیاسی بھرتیوں سے پاک پیشہ ور انتتظامیہ اور بھرتیوں کی سخت ضرورت ہے۔پیپلز پارٹی قیادت کو شاید برا لگے لیکن ان کا پی آئی اے کی تباہی میں کلیدی کردار نظر انداز ہر گز بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ بلا سمجھے سوچے پی پی کی حکمرانی میں قومی ائیرلائن میں دیہی علاقوں سے میرٹ کے خلاف بھرتیاں کی گئیں۔ جسکا خمیازہ آج ہم سب قومی سطح پر بھگت رہے ہیں اور اسی وجہ سے پی آئی اے میں اس وقت غیر ضروری اسٹاف دنیا کی کسی بھی ائیر لائن سے زیادہ ہے۔جو بجٹ جہازوں کی مینٹیننس اور مہارت پر خرچ ہونا چاہیے وہ اسٹاف کی تنخواہوں اور مراعتوں میں نکل جاتا ہے۔ نہ ہی پی آئی اے کے جہازوں کی کوئی مرمت ہے نہ فٹنس ہے کیونکہ پی آئی اے میں نہ صرف مالی بلکہ اخلاقی کرپشن عروج پر ہے۔ پی آئی اے میں جعلی بھرتیوں اور اسٹاف کی بدعنوانیوں کی کہانیا ں کسی سے ڈھک چھپی نہیں ہیں۔ پی آئی اے میں یونین مافیا اتنی مضبوط ہے کہ ان کے آگے پی آئی اے کی چئیرمین بھی بے بس ہیں۔
اب ذرا نظر ڈالتے ہیں پاکستان کی تاریخ کے ہونے والے چند چیدہ چیدہ حادثات پر
20 مئی 1965 پی آئی اے کا فوکر طیارہ قاہرہ میں دوران لینڈنگ گر کر تباہ ہو جس میں ہلاک ہوئے
2 اگست 1970 روات میں روالپنڈی کے قریب فوکر طیارہ گرنے سے 30 افراد جان بحق ہوئے
8 دسمبر 1972 ایک بار پھر راولپنڈی کے قریب فوکر طیارہ گرنے سے 26 افراد جان بحق ہوئے
نومبر 1979 کو حاجیوں واپس لاتے ہوئے پی آئی اے کا طیارہ طائف میں تباہ ہوگیا
اکتوبر 1986 کو پشاور کے قریب فوکر تباہ ہوا دونوں حادثات میں 200 کے قریب افراد جان بحق ہوئے
اگست 1989 کو پی آئی اے کا طیارہ گر کر تباہ ہوا آج تک ملبہ اور لاشوں کو معمہ حل نہ ہوسکا
ستمبر 1992 پی آئی اے کا طیارہ کھٹمنڈو میں گر کر تباہ ہوا جس میں 155 مسافر ہلاک ہوئے
جولائی 2006 میں پی آئی اے کا طیارہ ملتان کے قریب گر کر تباہ ہونے سے 41 مسافر ہلاک ہوئے
جولائی 2010 میں ائیر بلیو کی پرواز مارگلہ کی پہاڑیوں سے ٹکرا گئی جس میں 152 افراد جان بحق ہوئے
اپریل 2012 میں بھوجا ائیر لاینز کا کاطیارہ اسلام آباد میں گرا جس میں 127 افراد جان بحق ہوئے
نومبر 2010 میں ایک اور چھوٹا طیارہ گر کر تباہ ہوگیا جس میں 12 افراد جان بحق ہوئے
دسمبر 2016 میں ہری پور میں گر کر تباہ ہوا جس میں 48 افراد جان بحق ہوئے
جبکہ کراچی میں گرنے والے بدقسمت طیارے میں 97 افراد جان بحق ہوئے
اب ذر کراچی میں ا گرنے والے بدقسمت طیارے سے جڑے کچھ حقایق پر بات کرلیتے ہیں
کیا طیارہ پایلٹ کے اندازے کی غلطی سے گرا؟؟؟
ابتدائی تھقیقاتی رپورٹ کے مطابق ائیر ٹریفک کنٹرولر اور اپروچ کنٹرولر نے واضح طور پر یہ اس حادثے کو پایلٹ کی غلطی قرار دیا ہے ان کا کا کہنا ہے کہ بدقسمت طیارے کے پایلٹ نے ائیر ٹڑیفک کنٹرول کی ہدایات کو مکمل طور پر نظر انداز کیا ۔بیان کے مطابق پائلٹ نے دس ناٹیکل پر دی گیء ہدایات کو نظرانداز کردیا جبکہ ممکنہ طور پر پائلٹ لینڈنگ کے وقت بلندی اورفتار کنٹرول کرتے وقت لینڈنگ گئیر کھولنا بھول گئے تھے اور لینڈنگ کی کوشش کے دوران طیارہ رن وے سے ٹکرایا جبکہ دونوں انجن رن وے سے رگڑ کھانے کے بعد اس میں سے چنگاریاں اٹھنے لگیں اس وقت پائلٹ نے پھر ٹیک آف کا فیصلہ کیا جبکہ پائلٹ نے ایمرجنسی لینڈنگ کی درخواست نہیں کی اور کہا کہ وہ پرسکون ہے۔ اور بدقسمت طیارہ منزل سے منٹوں کے فاصلے پر ہونے کے باوجود منزل تک نہ جاسکا
پالپا کا موقف کیا ہے
.
اس ضمن میں جب ہم نے پالپا کا موقف جاننے کی کوشش کی اور ان سے ہوچھا کہ کیا یہ حادثہ پایلٹ کے ممکنہ اندازے کی فاش غلطی کا نتیجہ ہوسکتا ہے تو اس پر ان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ ہمیشہ کی طرح اصل ذمہ داروں کو بچانے کی مصدقہ کوشش ہے جبکہ ان کا کہنا تھا کہ حاد ثے کی تھقیقات کو یہ رنگ دینا اصل قصورواروں کی طرف سے دھیان ہٹانا ہے جبکہ انہوں نے اپنے مطالبے میں کہا ہے کہ وزیراعظم اور مشیر ہوابازی پی آئی اے کی موجودہ انتطامیہ کو شفاف تحقیقات تک غیر فعال کردیں اور تحقیقات غیر جانبدار ماہرین کے حوالے کردی جائیں انہوں نے اس تاثر کی سختی سے نفی کی کہ پائلٹ سجاد گل نے لاہور سے اڑان ہی غلط لی تھی۔
پی آئی اے کا موقف
پی آئی اے کے چئیرمین ارشد ملک کا کہنا ہے کہ دیارہ تکنیکی طور پر محفو ط تھا جبکہ تھقیقات بعد ہی صحیح صورتحال سامنے آسکے گی جب تک اندازوں قیاس آرائیوں سے پرہیز کرنا چاہیے یاد رہے کہ اس بدقسمت پرواز میں سے صرف دو لوگ معجزانہ طور پر بچ گئے ہیں جبکہ عملے سمیت کل نناوے افراد اس خونی سفر پر ساتھ تھے۔ جبکہ پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیط کا کہنا ہے کہ پی آئی اے غم زدہ خاندانوں کے دکھ میں برابر کی شریک ہے اور حادثے کے اصل محرکات کا تعین صرف اور صرف تحقیقات سے ہی ہوگا جبکہ تاحال محدود معلومات اور وڈیوز سے کوئی بھی نتیجہاخذ کرنا درست نہیں ہے۔
فلایٹ ریڈار سے جاری کردہ چارٹ اور پائلٹ کی ممکنہ فاش غلطی
بدقسمت طیارے کے بارے میں فلایٹ ریڈار سے جاری چارٹ میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ کراچی میں اس طیارے کی پرواز بے ربط اور عمودی ہے جبکہ لینڈنگ سے قبل طیارے کو کم از کم دو ہزار فٹ کی بلندی پر ہونا چاہیے تھا تاہم طیارے اس وقت دس ہزار فٹ کی بلندی پر تھا اور اسی وجہ سے طیارے نے اپنی بلندی تیزی سے کھودی اسی اندازے کی شدید ترین غلطی کے نتیجے میں پائلٹ کے پاس طیارہ بچانے کے نہایت کم آپشنز رہ گئے تھے جبکہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ پائلٹ کی لینڈنگ اپروچ تو غلط ہوجکی تھی اور ایسی صورتحال میں اس طیارے کو کسی بھی صورت لینڈنگ کی اجازت نہیں دینا چاہیے تھی۔ جب پائلٹ سے پوچھا گیا تھا کہ وہ بیلی لینڈنگ کرنا چاہتے ہیں تو انہوں ے اس کا جواب نہیں دیا تھا۔
طیارہ اڑان کے لیے بلکل درست حالت میں تھا؟
بدقمست طیارے کے حوالے سے ایک اور بات کا چرچا رہا اور وہ یہ تھی کہ کیا طیارہ فٹنس کے معیار پر پورا اتررہا تھا اور اڑان کے لیے تیار تھا؟ اس سلسلے میں چیرمین پی آئی اے کا موقف بلکل واضح ہے کہ طیارہ تکنیکی لحاظ سے بلکل درست تھا ان کے موقف کی اس بات سے بہر حال تائید ہوتی ہے کہ طیارے کے انجن نے رن وے پر رگڑ کھانے اور چنگاریاں پکڑنے کے باوجود طیارے کو کم از کم تین ہزار فٹ تک کی بلندی تک پہنچادیا۔ دوسری جانب لینڈنگ گئیر میں خرابی کا ٹاثر بھی زائل ہوتا نظر آتا ہے کیونکہ پایلٹ نے لینڈنگ گئیر کھولے تھے جس کی وجہ سے ہی طیارہ فضائی رگڑ کھاکر زمین بوس ہوا۔
رن وے سے دوبارہ اڑان بھرنے کافیصلہ کیا درست تھا؟
اس سلسلے میں جب ہم نے ماہر ایوی ایشن سے بات کی تو انہوں نے نام نہ بتانے کی شرط پر پایلٹ کی اس فیصلے پر شدید تنقید کی کہ جب طیارہ رن وے تک آگیا تھا تو اس کو دوبارہ اڑان بھرنے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ کوشش کرنا چاہیے تھی کہ انجن بند کرکے کسی نہ کسی طرح طیارے کو رن وے پر ہی لینڈ کرنے کی کوشش کی جاتی اور اس طرح جانی مالی نقصان سے بچا جاسکتا تھا
کیا اس بار تحقیقات شفاف ہونگی
بدقسمتی سے جب ببھی پاکستان میں کسی بھی حادثے واقعے یا پھر معاملے کی تحقیقات کی جاتیں ہیں زیادہ تر اس کا نتیجہ ایک پہیلی ہی رہ جاتا ہے یا وقت کی بھول بھلیوں میں گم ہوجاتا ہے تاہم اس بار طیارہحادثے تحقیقات کے لیے فرانس کی ائیر بس ماہرین کی ٹیم بھی آئی ہے جبکہ پاکستان نے بھی اپنی اعلی سطحی تحقیقاتی ٹیم بنادی ہے جو اس واقعے کی باریک بینی سے چھان بین کریگی جبکہ وزیر شہری ہوابازی غلام سرور نے بھی کہا ہے کہ طیارہ حادثے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ 22 جون کو عوام اور پارلیمنٹ میں پیش کی جائیگی انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وزیراعظم کی منظوری سے جو تحقیقاتی بورڈ تشکیل دیا گیا ہے اس میں پاک فضائیہ کے آفیشلز بھی شامل ہیں جبکہ بورڈ کو اجازت جس کو چاہے اس کو تحقیقات کے لیے طلب کرے انہوں نے لواحقین کو یہ بھی یقین دلایا ہے کہ طیارہ حادثے کی شفاف انکوائری کی جارہی ہے۔
تاہم یہ وعدے دعوے او ر ارادے کویہ نئے تو ہے نہیں جو اس قوام نے پہلی بار سنے ہوں اور نہ ہی یہ کوئی یہ ی پہلا دکھ ہے جو اس قوم نے جھیلا ہو لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس بار اس مبینہ غفلت کے کرداروں کو سامنے لاکر ان کے خلاف تادیبی کاروائی کرنا چاہیے جبکہ پی آئی اے کے حالات درست کرنے کے لیے کوئی واضح پالیسی عمل میں لانا چاہیے تاکہ اس طرح کے سنگین حادثوں کا تدارک ہوسکے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ