نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حیدر بخش جتوئی کے اصحابی ہاری ورکرز (3)۔۔۔۔ حسن مجتبیٰ

ہاریوں کے حقوق کے چلتے پھرتے اگلا مورچہ اور اسکا سپاہی۔ حیدر بخش جتوئی اور انکے ساتھی انہیں انکے نام اور کاموں کی وجہ سے “پیران پیر” کہتے۔

مولوی کامریڈ نذیر حسین جتوئی: جیسا میں نے پہلے بھی ان پر لکھتے ذکر کیا تھا کہ یہ شاعری میں جلالی تخلص رکھتے تھے اور فارغ التحصیل دیوبندی عالم بھی تھے، تو کامریڈ بھی کہلائے جاتے تھے۔ انہوں نے ایک مزیدار زبان اور سیاسی لغت ایجاد کی ہوئی تھی۔ ایک دفعہ کسی وڈیرے کے پاس فیصلے میں گئے جب ایک سید پر ایک بچے کیساتھ ریپ کا الزام تھاا۔ فیصلہ کرنے والا بھی سید تھا، جس نے ملزم کے حق میں فیصلہ دیا تو اس پر مولوی نذیر حسین جتوئی نے کہا کہ یزید پر میں سب سے زیادہ لعنت بھیجتا ہوں۔ اس لیے کہ لعنتی تو وہ رہتی دنیا تک ویسے ہی ہونا تھا، تو پھر اس نے باہتر کو قتل کر کر ایک امام کو کیوں زندہ چھوڑ دیا، وہ بھی بیمار کو۔ نہ وہ ہوتا نہ ہم لوگ سیدوں میں پھنستے، کہ وہ ایسے کام کر رہے ہیں۔

وہ لاڑکانہ کے قریب گائوں کے تھے اور ذوالفقار علی بھٹو کی بھی ان سے گاڑھی چھنتی تھی۔ ایک دفعہ کسی وڈیرے نے ان سے پوچھا کہ سر پر انہوں نے کانگریسی ٹوپی کیوں پہنی ہوئی ہے؟ تو انہوں نے کہا یہ کانگریسی نہیں کامریڈوں کی ٹوپی پے۔ تو وڈیرے نے کہا وری کامریڈ کیا ہوتے ہیں۔ تو جواب میں انہون نے کہا کامریڈ وہ ہوتے ہیں جو اگر سوئر انکے سامنے گذرے تو صلوات پڑہتے ہیں وڈیرہ نظر آئے تو لاحول۔

عبدالقادر انڈھڑ: یگانہ روزگا و یکتہ عالم قسم کے انسان تھے۔ سادہ سستا پشاوری چپل کھدر کی شلوار قمیص کا جوڑا، واسکوٹ جس کے کاج میں زنجیری کے ساتھ اندرونی جیبی گھڑی قراقلی ٹوپی، گھنی کالی سفید داڑھی ہاتھ میں چرمی تھیلہ جس میں کاغذوں کے پلندے۔ پتلی نفیس آواز لیکن ہر وقت بحث ہر آمادہ۔ یہ تھے کامریڈ عبدالقادر انڈھڑ۔

الھبچایو، کامریڈ عبدالقادر اندھڑ، سائیں جی ایم سید اور سمیع بلوچ

ہاریوں کے حقوق کے چلتے پھرتے اگلا مورچہ اور اسکا سپاہی۔ حیدر بخش جتوئی اور انکے ساتھی انہیں انکے نام اور کاموں کی وجہ سے “پیران پیر” کہتے۔ انکا تعلق پنو عاقل کے روحا نی خاندان سے تھا۔ یہ جو پنوعاقل چھاؤنی ہے ضیاء الحق کی فوجی آمریت کے دنوں میں چھاؤنی والےعلاقے میں آنیوالی زمینوں اور قصبوں کے مالکان ہاریوں اور گوٹھوں کے لوگوں کو انکے معاوضہ جات اور حقوق دلوانے کیلئے اپنے ساتھیوں کے ساتھ زبردست جدوجہد کی۔ وہ ملٹری ایسٹیٹس اور محمکہ دفاع کیخلاف ہاریوں کے حق میں عدالتوں تک گئے جن میں انکا وکیل شیخ ایاز تھا جس نے کوئی فیس نہیں لی۔ اس سے قبل ایوب خان کے زمانے سے بھٹو تک پنو عاقل میں ریٹائرڈ چاہے حاضر سروس سول و فوجی بیوروکریسی کو دی گئی انعا و نیلام میں زمینوں کی الاٹمنٹ کیخلاف ہاریوں کی جدوجہد کے اگلے مورچوں پر رہے یہ زمینیں یہاں ٹکا خان، آغا شاہی، آغا ہلالی، اصغر خان ، اور حفیظ پیرزادہ جیسے لوگوں کی تھیں۔ شاید اب بھی ہیں۔ انکے فارمز پر ہاریوں کی حالت پتلی تھی۔ دیہہ صالحانی اور سدھوجا کے جنگلات کاٹ کر فارمز بنائے گئے ۔ وہاں کے ہاریوں نے کامریڈ عبدالْقادر انڈھڑ کی قیادت میں عدم تشدد پر مبنی جدوجہد کی جس میں عدالتی جنگ بھی شامل تھی۔پنوعاقل کے ہاریوں کی ایسی جدوجہد کی خبریں بین لالقوامی میڈیا پر بھی آئی تھیں۔ یہ بھی کامریڈ عبدالقادر، قاضی فیض محمد اور مولوی نذیر حسین جتوئی تھے جنہوں نے ہاریوں کے حق میں اسوقت کے گورنر دین محمد سے زمین پر ہاری کے مستقل حقوق کا سندہ ٹینیسی ایکٹ منظور کروایا تھا۔ کامریڈ عبدالقادر جی ایم سید کے بھی بہت قریب تھے۔ بلکہ کامریڈ عبدالقادر انڈھڑ جیسے لوگوں کو یوپی سی پی سے نقل وطنی کرکر آنیوالی کمیونسٹ لیڈرشپ نے کبھی پذیرائی نہیں دی کیونکہ وہ اپنی دھرتی اور لوگوں سے جڑے ہوئے تھے۔ عبدالقادر انڈھڑ جی ایم سید کے بھی بہت قریب تھے۔ وہ پنوعاقل کے تب نوجوانوں اور میرے دوست عاشق سومرو کو اپنے ہمراہ لیکر کراچی میں شیخ مجیب الرحمان کے اعزاز میں جی ایم سید کی طرف سے دیے جانیوالے استقبالیہ میں کراچی گئے تھے۔ س تقریب میں حیدر بخش جتوئی بھی شریک تھے جنہیں اس تقریب کے اختتام پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔ شیخ مجیب الرحمان، باچا خان، جی ایم سید، ولی خان اور بزنجو ا لگ بھی کامریڈ عبدالقادر اور انکی ساتھیوں کی جدوجہد کی وجہ سے پنو عاقل میں جلسوں سے خطاب کر چکے تھے۔ ون یونٹ ٹوٹنے کی دوسری سالگرہ پر لسانی فسادات کے دوران انہوں نے جی ایم سید کو پنو عاقل میں جلسے سے خطاب کو مدعو کر رکھا تھا کہ سید کو سکھر میں دل کا دورہ پڑا ہوا اور سید پر نظربندی کے احکامات کی بھی بھٹو حکومت کی طرف سے تعمیل کیے گئے۔

جاری۔۔

About The Author