چار ھزار سے زائد لوگوں کا ایک دن میں کورونا مرض میں مبتلا ہونا اور ایک ہی دن میں 67 لوگوں کا جاں بحق ہو جانا ( اور یہ سرکاری اعداد و شمار ہیں، کیونکہ اب لوگوں کی بڑی تعداد اس بیماری اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کو چھپا رہی ہے)۔ پاکستان میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کورونا مریضوں کی کل تک کی تعداد 80,463 تک پہنچ چکی تھی۔ ساتھ ہی پاکستان کا کوئی صوبہ ٹڈی دل سے محفوظ نہیں ہے۔ جس تیزی سے کھڑی فصلیں تباہ ہو رہی ہیں انہیں دیکھ کر آسانی سے کہا جا سکتا ہے کہ جو جنتا کورونا سے بچے گی وہ قحط سالی سے موت کے منہ میں جائے گی۔
معیشت 68 سالوں میں پہلی بار منفی زون میں داخل ہو رہی ہے۔ اندرونی اور بیرونی قرضے آسمان کو چھو رہے ہیں۔ جتنے قرضے، قرضے نہ لینے کے نعروں پر آنے والی سرکار نے لیے ہیں، اتنے قرضے کسی حکومت نے اتنی مختصر مدت میں نہیں لیے۔ ملک کی آدھی آبادی غربت کی لکیر کے نتیجے جا رہی ہے۔
ہر چیز پر، حتاکہ تجہیز و تکفین پر ٹیکس لگانے کے باوجود، یہ حکومت اتنے ٹیکس بھی جمع نہیں کرسکی کہ قرضہ جات کی پرنسپل رقم، سود، دفاع اور وفاقی سرکار کے ملازموں کی تنخواہ ادا کر سکے۔ پچھلے 23 ماہ میں جس بیروزگاری نے جنم لیا ہے، اتنی بیروزگاری تاریخ میں کبھی نہیں آئی۔
آئے دن کوئی نہ کوئی سکینڈل جو موجودہ سرکار کی بدعنوانی اور گھامڑپن کے حسین سنگم سے جنم لیتا ہے، پاکستانیوں کا منہ چڑا رہا ہوتا ہے۔ کبھی گیس کی قیمتوں، کبھی بجلی، کبھی دوائیوں، کبھی چینی، کبھی آٹا، کبھی پٹرولیم مصنوعات۔ سکینڈلوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔
خارجہ پالیسی ہے کہ گھڑیال کے پینڈولم کی طرح مخالف سمتوں میں ڈول رہی ہوتی ہے۔ کبھی چین ناراض، کبھی سعودی عرب، کبھی امریکہ، کبھی ترکی، کبھی ملیشیا اور کبھی ایران۔ ہر روز ملتانی پیر کوئی نئی ڈگڈگی بجاتے ہیں اور ہر روز کوئی نیا تماشہ کھڑا ہوتا ہے، خارجہ پالیسی اتنی کامیاب ہے کہ کشمیر پر قبضہ مکمل ہوگیا لیکن مسلم ممالک میں ماسوائے ایران اور ترکی کے کوئی ملک ہمارے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار نہیں ہے۔ اور ان ممالک کو بھی ہم آئے دن شرمندہ کرتے رہتے ہیں اور خود شرمندہ ہوتے رہتے ہیں۔
کوئی بڑے سے بڑا سانحہ ہو جائے ہمارے “خوبرو” وزیر اعظم کے ماتھے پر بل نہیں پڑتا۔ کورونا کے بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کیساتھ عید کے موقعے پر ایک سو کے قریب لوگوں کے ھوائی حادثے میں جاں بحق ہونے کے بعد موصوف پُرسہ دینے کی بجائے “ھٹا بچو” قافلے میں نتھیا گلی کے اس ٹھنڈے ریسٹ ھائوس میں تشریف لے گئے جنہیں سیاحتی مراکز اور تعلیمی اداروں میں تبدیل کرنے کے نعروں پر وہ حکومت میں آئے تھے۔ اس پوری بے حسی کے ساتھ ساتھ، موصوف نتھیا گلی سے واپس آکر ملک و قوم کو درپیش، اوپر بیان کیے گئے مسائل کا مقابلہ کرنے کی بجائے میڈیا سٹرٹیجی کا اجلاس طلب کرتے ہیں۔
اس کے بعد شیخ رشید،فواد چودھری، فیاض چوہان، زرتاج گل، مراد سعید، شھباز گل، فیصل واوڈا، عمران اسماعیل، شبلی فراز اور علی محمد خان جیسے وزرا کے منہ سے جھاگ نکلنی شروع ہوجاتی ہے اور ساتھ ہی نیب کی پھرتیاں شروع ہو جاتی ہیں اور وہ حزب اختلاف اور تنقیدی آوازوں کو دبانے میں سرتاپا مصروف ہو جاتی ہے۔ رمضان کے دوران شیخ رشید عید کے بعد حزب اختلاف کے مختلف رھنماؤں کو نیب کی طرف سے گرفتاری کی خبر دے چکے تھے۔ اب بلاول بھٹو اور مراد علی شاھ کی طلبی کے ساتھ ساتھ آصف زرداری اور نواز شریف کو دوبارہ احتساب عدالت میں طلب کیا گیا ہے۔ نواز شریف کے تو وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے گئے ہیں جبکہ ان کی بیرون ملک روانگی اعلیٰ عدلیہ کی مداخلت کے بعد ہی ممکن ہوئی تھی۔ ابھی یہ معاملہ چل رہا تھا کہ کل شھباز شریف کے گھر پر ڈرامائی گرفتاری کی مشق کی گئی۔ یہ سب کچھ ایسے وقت کیا گیا جب ان کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست لاھور ھائی کورٹ میں نہ صرف زیر سماعت تھی بلکہ آج اس پر فیصلہ بھی ہونا تھا۔ نیب کل ان کو گرفتار نہ کر سکی لیکن خوب سرکس لگا۔ آج بھی جس طرح انتظامیہ نے لاھور شہر کی ناکہ بندی کی، پنجاب کے ن لیگ کے صدر، سابق صوبائی وزیر قانون اور رکن قومی اسمبلی رانا ثنا اللہ کے ساتھ بد تمیزی کی اور یہی ھتھکنڈے باقی لیگی رھنماؤں کیساتھ، جن میں احسن اقبال اور سابق وزیر اعظم شاھد خاقان عباسی بھی شامل تھے، استعمال کیے گئے، اس سے ایک بار پھر سرخیاں ملک کو درہیش اصل مسائل کی بجائے اس پکڑ دھکڑ اور اس کیخلاف لیگی رھنماؤں کے بیانات اور حکومتی بھونپؤں کے جوابی بیانات پر منتقل ہو گئیں۔
دوسری طرف میڈیا پر حکومتی دباؤ اسی طرح برقرار ہے۔ جنگ اور جیو گروپ کے سربراہ میر شکیل الرحمان 84 دن گذرنے کے باوجود ابھی تک نیب کی قید میں پابند سلاسل ہیں۔ چونتیس سالہ پرانہ واقعہ جس کا نہ سر ہے اور نہ پیر لیکن نیب ملکی اور غیر ملکی احتجاج کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہوئی۔
اب یہ بات واضح ہے کہ عمران سرکار ملکی خطرات اور چیلینجوں کا نہ سامنا کر سکتی ہے اور نہ قومی بیانیہ اپنا سکتی ہے۔ عمران سرکار اس پر یقین رکھتی ہے کہ مسائل حل نہ کرو لیکن ایسے نئے تنازعات کھڑے کرو جس سے لوگوں کی توجہ کہیں اور منتقل ہو جائے۔ یہ سرکار سمجھتی ہے کہ ہر روز ٹرک کی نئی بتی اور نئی ھیڈلائن بنانے سے اصل مسائل کو حل کرنے کی کوشش سے بچا جا سکتا ہے۔ یہ حکمران ٹولہ سنجیدگی سے سمجھتا ہے کہ پروپیگنڈہ بازوں، جگت بازوں، رنگ بازوں، آنکھیں بند کر کے جھوٹ بولنے والوں اور ھوشربا الزامات لگانے والوں کی فوج رکھ کر، ریاستی دباؤ کو استعمال کر کے طویل عرصے تک حکمرانی کی جا سکتی ہے۔ بدقسمتی سے آج کے دور میں اس طرح کے حکمران صرف ہمارے ملک میں نہیں ہیں بلکہ یہ آج کا عالمگیر مظہر ہے۔ یہ بیماری بھی کورونا کی طرح عالمگیر ہے۔ جمھوریت کا خسارہ آج ایک عالمی وبا ہے۔ اس طرح کے بونا پارٹ آج آپکو امریکہ سے برازیل تک اور پاکستان سے بھارت تک نظر آتے ہیں۔ آج کے دور کے نئے تانا شاہوں نے گوئبلز کو بھی شرما دیا ہے۔
ہر ملک اپنے مسائل کو اپنی معیشت، سیاست، جمھوری روایات اور ریاستی اداروں کی طاقت سے نمٹے گا۔ ہمارے ملک کی تاریخ اور مسائل منفرد ہیں۔آج ہم تاریخ کے تاریک مقام پر کھڑے ہیں۔ آج ہم 1971 کے بعد کمزور ترین مقام پر ہیں۔ اور ہماری بدقسمتی یہ بھی ہے کہ آج ہمیں ذوالفقار علی بھٹو، ولی خان غوث بخش بزنجو اور نوابزادہ نصراللہ خان جیسے قد آور رھنما بھی میسر نہیں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی گہری ریاست کے رکھوالوں نے ماضی کے المیوں اور تاریخ کے ہچکولوں سے ایک ہی سبق سیکھا ہے کہ ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھنا۔
آج بھی سن پچاس کے ایبڈو اور پراڈو جیسے گھسے پٹے حربے استعمال کیے جار رہے ہیں۔
ہمارے ہاتھ اور پاؤں بندھے ہیں اور ہم ٹائم بم رکھے کمرے میں پڑے، ٹک ٹک کی آواز سن رہے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر