ہمارے ہاں ہر دوسرے روز کوئی ایسا واقعہ ہوجاتا ہے جو سوشل میڈیا پر متحرک انسان دوست پارسائوں کو ’’بکائومیڈیا‘‘ کی ’’مجرمانہ خاموشی‘‘ یاد دلانے کو مجبور کردیتا ہے۔انسان دوست پارسائوں کے اس حوالے سے بھڑکائے غضب کو میں منطق کے بھرپور استعمال کے باوجود ابھی تک سمجھ نہیں پایا ہوں۔خلقِ خدا کی اکثریت کو اگر واقعتا کسی ’’خبر‘‘ سے آگہی درکار تھی تو سمارٹ فونز کی بدولت بنائی وڈیوز کے ذریعے وہ منظرِ عام پر آجاتی ہے۔اس حوالے سے ہر نوع کے انسانی جذبات کا مغلظات بھرے تبصروں کے ذریعے اظہار بھی ہوجاتا ہے۔’’بکائو میڈیا‘‘نے اگر مذکورہ ’’خبر‘‘ کو نظر انداز کردیا تو اس کی مذمت میں اپنا وقت ضائع کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے؟
اس مذمت کی غالباََ ایک ہی وجہ ہوسکتی ہے اور وہ یہ کہ سوشل میڈیا پر چھائے انسان دوست پارسا عوام کو اس امر پر اُکسانا چاہ رہے ہوتے ہیں کہ وہ مجھ جیسے صحافیوں سے نفرت کریں۔ہماری لکھی کسی بات کوسنجیدگی سے نہ لیں۔یہ بات لکھنے کا باعث ہوئے ’’لفافے‘‘ کا بلکہ سراغ لگائیں۔’’حقائق‘‘ جاننے کے لئے ان کے چلائے یوٹیوب چینل سے رجوع کریں۔اس کو Subscribeکریں۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک Shareکے ذریعے پہنچائیں۔ ’’صحافت‘‘ کی دواقسام کے مابین مسابقت کی جنگ چھڑی نظر آتی ہے۔ روایتی صحافتی ادارے کے لئے کل وقتی بنیادوں پر کام کرتے ہوئے محض تنخواہ کے ذریعے رزق چلانے والے ’’صحافی‘‘ کا مقابلہ یوٹیوب کی بدولت ہوئی Monetizationسے ہورہا ہے۔یوٹیوب Clicksکی بنیاد پر آپ کو رقوم فراہم کرتا ہے۔بنیادی حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ صحافتی اخلاقیات کی کامل پابندی کرتے ہوئے یوٹیوب چینل کو مناسب Clicksمیسر نہیں ہوتیں۔سنسنی خیزی اور واہی تباہی ہی رونق لگاتی ہے۔اس کے ذریعے لوگوں میں محض غصہ اور نفرت کے جذبات ہی بھڑکائے جاتے ہیں۔
2020کی دہائی کے آغاز میں نام نہاد Citizen Journalismکا آغاز ہوا تھا۔تیونس میں ایک خوانچہ فروش نے پولیس کی بھتہ خوری سے تنگ آکر خود کو آگ لگالی۔ اس کی تصویر سوشل میڈیا کے ذریعے وائرل ہوئی تو ’’عرب بہار‘‘ پھوٹ پڑی۔ اس نام نہاد ’’بہار‘‘ کا انجام کیا ہوا؟ اسے سمجھنا ہو تو آج کے مصر پر مسلط ہوئی خاموشی پر غورکرلیں۔ شام میں جاری خانہ جنگی کو یاد کریں۔ یمن میں بھوک سے بدحال ہوئے لاکھوں بچوں کی اموات کو ذہن میں لائیں۔
ان حقائق پر سنجیدگی سے غور کریں تو بآسانی دریافت کیا جاسکتا ہے کہ نام نہاد Citizen Journalism ہیجان کی جو آگ بھڑکاتا ہے اسے بالآخر حکمران اشرافیہ اپنے زیر نگین ممالک میں آمریت کو مضبوط تر بنانے کے جواز کے طورپر استعمال کرتی ہے۔عام انسانوں کی اکثریت جبلی طورپر ’’سکون‘‘ کی متلاشی ہوتی ہے تاکہ وہ اپنے روزمرہّ دھندے پر کامل توجہ دے سکے۔ اس توجہ کو یقینی بنانے کے لئے وہ حکمران اشرافیہ کی نازل کردہ سنسرشپ کو بغیر کوئی سوال اٹھائے ’’جائز‘‘ تصور کرتے ہوئے قبول کرلیتی ہے۔معاشرے میں بہتری لانے کے لئے ذہنوں میں کشادگی لانے کے جو امکانات میسر نظر آتے ہیں وہ بتدریج معدوم ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔قصہ مختصر ’’ہرچمکتی شے سونا نہیں ہوتی‘‘ اس پہلو کی حقیقت کو نگاہ میں رکھیں تو کئی حوالوں سے ’’بکائو میڈیا‘‘ کی ’’مجرمانہ خاموشی‘‘ Citizen Journalismکے مقابلے میں برداشت کرلینا مناسب محسوس ہوتا ہے۔
Citizen Journalismکی بدولت بالآخر حکمران اشرافیہ کے جبر کو مضبوط تر بناتے امکانات میرے ذہن میں ان دنوں امریکہ کے کئی شہروں میں چار دنوں سے جاری مظاہروں کی وجہ سے ایک بار پھر بڑی شدت سے رونما ہوئے ہیں۔امریکہ کے تقریباََ قلب(Mid West)میں واقعہ ایک شہر ہےMinneapolis۔عمومی اعتبار سے خوش حال تصور ہوتے اس شہر میں سیاہ فام آبادی کا تناسب 20فی صد ہے۔ وہ جن بستیوں میں آباد ہیں انہیں ’’جرائم کا گڑھ‘‘ تصور کیا جاتا ہے۔اس شہر کی 92فی صد پولیس سفید فام لوگوں پر مشتمل ہے۔ ان کی اکثریت اس شہر کی باسی نہیں۔اِردگرد کے Suburbsسے آئی ہے جہاں بسے خاندان نسل پرستی پر مبنی عصبیت کی طویل تاریخ کے حامل ہیں۔
گزشتہ ہفتے اس شہر کے ایک مقام پر جارج فلائیڈ نامی سیاہ فام نوجوان کو گلیوں میں گشت کرتی پولیس کی ایک ٹولی نے مشتبہ تصور کرتے ہوئے زمین پر پٹخ دیا۔ اس کی گردن پر Derek Chauvinنامی ایک وردی پوش جوان نے اپنا گھٹنا جمادیا۔ زمین پر گرا نوجوان فریاد کرتا رہا کہ اس کا سانس گھٹ رہا ہے۔پولیس والے کے دل میں لیکن رحم نہیں آیا۔ بالآخر اس جوان کی دم گھٹنے کی وجہ سے ہلاکت ہوگئی۔یہ منظر کسی Citizen Journalist نے اپنے کیمرے پر ریکارڈ کرلیا۔ اس کی بنائی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو مظاہروں کا طوفان امڈ آیا۔ Chauvinاپنے ساتھیوں سمیت معطل ہوا۔ ان کے خلاف قتل کے الزام میں مقدمے کی تیاری ہورہی ہے۔ صاحبِ دل لوگ مگر مطمئن نہیں ہوئے۔
صدر ٹرمپ بذاتِ خود ٹویٹر کے بے دریغ استعمال کے ذریعے نفرت کی آگ بھڑکاتے ہوئے وائٹ ہائوس تک پہنچا ہے۔وہ مگر اب ’’امن وسکون‘‘ کا متلاشی نظر آنا چاہ رہا ہے۔ Minneapolisکا تعلق Minnesotaریاست سے ہے۔اتفاق سے اس ریاست کا گورنر اور شہر کا میئر ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔متعصب صدر کو لہذا جواز تراشنا آسان ہوگیا کہ گورنر اور میئر کی مشترکہ ’’نااہلی‘‘ حالات پر کماحقہ انداز میں قابو پانے میں ناکام رہی۔ اس کا اصرار ہے کہ امریکی فوج وہاں جاکر امن وامان بحال کرے۔امریکی فوج کے دستے فسادزدہ شہر سے چار گھنٹوں کی مسافت پر موجود ہیں۔ ریاست میں داخل ہوکر امن وامان بحال کرنے کے لئے مگر انہیں امریکی آئین کے تحت گورنر کی اجازت درکار ہے۔گورنر نے ابھی تک یہ اجازت نہیں دی۔ فوج سے ریٹائر ہوئے افراد پر مشتمل شہری دفاع جیسی ’’رضاکارانہ‘‘تنظیم کی خدمات پر انحصار کرنے کو بضد ہے۔ یوں گماں ہوتا ہے کہ شاید اپنی ریاست امریکی فوج کے حوالے کئے بغیر ہی وہ کڑے کرفیو کے ذریعے امن وامان بحال کرنے میں بالآخر کامیاب ہوجائے گا۔
بات فقط ایک امریکی شہر تک ہی محدود نہیں رہی ہے۔فساد زدہ شہر کی پولیس اگرچہ اپنی یونین کے فیصلے کے تحت ’’ہڑتال‘‘ پر جاچکی ہے۔وہ سڑکوں سے غائب ہوئی تو سیاہ فام نوجوانوں کے ہجوم قیمتی اشیاء بیچتی دوکانوں کو لوٹنے کے بعد انہیں آگ لگانے میں مصروف ہوگئے۔کئی خوش حال (سفید فام)گھر بھی ان کے طیش کی زد میں آئے۔ٹرمپ کے حامی میڈیا نے ’’لوٹ مار‘‘ کے ان مناظر کو مکارانہ مہارت سے سوشل میڈیا ہی کے ذریعے وائرل کیا۔ مقصد اس کاوش کا سفید فام اکثریت کو باور کروانا ہے کہ امریکی سیاہ فام آبادی کی اکثریت جبلی طورپر ’’مجرمانہ ذہنیت‘‘ کی حامل ہے۔یہ ٹیلنٹ کے استعمال اور دن رات محنت کے ذریعے ’’حلال رزق‘‘کمانے کی عادی نہیں۔چوری چکاری اور لوٹ مار اس کی سرشت میں شامل ہیں۔
سیاہ فام امریکی اور ان کے درد کی تاریخی وجوہات سے باخبر سفید فام ان واقعات سے پریشان ہوگئے ہیں۔جذبات سے بپھرے نوجوانوں سے فریاد کررہے ہیں کہ وہ اپنے غم کو طیش میں بدل کر وحشیانہ انتقام لیتے نظر نہ آئیں۔ اپنے جذبات پر قابو پائیں۔منظم اور پرامن سیاسی تحریک کے ذریعے امریکہ میں ایک ایسے نظام کی جدوجہد جاری رکھیں جواس ملک کے تمام شہریوں کی برابری کو یقینی بنائے۔ پولیس کی نسل پرست چیرہ دستی کو قابل تعزیربناتے ہوئے انصاف کے حصول کا اہتمام کرے۔
غیض وغضب کے اس موسم میں ان کی بات مگر سنی نہیں جارہی۔ صدر ٹرمپ اس حساس موقعہ پر ذمہ دارانہ بردباری دکھانے کے بجائے اپنے حامیوں کو اشتعال دلاتا نظر آرہاہے۔انتخابی مہم کے دوران اس کا نعرہ تھا:Make America Great Again۔یہ نعرہ اب MAGAکہلاتا ہے۔ٹرمپ کے حامی اسے ایک تحریک تصور کرتے ہیں۔اپنی ٹی شرٹس پراسے لکھواتے ہیں۔ہفتے کی شام امریکی صدر انتہائی ڈھٹائی سے ایک ٹویٹ لکھ کر انتظار کرتا رہا کہMAGAکے حامی اتوار کے روز وائٹ ہائوس کے باہر بھاری بھر کم تعداد میں جمع ہوجائیں تاکہ ایوان صدر کے باہر مظاہرے کرتے ’’تخریب کاروں‘‘ کی حوصلہ شکنی ہو۔اپنے ہی ملک میں خانہ جنگی بھڑکاتے ’’حکمران‘‘ تاریخ میں شاذہی نظر آئے ہیں۔ دورِ حاضر میں لیکن ٹرمپ ہی نہیں بہت سے ووٹوں کی اکثریت سے ’’منتخب‘‘ ہوئے حکمران نمودار ہوچکے ہیں جو اپنے حامیوں کو ’’شیر‘‘ بننے پر اُکساتے رہتے ہیں۔خود کو سب کے لئے ’’قابل قبول ‘‘مائی باپ جیسا سربراہ بنانے کی بجائے اپنے سیاسی خالفین کو ’’عبرت کا نشان ‘‘بنانے کے جنون میں مبتلا ہیں۔
جبلی طورپر ٹرمپ ایک بہت کائیاں شخص ہے۔اسے بخوبی علم ہے کہ کرونانے اس کے ملک پر جو بحران مسلط کیا اس نے یہ حقیقت بہت وحشت سے عیاں کردی ہے کہ دنیا بھر میں ’’تہذیب،انسانی حقوق اور عمومی خوش حالی‘‘ کی ’’جنت‘‘ شمار ہوتے امریکہ میں گزشتہ کئی دہائیوں سے امیر امیر سے امیر تر ہوتے چلے جارہے ہیں۔بے بس عوام کی بے پناہ اکثریت کا کوئی والی وارث نہیں۔نیویارک جیسے شہر میں کرونا کی وجہ سے ہوئی اموات کے انبار وہاں کے غریب محلوں تک ہی محدود رہے جہاں سیام فام اکثریت آباد ہے۔یہ لوگ دیہاڑی دار ہیں۔روزکی روٹی روز کمانے پر مجبور۔کرونا کی وجہ سے معاشی عدم مساوات کی بابت جو بنیادی سوالات بہت شدت سے اٹھنا شروع ہوگئے تھے امریکہ کی اشرافیہ ان کے جوابات فراہم کرنے کو مجبور ہوسکتی تھی۔امیر اور غریب میں طبقاتی بنیادوں پر جو حتمی جنگ ہوسکتی تھی اسے بدقسمتی سے نسل پرستی کی بنیاد پر بھڑکائے فسادات آئندہ کئی برسوں تک مؤخر کرنے میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر