(سپین ) بارسلونا کے شہر کو اپنی لیٹ میں لیتے ہوئے سلگتے دھوئیں کے بادل ۔۔۔۔۔ نفرت و جدوجہد کا ایسا اظہار جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینا ھے ۔۔۔۔۔
بارسلونا میں نسان فیکٹری مالکان کی طرف سے تین ہزار ملازمتیں ختم کرنے پر نسان فیکٹری کے ملازمین کا احتجاج ۔۔۔۔۔۔۔
یہ دھواں محض دھواں نہیں ھے محنت کشوں کے سالوں سے مسلسل اور بلا توقف استحصال کے ہاتھوں جبر سہتے دلوں کے غبار کا اظہار ھے۔ جو نفرت کے بادل بن کے جو اس وقت چھایا ہوا تو بارسلونا کی فضاؤں میں ھے۔ مگر یہ چتاونی پوری دنیا کے لٹیروں کیلئے ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ دھواں دھواں سا منظر اس ادراک کا منظم اجتماعی اظہار ھے کہ جو محنت کش طبقہ انفرادی طور پر بیماریوں کے سامنے بے بس ہو کر، غربت اور مہنگائی کے نتیجہ میں ابھرنے والی جہالت ، بد امنی، بے روزگاری اور بھوک کی شدت کے آگے بے بس ہوکر اپنے گھر کے بجھتے چلھوں کے گرد ، کسی سڑک ، سکول، پارک، کھیت یا فیکٹری میں بیٹھ کر کرتے رہتے ہیں لیکن شاید ان کو تب یہ علم نہیں ہوتا کہ ان ذلتوں کا سبب کونسا طبقہ یا نظام ھے؟
محنت کشوں کا کوئی بھی بڑا احتجاج دراصل کسی صحیح دشمن کے پہلی بار نشانے پہ آ جانے کی خوشی کا نام ہوتا ھے۔ محنت کشوں کے احتجاج کی فتح و شکست بعد کی باتیں ہوتی ہیں۔ جن کے کئی مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں ۔
طبقاتی نظام میں بحران سرمایہ داروں کے شرح منافع (منافع در منافع ) میں کمی کا نام ہوتا ھے۔ سرمایہ دار طبقہ اس قدر خبیث اور بد معاش ہوتا ھے کہ وہ اپنی مسلسل اور بھیانک ہوس کے ہاتھوں سب کا سب کچھ نچوڑ لینے کے بعد لوگوں کی قطعی اکثریت کو جب کسی سکت کے قابل نہیں چھوڑتا اور اس کے اس عمل سے اس کے منافعوں کی شرح گرنے کا عمل شروع ہوتا ھے تو اس کو ایک طرف وھی سرمایہ دار بحران کا نام دیتا ھے۔ تو دوسری طرف نہ صرف بحران کا واویلا کرتا ھے۔ بلکہ اس بحران کا ذمہ دار بھی اس محنت کش طبقے کو قرار دیتا ھے کہ جس کے سر سے لیکر پاؤں تک کی شریانوں کے لہو کو نچوڑ کر وہ سالوں کی کمائی دنوں میں کر کے اپنے سرمائے اور وسائل کو پروان چڑہاتا ھے۔۔۔۔۔۔
طبقاتی سماج میں سرمایہ دار کی یہ خباثت اور کمینگی ہر جگہ اور ہر دور میں ہوتی ھے کیونکہ یہ خود اس سرمائے کی سرشت کا حصہ ھے۔ اور ایسا تب تک رہیگا جب تک یہ نظام باقی ھے۔ اور پھر اس نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کی جدوجہد جو دراصل محنت کش طبقے کی اپنی زندگی خود جینے کی حسرت و خواہش ہوتی ھے وہ جاری رہتی ھے۔ اور یہ بھی تب تک رہیگی جب تک سرمائے کے عفریت کا سر کچل کے پھینک نہیں دیا جاتا۔۔۔۔۔۔
یہ احتجاج کرونا اور کرونا کی آڑ میں سرمائے اور سرمائے کے گماشتوں کے محنت کشوں کے روزگار اور ان کی زندگیوں پر بھیانک حملوں کے خلاف نفرت کا چھوٹا اور معمولی آغاز ھے۔ مگر اسے پوری دنیا میں پھیلنا ھے۔۔۔۔۔۔ سرمائے کے دلال اس دھوئیں کو آلودگی کہیں گے۔ نقصان دہ کہیں گے۔ مگر دراصل ان کی یہ بک بک ان کے اپنے بارے ترس و ہمدردی حاصل کرنے کیلئے اور اپنے وسائل کے دفاع کی خاطر ہوگی۔۔
ھم محنت کش بھی اس دھوئیں کو آلودگی کی ایک وجہ سمجھتے ہیں مگر ھم اس آلودگی کے پیچھے سرمائے، سرمائے کے گماشتوں اور دلالوں کے خلاف محنت کشوں کے شعور اور ان کے بدلہ لینے کے غم و غصے اور عزم کے طور پر اسے پر مسرت انداز میں خوش آمدید کہتے ہیں اس اعتماد کے ساتھ کہ ھم بھی دنیا بھر کے اپنے محنت کش بھائیوں کے اس طرح کے سلگائے ہوئے دھوئیں کی ایسی ریت کو پہلا قدم سمجھ کر ، آخری فتح کے حصول تک یعنی محنت کش طبقے کی نجات، طبقاتی سماج کے خاتمے اور سوشلسٹ سویرے کی کرن برآمد کرنے تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر