شیر علی خالطی پاکستان میں انگریزی زبان کے ایک روزنامے میں رپورٹر ہیں اور وہ اپنی قسمت پر خدا کے شکر گزار ہیں ۔
شیر علی خالطی 2014میں دی نیوز لاہور آفس میں بھرتی ہوئے تو انہیں آفس بوائے کی ذمہ داریاں انجام دینے کو کہا گیا۔ ان کا کام نیوز روم اسٹاف کو چائے پیش کرنا اور پرنٹرز سے پرنٹ آؤٹ نکال کر ڈیسک کو مہیا کرنا تھا۔
آج وہ اسی آفس میں انوسٹی گیٹو یعنی تحقیقاتی صحافی کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
شیر علی خالطی کے کئی مضامین دی نیوز میں شائع ہوچکے ہیں۔ جماعۃ الدعوی ،شریعت کورٹ، غیرت کے نام پر قتل ، جنوبی پنجاب یعنی سرائیکی وسیب کے بدنام زمانہ چھوٹو گینگ اور جبری گمشدگی کا شکار افراد کے حوالے سے کئی اہم سٹوریز پر کام کرچکے ہیں۔
گلف نیوز کے مطابق شیر علی کا کہناہے کہ یہ سب اس کے لئے ایک خواب ہی تھا جسے تعبیر بھی مل گئی ۔
سرائیکی وسیب کے ضلع راجن پور کی پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ علاقے س روجھان ے تعلق رکھنے والے شیر علی خالطی نے 2005کے دریائے سندھ میں آنے والے سیلاب میں اپنے والد کو گنوا دیا تھا۔
2005کے سیلاب میں ان کا تمام مال و متاع دریا برُد ہوگیا تھا۔ شیر علی کے مطابق وہ اس وقت گریجویشن کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ اس کے والد نے اس کی آنکھوں کے سامنے اپنی آخری سانس لی تھی ۔
انہوں نے کہا ’’مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے اپنے والد کو اپنے کاندھوں پر لاد کر دریا کے پانی میں سے باہر نکالا تھا۔‘‘
اپنے والد کی ناگہانی وفات کی وجہ سے شیر علی خالطی نے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ دی تھی۔ اور اس کےباقی ماندہ خاندان نے مقامی زمیندار کے ہاں ملازمت اختیار کرلی تھی ۔
شیر علی خالطی نے زمینوں پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کو ٹیوشن دینا بھی شروع کردیا تھا۔ پھر سرائیکی وسیب کے دیگر تعلیم یافتہ نوجوانوں کی طرح انہوں نےبھی تلاش روزگار کے سلسلے میں لاہور کا رُخ کیا تھا۔
لاہو رمیں رہتے ہوئے شیر علی خالطی نے 6برس میں اپنی گریجوایشن مکمل کی جو صرف دوسالوں میں مکمل کی جاسکتی تھی۔
اس کے بعد شیر خالطی نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے انگلش کیا اور پھر نمل سے ماس کمیونیکیشن میں بھی ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ۔
شیر علی خالطی پر قسمت اس وقت مہربان ہوئی جب وہ 2014میں ملازمت کے سلسلے میں دی نیوز لاہور میں ملازمت کے حصول کے لئے انٹرویو دینے گئے۔
خالطی کے مطابق وہ ہر صورت میں جاب کی تلاش میں تھے اور وہ سوچ کر گئے تھے کہ سیکیورٹی گارڈ سمیت جو جاب بھی ملی وہ کرلیں گے۔
آفس مینیجر نے شیر علی خالطی سے کہا کہ ان کے پاس ایک آفس بوائے کی ویکنسی ہے جو انہوں نے قبول کرلی اور ملازمت اختیار کرلی ۔
شیر علی خالطی آفس بوائے سے تحقیقاتی صحافی کیسے بن گئے اس کے پیچھے بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب جنوبی پنجاب ، سندھ اور بلوچستان میں چھوٹو گینگ کی طرف سے اغوا برائے تاوان کا سلسلہ شروع ہوا جو امیر لوگوں کو اغوا کرکے راجن پور کے کچہ کے علاقے میں رکھتے تھے۔ اور میڈیا میں چھوٹو گینگ کی کارروائیوں کی تشہیر ہوئی ۔
ایک دن نیوز روم میں چائے پیش کرتے ہوئے شیر علی خالطی نے ایڈیٹر کو فون پر کسی سے بات کرتے ہوئے سنا جو راجن پور کے مقامی رپورٹر سے چھوٹو گینگ بارے ایکسلوسیو خبر کرنے کا کہہ رہے تھے۔
اسی کچہ کے علاقے سے تعلق رکھنے کی بنا پر شیر علی خالطی نے ایڈیٹر سے کہا کہ وہ چھوٹو گینگ کے لیڈر کا انٹرویو اخبار کے لئے کرسکتا ہے ۔ یہ شیر علی خالطی کی پہلی ایکسلوسیو سٹوری تھی جو انہوں نے کی تو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے شیر علی خالطی سے رابطہ کیا اور گینگ کے ساتھ مذاکرات کے لئے مدد طلب کی۔
2016میں شیر علی خالطی نے بطور رپورٹر اخبار میں ملازمت اختیار کی ۔ آج شیر علی خالطی لاہور میں بیوی اور دو بچوں پرمشتمل اپنے خاندان کے ہمراہ ایک خوشگوار زندگی بسر کررہے ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ ان کی تنخواہ اتنی زیادہ نہیں ہے مگر پھر بھی وہ ایک تحقیقاتی صحافی کے طور پر اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔
شیر علی خالطی کاؤنٹر وائلنس ایکسٹریم ازم اور انسداد دہشتگردی کی حوالے سے تربیتی سیشن بھی کروا چکے ہیں ۔ وہ انسانی حقوق کمیشن کی طرف سے کرتار پور راہداری کے حوالے سے فیکٹ فائنڈنگ مشن کے ممبر بھی ہیں
اے وی پڑھو
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی