سن 1946ء میں آل انڈیا کانگریس نے احراریوں اور جمعیت علمائے ہند کے ملّاؤں کے منہ پر کتّا باندھا دیا تھا وہ پہلے جناح صاحب کی 1918ء میں رتی بائی سے شادی کے معاملے کو نکال کر لائے، رتی بائی جو مرحوم ہوچکی تھی پر کیچڑ اچھالی، پھر ان کی بیٹی کے کردار اور شادی پر گند اچھالا(جمعیت علمائے ہند نے باقاعدہ کتابچے شایع کیے جیسے سول میرج اینڈ جناح، جناح کا معما)۔۔۔۔ پھر لیاقت علی خان کی رعنا لیاقت سے شادی پر بھوبھل اڑائی۔۔
۔ اس کے بعد جناح کی بہن فاطمہ جناح کی تجریدی زندگی پر کیچڑ اچھالا۔۔۔۔ ایسے ہی جناح ، راجا آف محمود آباد ، وزیر حسن سمیت لیگ کی ٹاپ لیڈر شپ کی مسلکی شناختوں پر طوفان بدتمیزی برپا کیا-
یہاں تک جب مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا اشرف علی تھانوی نے جناح کا ساتھ دیا تو دیوبند سے سہارن پور تک کی دیواریں گندی اور ننگی گالیوں سے بھر گئے(مکالمۃ الصدرین پڑھیں)۔۔۔۔۔
مولانا اظہر علی مظہر سیکرٹری جنرل مجلس احرار نے اپنے ایک کتابچے میں ‘ ایک کافرہ کے لیے اسلام کو چھوڑا’ سمیت جو کہہ سکتے تھے کہا-
پاکستان بننے کے بعد شومئی قسمت پاکستان کی جاگیردار اشرافیہ، وردی بے وردی نوکر شاہی نے جمہوریت پسند سیاسی طاقتوں کا جب مقابلہ سیاست کے میدان میں نہ ہوتے دیکھا تو انہوں نے بھی کردار کشی کے نوآبادیاتی دور کے گندے ورثے کو جھاڑ پونچھ کر صاف کیا اور ہر جمہوریت پسند سیاست دان کو گالی دلوائی- سیاست دان اگر عورت تھی تو اس کے کردار پر جنسیت کے مورچے سے حملہ کیا، مرد تھا تو اس کی ماں، بہن، بیوی کسی کو نہیں چھوڑا-
ایوب خان نے فاطمہ جناح پر ہم جنس پرست ہونے کا الزام لگادیا- ذوالفقار علی بھٹو کو پہلے اس کی ماں پر شرمناک حملے کرکے تنگ کیا، پھر بیگم نصرت بھٹو ان کی بیوی کا حشر نشر کیا، پھر اس کی بیٹی ان کی تختہ مشق بنی اور پھر بھٹو کا داماد اور پھر اس داماد کی بہن اور اب اس کا بیٹا اور بیٹیاں ان کی گندی ذہنیت اور گندی سیاست کا تختہ مشق ہیں-
پیپلز پارٹی میں صف اول کی سیاسی خواتین کارکنوں کی عزت و ناموس پر حملے اور تو اور انہوں نے اپنے تیار کردہ بچے جمہورے جس کے اپنے ہاتھ اس گندی سیاست میں لتھڑے ہوئے تھے کی نہ تو بیوی (کلثوم نواز) کو بخشا نہ اس کی بیٹی مریم نواز کو معاف کیا ، نہ ہی اس کی نواسی کو نہ پوتی کو جس عورت کا نام آیا اس کی عزت اچھالی ۔
ہم نے سو لفظوں کی اداکاری کرنے والے کی پرانی گیند کی سوئنگ والی گھٹیا پھبتی پر لعنت بھیجی تھی تو ریحام پر کیچڑ اچھالنے والوں پر لعنت بھیجی، ہم نے بشری بی بی پر حملہ کرنے والوں کو کبھی رعایت نہ دی۔
لیکن یوتھیے تو پہلے جسے مادر کہتے رہے پھر اسی کی عزت تار تار کردی۔۔۔۔۔۔ جو یہ اسکرپٹ لکھ کر دیتے ہیں وہ یاد رکھیں جن کے منہ پر کتّے آج باندھ کر میدان میں چھوڑ رہے ہیں یہ کل کو پلٹ کر ان پر بھی ضرور بھونکیں گے اور اس وقت ان کو بچانے والا کوئی نہ ہوگا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر