تین ماہ کے قلیل عرصے میں عالمی سیاست‘ معاشرت اور سب سے بڑھ کر معیشت‘ جو گزشتہ کئی صدیوں سے ایک ہی دھارے میں بہہ رہی تھی‘ یک دم رک گئی ہے۔ کارخانے بند‘ مزدور کروڑوں کی تعداد میں بے روزگار‘ ٹرانسپورٹ کا عالمی پہیہ ایسا جام ہوا کہ تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
صنعتی ممالک میں تو روزانہ ہزاروں کی تعداد میں جہازوں کی پروازیں اڑتیں اور اترتیں‘ لاکھوں کی تعداد میں لوگ ایک ملک سے دوسرے ملک جاتے ‘ بر اعظموں‘ سمندروں اور پہاڑوں کی حدیں عبور کرتے۔ اربوں‘ کھربوں ڈالرز کا روزانہ درآمد‘ برآمد کا کاروبار ہوتا۔ ساری دنیا ایک عالمی منڈی میں ڈھالی جا چکی تھی۔ ہر ملک اس کاوش میں تھا کہ اس منڈی میں رسائی کا اس کا حصہ مزید بڑھے‘ وہ ترقی کرے‘ اس کے شہری آسودہ حال ہوں‘ اور قومی ریاست نام بنائے‘ مقام حاصل کرے۔
اس سرمایہ دارانہ معیشت کے بنیادی ستونوں میں سے سب سے توانا اور مضبوط باہمی تعاون تھا۔ تعلیم ‘ سائنس اور ٹیکنالوجی سے لے کر سرمایہ کاری‘ تجارت‘ ماحولیات اور خطرناک ہتھیاروں کے پھیلائو کو کنٹرول کرنے تک تقریباً ہر میدان میں کنونشنز اور معاہدوں کی صورت میں عالمی سطح پر قوانین بنائے گئے‘ ادارے تشکیل پائے اور بہت عمدہ روایات بھی قائم ہوئیں۔ کچھ کے لئے یہ سب فائدے اور کچھ کے لئے مکمل گھاٹے کا سودا تھا۔
گزشتہ صدی کے دوسرے حصے میں سرد جنگ کے زمانے میں ہی یہ نظر آ رہا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام طاقت‘ وسعت‘ عسکری صلاحیت اور نظریاتی ٹکرائو کے حوالے سے ہر ملک میں باوسائل‘ حکمران طبقات میں زیادہ مقبول ہے۔ اس کی مخالف قوتیں آہستہ آہستہ کونوں کھدروں میں زندگی بسر کرنے والے دانشوروں ‘ شاعروں اور معاشرے کے بعض طبقات تک محدود ہو گئیں۔ سرمایہ داری کی معیشت نے روایتی طور پر بالا طبقات کے ہاتھ اور بھی مضبوط کر دئیے۔
ریاست‘ صنعت کار اور عالمی تجارتی اور سرمایہ کار کمپنیوں کے پھیلے ہوئے گٹھ جوڑ نے تمام ممالک کو اپنے جال میں پھنسا لیا۔ یہ جال اتنا پُر کشش نکلا کہ تمام اشتراکی ممالک نے بھی اس کے اندر آ کر دم لیا۔ کہاں امریکہ کی ویت نام کے خلاف خوفناک اور اذیت ناک جنگ ‘ اس مقصد کے تحت کہ اشتراکیت کے پھیلائو کا راستہ روکا جائے‘ اور کہاں آج وہی اشتراکی ویت نام عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی راہ میں آنکھیں بچھاتا ہوا‘ ہماری طرح کا ایک ملک۔ زیادہ تر امریکی کمپنیاں ہی وہاں سرمایہ کاری اور تجارت کر رہی ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ چین کی ترقی میں بھی امریکہ کی کمپنیوں نے سب سے پہلے اپنے اور امریکی قومی مفاد میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کی۔ نظم و ضبط‘ مضبوط حکومت‘ سیاسی استحکام اور ہڑتالوں اور جلوسوں سے پاک ملک ہی سرمایہ کاری کی حفاظت جوش و خروش سے کرتے ہیں۔ چینیوں کے کمالات ہوں یا جنگ کے بعد جاپان اور جرمنی کی اٹھان ہو ‘ بنیادی کردار سرمایہ دارانہ نظریات اور امریکہ کی دفاعی اور اقتصادی حکمت عملی کا رہا ہے۔
سرمایہ کار کمپنیوں نے ٹیکنالوجی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں کم خرچ میں پیدا کردہ اشیائے صرف کو اپنی منڈی تک کھلی رسائی دی۔ اس میں فائدہ تھا۔ امریکی صارف باقی دنیا کے مقابلے میں عام استعمال کی اشیا کی کم قیمت ادا کرتا‘ اور امریکی کمپنیاں ہر سال اربوں‘ کھربوں منافع کے طور پر قومی معیشت میں ڈالتیں‘ اور اس طرح اپنا کاروبار عالمی سطح پر مزید پھیلاتی چلی گئیں۔
جب ان ممالک کے سرمایہ کار کا اپنا پودا تناور درخت بن گیا اور پھر کئی طرح کے مقامی سرمایہ کار پیدا ہوئے تو مسابقت اور مقابلے نے امریکی کمپنیوں کی دوڑیں لگوا دیں۔ امریکی مزدور بے روزگار ہوا‘ بے چینی بڑھی اور امریکہ کے سیاسی قدامت پسندوں نے ہوا کا رخ بھانپ لیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کا نعرہ ”امریکہ سب سے پہلے‘‘ چین کے ساتھ بے حد تجارتی خسارے کی پیداوار ہیں۔ گویا امریکہ اپنے ہی نیو لبرل معاشی اصولوں سے گریز کرنے لگا‘ کہ اب فائدہ گھر کے اندر دیکھنے اور تعمیرِ نو میں تھا نہ کہ اپنی منڈیوں کو کھلا رکھنے میں۔ گزشتہ تین برسوں سے انہوں نے چین کے خلاف تجارتی پابندیوں ‘ یا یوں کہئے ”تجارتی جنگ‘‘ کا آغاز کر رکھا ہے۔ بھارت‘ جو چین کی جگہ لینے کی تپش میں بے قرار ہے‘ نے جی حضوری اور خوشامد میں بے مثال کردار ادا کیا ‘ لیکن امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدوں میں رعایات حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ وقت بدل چکا ہے۔
کورونا وبا نے دنیا کو جس قدر اور جس عجلت سے بدل ڈالا ہے‘ اس کی طرف بعد میں آتے ہیں‘ مگر عالمی طور پر جو رجحانات پہلے ہی بڑی طاقتوں کی پالیسیوں میں جگہ بنا چکے تھے‘ وہی غالب نظر آئیں گے۔ امریکہ نے جس طرح عالمی معیشت کا جال پھیلانے اور اس کی رسی اپنے ہاتھوں میں رکھنے کا کردار ادا کیا‘ اسی طرح اس کی رسی ڈھیلی کرنے میں پہل کر گیا۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ نظریات ایک خالی جگہ ہوتے ہیں‘ اگر ان میں قومی مفاد اور طاقت کا رنگ نہ بھرا جائے۔
دنیا کے قدیم اور جدید علوم بہت اعلیٰ افکار ونظریات سے بھرے پڑے ہیں‘ لیکن صرف کتابوں کی زینت اور دانش وروں کی مجالس کا خام مال ہیں کہ وہ ان سے نئی دنیائیں آباد کرنے کی خوابی صورت گری کرتے ہیں۔ مارکس نے تو نظریات پر مکمل کتاب لکھی اور کئی دلائل میںسے ایک دلیل یہ تھی کہ نظریات محض دھوکہ ہوتے ہیں‘ طاقت ور طبقات ان کے بارے میں بیانیے گھڑتے ہیں ‘ عوام میں ان کا رواج ڈالتے ہیں تاکہ مادی مفادات کا نہ صرف تحفظ ہو سکے بلکہ وہ مزید مضبوط بھی ہوں۔ انہوں نے مادی قوتوں کی اصلیت اور حقیقت اور نظریات کی گمراہ کن ظاہری کشش کا پردہ چاک کیا۔
پتہ نہیں کیوں کئی دہائیوں تک بلکہ ایک صدی سے کچھ زیادہ عرصہ تک ہم نظریاتی بھول بھلیوں میں وقت ضائع کرتے رہے۔ اندر کی بات قومی سیاست کی ہو یا عالمی سطح پر غالب طاقتوں کی‘ چند آنکھوں تک محدود دستاویزات کی رازداری عام آدمی کے احاطۂ خیال میں نہیں آ سکتی۔
یہاں تک کہ صرف اخباری اطلاعات پر ہی اکتفا کرنے والی دانش وری یا صحافت بھی سیاست کی ان حقیقتوں سے پردہ نہیں اٹھا سکی‘ جو کئی دہائیوں بعد سرکاری راز کھول دینے کے بعد معلوم ہو جاتی ہیں۔ تاریخ تو ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے‘ تو کیوں ذرا دقیق نظروں سے ‘ ذرا فرصت سے‘ اور ذرا شوق سے اس کا مطالعہ نہیں کرتے؟ مغرب کے اور ہمارے دانش ور میں صرف یہی فرق ہے کہ وہ تاریخ اور فلسفے سے روشنی حاصل کرتا ہے اور تیسری دنیا کا دانشور زیادہ تر‘ مگر سب ہرگز نہیں‘ اپنے جذبات اور تعصبات سے۔ تو راستہ کیسے معلوم ہو گا اور ریاست اور معاشرے کی درست سمت کا تعین کیسے ہو گا۔
اصل نکتہ جو اس وبا کے بعد ہمارے سامنے واضح طور پر کھلنا چاہئے‘ بلکہ عالمی سیاست کا پہلا اور آخری سبق اور اس کی صدیوں سے توانا روح ‘ وہ قومی مفاد ہے۔ اس مفاد کا تحفظ ریاست کا بنیادی فرض ہے‘ کہ اس میں ہر موجود اور ہر پیدا ہونے والے بچے کا مفاد شامل ہے۔ اٹلی‘ جو وبا کا زیادہ شکار ہوا ‘ کے لوگ ہزاروں کی تعداد میں تڑپتے رہے اور مرتے رہے‘ یورپی یونین ‘ جو ایک وفاقی ریاست کا خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے تھی‘ خاموشی سے تماشا دیکھتی رہی۔ ہر ملک اس قیامت میں اپنے وسائل اپنے عوام کیلئے مختص کرتا نظر آیا۔ افراتفری میں مجھے تو یہ نظر آیا کہ جو فالتو ہو گا‘ وہ آپ کے حوالے کریں۔
قومی مفاد اور صرف قومی مفاد کی چھاپ ہر ملک بلکہ ملک کے اندر اکائیوں کے رویوں میں بھی نمایاں رہی۔ باہمی تعاون کے اصول پر تمام بلند وبالا عالمی ادارے اپنا وقار اور ساکھ کھو چکے ہیں۔ وبا کے بعد کی صورتحال پہلے والی ڈگر پر آہستہ آہستہ ضرور لوٹے گی‘ مگر ہمیں عالمی سیاست کی بنیادی روح اور محرکات کے زاویوں کو کھوکھلے بیانات اور جاذب نعروں کے بجائے کئی تہوں میں بسی حقیقی سیاست سے سمجھنا ہو گا۔ اصل بات تو رہ ہی گئی کہ اگر مفادات کا تحفظ اور تعین کرنے والوں کو بھاری قیمت چکا کر خرید لیا جائے تو پھر کیا ہو گا؟
ذرا سوچیں کہ آزاد بجلی پیدا کرنے والوں کے ساتھ کیا معاہدے ہوئے‘ کیوں خفیہ ہیں اور کس طرح قومی معیشت کو تباہ کرنے کی کامیاب سازش ہوئی۔ سیاسی سکہ بھی تو انہی کا چلتا ہے ‘ جنہوں نے مفادات کا سودا کیا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر