نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جراثیم کش واک تھرو گیٹ واقعی کرونا سے بچا سکتا ہے یا نہیں؟۔۔۔ مونا خان

ماہرین کی ریسرچ کے مطابق کسی سطح یا دروازے وغیرہ کو صاف کرنے کے لیے کلورین کی مقدار فی لیٹر پانی میں زیادہ رکھی جاتی ہے

سوشل میڈیا پر صحافی علی معین نوازش نےسوال اٹھایا کہ کلورین ملا پانی کرونا وائرس کو روک سکتا ہے یا  نہیں؟ نیز یہ کہ کلورین ملا پانی انسانی جسم کے لیے نقصان دہ ہے تو نہیں ہے؟

’ پاکستان میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد واک تھرو گیٹس کا رجحان چل نکلا اور سرکاری عمارتوں کے علاوہ مختلف گروسری سٹورز نے بھی جراثیم کُش واک تھرو گیٹس لگائے تاکہ لوگ اس میں سے گزریں تو جراثیم ختم ہو جائیں۔ اس ساری بحث سے جنم لینے والے سوالات پر انڈپینڈنٹ اردو نے مختلف ماہرین سے رابطہ کیا۔

سب سے پہلے لاہور کے انجینئر کلیم اللہ سے رابطہ کیا جنہوں نے جراثیم کش واک تھرو گیٹ متعارف کرایا تھا۔ کلیم اللہ نے بتایا کہ وہ خود تو کیمیا دان نہیں بلکہ انجینئر ہیں لیکن ڈاکٹرز سے مشورہ کر کے جو محلول انہوں نے بنایا تھا ‘اس میں کلورین، میتھنول، ڈیٹول اور پانی کا مکسچر استعمال ہوتا ہے۔ کلورین جراثیم کو ختم کرنے کے لیے مستند تصور کی جاتی ہے اور  یہ اگر وائرس کو مکمل طور پر ختم نہ بھی کرے تو اس کو اتنا کمزور کر دیتی ہے کہ وائرس نقصان پہنچانے کے قابل نہیں رہتا۔’

انہوں نے مزید بتایا کہ اُن کے بنائے گئے واک تھرو گیٹس وزیراعظم ہاؤس ، آرمی چیف ہاؤس ، جی ایچ کیو اور این ڈی ایم اے میں بھی لگائے گئے ہیں لیکن اس میں استعمال ہونے والا محلول اُن متعلقہ اداروں نے اپنے ماہرین کی رائے کی روشنی میں تیار کر کے استعمال کیا ہے۔ اس لیے وہ یہ نہیں جانتے کہ باقی جگہوں پر کون سا محلول استعمال کیا جا رہا ہے۔’

جراثیم کش واک تھرو گیٹ لگانے کا کوئی فائدہ نہیں :

نسٹ یونیورسٹی کے سائنسدان نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پہ بتایا کہ ‘کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے کلورین محلول سپرے کے واک تھرو گیٹ کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ معلوم نہیں یہ مشورہ انتظامیہ کو کس نے دیا ہے؟ ڈبلیو ایچ او کی گائیڈ لائن میں ایسے واک تھرو گیٹ کے ذریعے جراثیم ختم کرنے کی کوئی مثال نہیں ہے اور نہ اس بات کا کوئی سائنسی ثبوت موجود ہے کہ باہر سے سپرے کرنے سے آپ کی سانس سے منتقل ہونے والے جراثیم ختم ہو جائیں۔’

انہوں نے کہا کہ ‘اگر ایک انفیکٹڈ شخص واک تھرو گیٹ سے گزرے گا تو اس کے اندر کے جراثیم تو پھر بھی ختم نہیں ہوں گے۔ وہ عمارت کے اندر جا کر کھانسے گا تو کرونا وائرس جراثیم پھر بھی پھیلیں گے۔ بس یہ ایک ذہنی اور نفسیاتی تسلی ہے۔’ انہوں نے مزید بتایا کہ سڑکوں اور گلیوں میں کیے گئے کلورین سپرے میں کلورین کی مقدار زیادہ ہوتی ہے وہ سطح کو ایک بار تو صاف کر دے گا لیکن ہمیشہ کے لیے جراثیم ختم نہیں ہو سکتے۔

کلورین محلول کا کیا فائدہ اور نقصان ہے ؟

واضح رہے کہ ڈبلیو ایچ او نے بھی جراثیم کے خاتمے کے لیے کلورین اور الکوحل ملے محلول کو موثر قرار دیا ہے لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ کلورین کی مقدار کتنی ہو گی؟

ماہرین کی ریسرچ کے مطابق کسی سطح یا دروازے وغیرہ کو صاف کرنے کے لیے کلورین کی مقدار فی لیٹر پانی میں زیادہ رکھی جاتی ہے تاکہ وہ جراثیم کو ختم کر سکے۔

کیمیائی لیب ماہر ڈاکٹر آصف ریاض نے بتایا کہ جب کلورین کو پانی میں ڈالا جاتا ہے تو ایک یا دو ملی گرام کلورین فی لیٹر  محلول میں ڈالی جاتی ہے تاکہ پانی جراثیم سے پاک ہو سکے اور زیادہ سے زیادہ چار ملی گرام کلورین فی لیٹر پانی کے لیے محفوظ ہے، اسے پیا بھی جا سکتا ہے۔ لیکن اگر اس کو موثر جراثیم کش سپرے بنانا ہے تو پانی میں کلورین کی مقدار بڑھانی پڑے گی لیکن کلورین کی مقدار زیادہ ہونے کی صورت میں یہ نقصان ہو سکتا ہے کہ چھینکیں یا گلا خرابی کی شکایت ہو سکتی ہیں۔’

پانی میں کلورین کتنی مقدار میں استعمال کی جائے ؟

انیس لیٹر پانی میں اعشاریہ پانچ فیصد کلورین استعمال کی جاتی ہے۔ اس سے پانی تو صاف ہو جائے گا لیکن اس کے بعد وہ پانی بطور جراثیم کش استعمال ہو سکے گا یا نہیں، یہ ایک سوال ہے۔

 اس سوال پر ڈاکٹر ریاض آصف نے کہا کہ بہتر فارمولا یہی ہے کہ الکوحل ملا محلول استعمال کیا جائے وہ جراثیم کش بھی ہو گا اور جسم پر اس کا نقصان بھی نہیں ہو گا۔ لیکن انیس لیٹر پانی میں اعشاریہ پانچ فیصد کلورین کو بطور جراثیم کش استعمال نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ اُس کا اثر نہیں ہو گا اور اگر کلورین کی مقدار بڑھائی جائے تو وہ آپ کی آنکھوں یا منہ پر پڑنے سے الرجی کا سبب بن سکتا ہے۔ کیونکہ سوئمنگ پول میں بھی اگر کلورین کی مقدار پانچ ملی گرام فی لیٹر سے زیادہ ہو جائے تو وہ نقصان دہ ہے۔’

کیمسٹری کے شعبے سے تعلق رکھنے والی برمنگھم یونیورسٹی کی سکالر ڈاکٹر ماریہ طاہر اعظم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اعشاریہ پانچ فیصد کلورین فی لیٹر کے حساب سے تو پینے والے پانی میں بھی ہوتا ہے لیکن وہ کلورین پانی میں حل ہو کر جراثیم کوختم کر کے اپنی اثر پذیری بھی کھو دیتی ہے، اس کے بعد وہ پانی مزید کسی جراثیم کو ختم کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔’

ماہرین کے مطابق ہسپتالوں میں بھی مریض کے استعمال کی اشیا یا کمرہ جراثیم سے پاک کرنے کے لیے کلورین میتھنول ملے محلول سے بنے سپرے کا استعمال کیا جاتا ہے جو کہ موثر ہے لیکن اس سپرے میں کلورین کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔

اسی واک تھرو گیٹ سے متاثر ہو کر حال ہی میں چترال انتظامیہ نے بھی لواری سرنگ کے ساتھ سینٹائیزر واک تھرو گیٹ نصب کیا ہے۔ واک تھرو میں سے آنے والے لوگ گزریں گے تو ان پر جراثیم کش سپرے کے ساتھ ساتھ ان کا بخار بھی معلوم کیا جائے گا۔

About The Author