جب عورتوں کے حقوق کے علمبردار اور اپنی قیادت میں مَادر ملت، مادر جمہوریت اور چاروں صوبوں کی زنجیر رکھنے والے ‘اجڑے چمن’ کی ترکیب کو لیکر اپنے سیاسی مخالف کی بیوی پر حملہ آور ہوتے ہیں تو نجانے مجھے یوں کیوں لگنے لگتا ہے کہ ضیاء الحقی وائرس ہمارے سماج میں اصول پسند سیاسی کارکنوں کے اندر بھی سرائت کرگیا ہے…….
میرے اندر بھی اس وائرس کا تھوڑا اثر ہوا، اندر کسی خانے میں مُسرت کی لہر اٹھی، میں نے فوری اُسے دبایا….. مجھے لگا، میرے اندر شہید بی بی کی لگائی ہوئی جمہوری ویکسین میری قوت مدافعت کو ابھی طاقتور رکھے ہوئے ہے…… ایک عورت نے اپنے ایک شوہر سے طلاق لیکر دوسرے سے شادی کرلی…….. آخر ہم ‘عورت’ کو دوسری شادی کرنے پر
Used commodity
Second hand model
کیوں قرار دیتے ہیں؟ اور پھر مرد خود بھی تو ایک بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری شادی کرتا ہے……. ادھیڑ عمر کے مرد اور عورت کی شادی بارے ہمارا ذہن پدرسری قبائلی جاگیرداری دور جہالت کے کلیشے کیوں بناتا ہے؟
ایک طرف مولوی طارق جمیل کے درباری پن، جاھلانہ دعوؤں اور اُس کی جانب سے عورت جات کو کورونا وائرس کی وبا کی وجہ بتانے پر حرف ہائے مذمت برسائے جاتے ہیں، اُس کی جنسیت زدگی کا مذاق اڑایا جاتا ہے تو دوسری جانب سیاسی مخالف کی بیوی کو لیکر میل شاؤنزم کے سہارے سیاسی مخالف کو زچ کیا جاتا ہے…
یہ کیا ہے؟ مسلم لیگ نواز کے اسحاق ڈار، خواجہ آصف، پی پی پی کے تاج حیدر سمیت درجنوں لوگ ہیں جنھوں نے دوسری شادی کی ہے….. اور شادی شدہ عورتوں سے کی ہے…… کیا وہ عورت جو ایک یا دو مرتبہ طلاق لینے کے بعد تیسرے مرد سے شادی کرتی ہے وہ ‘اجڑا چمن’ ‘کھڑکی کھڑکائی’ ہوتی ہے؟ کیا انٹرکورس فقط یک طرفہ عمل ہوتا ہے؟ عورت اُس میں محض معروضی کردار یا اوبجیکٹ ہوتی ہے؟ باکرہ عورت ہی سرسبز و آباد گلشن کی ترکیب سے منسوب ہونے کی سزاوار ہے؟ کمرشل لبرل ایسی چغل ماریں تو سمجھ آتی ہے لیکن فاطمہ جناح، بیگم نصرت بھٹو، بی بی شہید کے سپاہی ایسی باتیں کریں تو افسوس ہوتا ہے…….. بشری بی بی کو ‘سو لفظوں کی بکواس’ کرنے والے نے ‘پُرانی گیند’ کہہ کر اُس کے سوئنگ زیادہ ہونے جیسا شرمناک جُملہ ٹوئٹ کیا تھا…. خبیث نے اپنی معصوم بیٹیوں پر شیاطین کے حملے کی ازخود دعوت دی اور جب اپنی منڈلی پر آگ برسی تو مگرمچھ کے آنسو بہاکر مظلومیت کی آڑ لیکر ہمدردیاں سمیٹنے لگا تھا…… ایسا مت کیجیے….. یہ نہ تو مزاح ہے اور نہ ہی طنز لطیف….. یہ پوہڑ پن ہے….. جہالت کی ایک انتہا کے جواب میں دوسری جہالت ہے….
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر