نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کرونا مخالفین کو دبانے سے ختم نہیں ہوگا۔۔۔ مرتضٰی سولنگی

اس سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ گراف اوپر جا رہا ہے اور یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ ہم نقطہ عروج سے ابھی کافی دور ہیں۔

ہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ عدم فیصلے، تاخیر سے فیصلے اور فیصلوں پر پسپائی آپ کو بند گلی میں لے آتے ہیں۔ سیاست، معیشت اور اب کرونا (کورونا) وائرس پر کیے گئے اور نہ کیے گئے فیصلوں کے نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں۔

معاشی میدان میں متضاد فیصلہ سازی نے سب سے پہلے نقصان پہنچایا۔ نجکاری کریں گے یا نہیں کریں گے؟ آئی ایم ایف جائیں گے یا نہیں جائیں گے، سی پیک کو تیز کریں گے یا منجمد کریں گے؟ اسد عمر سے حفیظ شیخ تک اور شبر زیدی کی تعیناتی سے رخصتی تک۔ نتائج آپ کے سامنے ہیں۔

کرونا کے آنے سے پہلے ہی معیشت کا پھٹہ بیٹھ چکا تھا۔

 2018 میں چھ فیصد شرح نمو کے بعد اس سال کے تخمینے تو پہلے ہی دو فیصد سے کم تھے۔ ہاٹ منی لے کر غیرملکی زرمبادلہ بنانے کے نسخے کی وجہ سے شرح سود 13.25 فیصد تک رکھی گئی جس کی وجہ سے اندرونی سرمایہ کاری ختم ہو گئی کیونکہ بینکوں سے 17، 18 فیصد قرضہ لے کر کاروبار کرنا کسی کے لیے بھی ممکن نہ تھا۔ سرمایہ کاری ٹھپ ہونے کی وجہ سے نیا روزگار پیدا ہونا تو کجا موجود ملازمتیں ختم ہونا شروع ہوگئی تھیں۔ ماہرین معاشیات کہتے رہے کہ آسمان کو چھوتے ہوئے شرح سود سے ملک کی معیشت کا پہیہ منجمد ہو جائے گا لیکن کسی نے ان ایک نہ سنی۔

کرونا کے آتے ہی ہاٹ منی کو پر لگ گئے اور اس نے اڑان بھرنی شروع کردی۔ موجودہ سطریں تحریر کرتے وقت تک اس ہاٹ منی کا 75 فیصد تک ملک سے باہر جا چکا ہے اور صرف 80 کروڑ ڈالر کے لگ بھگ ہاٹ منی ملک میں موجود تھی۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں دو قسطوں میں، پہلے 11 فیصد اور اب نو فیصد تک شرح سود کو کم کیا گیا ہے۔ کاروباری حلقے تو اب بھی اسے سات فیصد یا اس سے بھی کم کرنے کی تجویز دے رہے ہیں تاکہ ملک کے اندر کاروباری سرگرمیاں شروع کی جا سکیں لیکن اس وقت جو عالمی کساد بازاری کرونا کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے اس کے اثرات کے بعد کاروباری سرگرمیوں کو زندہ کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا۔

اب آئی ایم ایف کی طرف سے ریپیڈ فنانس انسٹرومنٹ کے ذریعے 1.4 ارب ڈالر کا نیا قرضہ اور جی 20 ممالک کی طرف سے 1.5 ارب ڈالر قرضہ موخر ہونے سے ملکی معیشت کو، جو دیوالیہ پن کے قریب پہنچ گئی تھی، کچھ مدد ملے گی۔ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ کرونا وائرس کے نتیجے میں ہمارا کتنا نقصان ہوتا ہے اور بعد از کرونا صورتحال میں ہم اپنی، علاقائی اور عالمی صورت حال کو دیکھ کر کیا معاشرتی، معاشی اور سیاسی حکمت عملی اپناتے ہیں۔

منگل کے روز وزیر اعظم نے ایک بار پھر لاک ڈاؤن میں دو ہفتے کی توسیع کے ساتھ ساتھ  نئی رعایتوں کا اعلان بھی کیا جس کے تحت ملک بھر میں تعمیراتی شعبے سمیت کئی شعبوں کو لاک ڈاؤن سے مستثنیٰ قرار دیا۔ اس اعلان کے بعد جہاں سڑکوں اور بازاروں میں چہل پہل میں تیزی آئی ہے وہاں الجھاؤ میں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔

سب سے زیادہ نقصان کرونا کے متاثرین اور ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہے۔ پچھلے ایک ہفتے میں متاثرین کی تعداد میں ڈھائی ہزار کا اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے ہفتے ہلاکتوں کی تعداد ایک سو تک بھی نہ پہنچی تھی۔ ایک ہفتے میں یہ تعداد جمعے کی سہ پہر تک 136 تک پہنچ چکی تھی جبکہ جمعرات اور جمعے کے 24 گھنٹوں میں دو درجن کے قریب نئی ہلاکتوں کی خبریں مل چکی تھیں۔

اس سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ گراف اوپر جا رہا ہے اور یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ ہم نقطہ عروج سے ابھی کافی دور ہیں۔ اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ ہم اس بحران کی بلند ترین سطح تک مئی کے اواخر میں پہنچیں گے۔ اس وقت تک کتنے پاکستانی متاثر ہوچکے ہوں گے اور کتنی جانیں ضائع ہو چکی ہوں گی، اس کے بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

اس میں نئی پریشانی یورپ، امریکی اور خلیجی ممالک سے ہزاروں کی تعداد میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی اگلے چند ہفتوں میں واپسی بھی شامل ہے۔ واپس آنے والوں میں کتنے افراد کرونا سے متاثر ہوں گے اور ان کے لیے کتنے بہتر انتظامات ہوں  گے، اس کے اثرات بھی موجودہ صورت حال پر پڑیں گے، لیکن اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے جس یکسوئی اور قومی اتحاد کی ضورورت ہے وہ نظر نہیں آ رہی۔

باوجود اس بات کے کہ نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی میں صوبائی وزرائے اعلیٰ موجود ہیں اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر میں بھی صوبائی حکام کی نمائندگی موجود ہے، وفاقی حکومت اور اس کے وزرا ایک حکمت عملی کے تحت سندھ حکومت، وزیر اعلیٰ  سندھ مراد علی شاہ اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو مسلسل نشانہ بنا رہے ہیں اور وزیراعظم عمران خان مبینہ طور پر اس عمل کی حوصلہ افزائی بھی کر رہے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ عمران سرکار کے مطابق دشمن کرونا نہیں بلکہ سندھ حکومت ہے۔ ابھی تک اکثر تجزیہ نگاروں کے مطابق اس غصے کی بڑی وجہ سندھ حکومت کی کرونا معاملے پر پہل کاری ہے جس کی وجہ سے ملکی اور غیرملکی ذرائع ابلاغ میں سندھ حکومت کی بہت تعریف ہوئی ہے۔ سندھ حکومت کی یہ تعریف عمران حکومت کو بہت چبھ رہی ہے۔ اس لیے وفاقی کابینہ کے اجلاسوں سے جو خبریں باہر نکلتی ہیں، ان میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کابینہ میں سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کے خلاف کافی وقت صرف ہوتا ہے۔

وزیر اعظم اس پورے کرونا بحران میں ہر صوبے میں گئے ہیں ماسوائے سندھ کے۔ پنجاب کے بعد کرونا متاثرین کی سب سے بڑی تعداد سندھ میں ہے اور وہی صوبہ ہے جہاں وزیراعظم صاحب نہیں گئے۔ اس کا اس کے علاوہ اور کیا مطلب لیا جائے کہ یہ وہی وہ صوبہ ہے جہاں ان کی جماعت کی حکومت نہیں ہے۔

ایسا اس وقت ہوتا ہے جب حکومت کی توجہ کارکردگی پر نہیں بلکہ منفی اور مثبت عوامی پذیرائی پر ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئی حکومت منفی عوامی تاثر کے ساتھ زیادہ عرصہ نہیں چل سکتی لیکن یہ منفی تاثر زمینی کارکردگی کے ساتھ جڑا ہوا ہوتا ہے۔ عمران سرکار نے البتہ اسے الٹا سمجھ لیا ہے۔ ان کی ساری توجہ ذرائع ابلاغ میں منفی پذیرائی کو روکنے اور مصنوعی طور پر مثبت تاثر پیدا کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ سب سے زیادہ اجلاس ترجمانوں کے ہوتے ہیں جن میں وزیر اعظم خود شریک ہوتے ہیں۔ کابینہ کا سائز 50 کے قریب پہنچ چکا ہے۔ منفی تاثر کو روکنے کے چکر میں ہی میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جنگ اور جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کو بھی اس تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

ابھی یہ معاملہ چل ہی رہا تھا کہ نیب نے جمعے کے روز قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو ایک دو سالہ پرانے منی لانڈرنگ کیس میں دوبارہ طلب کر لیا۔ اس کیس میں ابھی تک کوئی ریفرنس دائر نہیں ہوا اور کئی بار ان سے پوچھ گچھ بھی ہوچکی ہے۔ کرونا لاک ڈاؤن کے دوران ایسی کیا فوری نوبت آگئی تھی وہ تو نیب ہی بتا سکتا ہے لیکن ماضی قریب کے کیسز کو اگر دیکھا جائے اور پھر جس طرح ان میں ملوث افراد کی ضمانتوں کے دوران دلائل اور عدالتی فیصلوں کو دیکھا جائے تو ان میں حزب اختلاف کو ہدف بنانے کو بہت واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

شہباز شریف نے جمعے کے روز پیش ہونے سے معذرت کرلی۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ نیب ان حالات میں کیا قدم اٹھاتی ہے۔ اگر شہباز شریف کو کرونا کے خلاف جنگ کے دوران گرفتار کیا جاتا ہے تو پھر یہ بات کھل کر سامنے آجائے گی کہ اس حکومت کے لیے صرف اپنے مخالفین کو کچلنا ہے سب سے بڑا مقصد ہے۔ کیونکہ ابھی تک حکومتی عمائدین کے خلاف نیب نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ اب لوگ 25 اپریل کا انتظار کر رہے ہیں کہ آٹے اور چینی کے بحران کی حتمی رپورٹ پر کیا کارروائی ہوتی ہے۔ وفاقی وزیر شیخ رشید پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ شاید 25 اپریل کو کوئی کارروائی نہ ہو۔ ابھی تک جو معلومات سامنے آئی ہیں ان میں ’کُھرا‘ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے نکل کر خود وزیر اعظم تک پہنچتا ہے۔

اس پوری صورت حال میں سب سے زیادہ مضحکہ خیز صورت حال وزیر اعظم کی طرف سے ڈی جی ایف آئی کو بھیجا گیا وہ حکم نامہ ہے جس میں انہیں اعلیٰ عدلیہ کے خلاف سوشل میڈیا پر منفی مہم چلانے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کو کہا گیا ہے۔

عدلیہ کے خلاف حالیہ مہم سپریم کورٹ  کی طرف سے کرونا از خود نوٹس کے بعد دیکھنے میں آئی تھی۔ کئی اطلاعات کے مطابق سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت کے بعد کابینہ کے کچھ اجلاسوں میں عدلیہ سے متعلق کچھ وزرا نے ہتک آمیز گفتگو کی تھی جو افشا ہو کر سامنے آئی تھی۔

اسی دوران ایسے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی طرف سے جو حکمران جماعت کے قریب سمجھے جاتے ہیں، عدلیہ کے خلاف ہتک آمیز گفتگو کی تھی۔ خدشہ یہ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے اگلی پیشی پر کہیں اس کا نوٹس نہ لیا جائے، کچھ حلقوں کے مطابق، حفظ ماتقدم کے طور پر وزیراعظم نے نہ صرف اپنے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کی سرزنش کی ہے بلکہ ایف آئی اے کو عدلیہ کے خلاف ہتک آمیز مہم کی تفتیش کا حکم بھی دیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اب تک حکمران جماعت کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی طرف سے صحافیوں سمیت معاشرے کے ہر اس طبقے کے خلاف مہم کی تو حوصلہ افزائی کی گئی جنہیں حکمران جماعت اپنا مخالف تصور کرتی ہے تو اب ایسی کیا نئی بات ہوئی ہے۔ قرائن بتاتے ہیں کہ اس کے پیچھے صرف یہ خطرہ موجود ہے کہ کہیں عدلیہ حکمران جماعت کے خلاف کوئی کارروائی نہ کر ڈالے۔

جو چیلنج اس ملک کو درپیش ہیں وہ صرف بہتر زمینی کارکردگی سے پورے ہوں گے۔ نہ یہ مخالفین کو دبانے سے پورے ہوں  گے، نہ رونے دھونے سے اور نہ میڈیا میں اپنی واہ واہ کروانے سے۔ یہ حربے فائدے کی بجائے نقصان پہنچائیں گے۔ نجات کا راستہ اتحاد، شفافیت اور جمہوری رویہ اپنانے میں ہے۔

About The Author