نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یہ اتفاق کی گھڑی ہے انتشار کی نہیں ۔۔۔ مرتضی سولنگی

ایسے وقت میں جب پورے ملک کو اس وبا کا مل کر مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے تمام قومی اداروں کو یکسوئی کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔

پچھلے ہفتے ہم نے سائڈ شوز کے خطرات اور نقصانات کا ذکر کیا تھا۔ اس ہفتے ان سائڈ شوز کی بہتات ہوگئی ہے۔ یہ خطرناک بات ہے۔ اس وقت جب پاکستان سمیت ساری دنیا زندگی اور موت کی لڑائی میں مصروف ہے تمام ہاتھ سٹیئرنگ وہیل پر ہونے چاہییں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ اپنی توانائیوں کو منتشر کرنے کی عیاشی کرلیں کیونکہ اس کی ایک بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔

پچھلے ہفتے تو صرف ٹائیگر فورس کی بحث اور آل پارٹیز کانفرنس میں حکومتی غیر سنجیدگی کا معاملہ تھا، اس دفعہ اس میں حکومتی صفوں میں انتشار نے معاملہ مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ یہ معاملہ اس لیے بھی زیادہ پریشان کن ہے کیونکہ ہر ہفتے کرونا (کورونا) سے متاثرین کی تعداد ضرب کے اعتبار سے بڑھ رہی ہے اور ہماری انتظامی اور معاشی مشینری اس کے برعکس کمزور ہوتی جا رہی ہے۔

پچھلے سنیچر کے روز ملک بھر میں مصدقہ متاثرین کی تعداد ڈھائی ہزار کے قریب تھی جبکہ آج یہ تعداد دوگنی کے قریب پہنچ چکی ہے۔ سب سے زیادہ پریشان کن صورت حال پنجاب کی ہے۔ پچھلے ہفتے جو ملک بھر کے متاثرین کی تعداد تھی وہ آج صرف پنجاب کی ہے۔ پنجاب ہی میں لاہور کیمپ جیل میں کچھ افراد کے کرونا سے متاثر ہونا اور ان کی منتقلی میں تاخیر، انتظامی نا اہلی کی بد ترین مثال ہے۔

ضرورت تو قومی اتفاق کی تھی لیکن وہ تو کجا اب تو حکمران جماعت کے اندر دال جوتیوں میں بٹنے کی نوبت آ گئی ہے۔ پچھلے سال دسمبر میں پہلے آٹے اور پھر چینی کے بحران کے نتیجے میں عمران خان نے ایک انکوائری کمیٹی فروری میں قائم کی تھی۔ مارچ میں اس کی رپورٹ آ گئی تھی لیکن وہ سامنے نہیں لائی جا رہی تھی۔ یہ رپورٹ ایف آئی اے نے مرتب کی تھی۔ پچھلے سنیچر کے روز، چار اپریل کی شام اس رپورٹ کی ایک کاپی کسی طرح صحافی محمد مالک کے ہاتھ لگ گئی اور انہوں نے اپنے ٹی وی چینل پر اس رپورٹ کے اہم مندرجات افشا کر دیے۔ اس کے بعد اس رپورٹ کی کاپیاں ہر اہم صحافی کی پاس پہنچ گئیں۔

جب یہ رپورٹ عام ہوگئی تو اس کے بعد عمران حکومت نے اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی۔ حکومتی ترجمانوں نے بجائے حکومتی نا اہلی اور سکینڈل کا دفاع کرنے کے، یہ کہنا شروع کردیا کہ دیکھیں یہ کیسی شفاف حکومت ہے کہ اس نے اپنے دور کے ایک سکینڈل کو خود ہی افشا بھی کردیا ہے اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی بھی کرنے جا رہی ہے۔ نہ صرف یہ کیا گیا بلکہ ایک سرکاری نوٹیفکیشن کی کاپی بھی سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی جس میں ایک روز قبل یعنی جمعہ تین اپریل کو خصوصی معاون شہزاد اکبر کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ اس رپورٹ کے مندرجات عوام کو بتائیں۔ لیکن یہ رپورٹ ٹی وی پر محمد مالک کی طرف سے اگلے روز شام چھ بجے کے قریب آ گئی اور اس کے دو گھنٹے بعد شہزاد اکبر نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اسے عام کیا۔

اگر حکومت کی نیت اس رپورٹ کو ظاہر کرنے کی ہوتی تو جمعے کے روز ہی اسی دھوم دھام سے کسی پریس کانفرنس میں اسے عام کیا جاتا لیکن یہ نہیں ہوا۔ جب یہ رپورٹ ٹی وی پر چل گئی اور اس کی کاپیاں صحافیوں کو وٹس ایپ اور ای میل کے ذریعے پہنچ گئیں تو اس کے بعد شہزاد اکبر کی طرف سے ٹوئٹر کے ذریعے اسے ظاہر کرنے کا مطلب صرف ڈیمیج کنٹرول یا نقصان کو کم کرنا ہی سمجھا جائے گا۔

اگلے روز عمران خان نے بھی اس کا کریڈٹ لینے کے لیے ٹویٹ کر ڈالی، لیکن ندیم افضل چن اور شیخ رشید نے ٹی وی انٹرویوز میں تسلیم کیا کہ یہ رپورٹس سرکاری طور پر جاری نہیں ہوئیں بلکہ ‘لیک’ ہوگئی ہیں۔

عمران خان نے تو اب فارنزک آڈٹ اور حتمی رپورٹ 25 اپریل کو لانے کی بات بھی کردی ہے لیکن اس معاملے پر تفتیشی صحافی جو مواد سامنے لائے ہیں وہ آٹا اور چینی رپورٹوں سے بہت زیادہ ہے اور تمام تر انگلیاں صرف جہانگیر ترین، خسرو بختیار اور مونس الٰہی کی طرف نہیں بلکہ عمران خان، عثمان بزدار، اسد عمر، رزاق داؤد اور پوری وفاقی کابینہ پر اٹھ رہی ہیں۔

رہی سہی کسر جہانگیر ترین کے اس انکشاف نے پوری کردی ہے کہ 2013  کے انتخابات کے بعد اگلے سال اگست 2014 میں اسلام آباد میں دھرنے اور حکومت گرانے کے لیے جو جواز گھڑا گیا تھا اس کا کوئی جواز سرے سے موجود ہی نہ تھا۔ جہانگیر ترین نے اب یہ بات کھل کر کردی ہے کہ ان کی جماعت یہ انتخابات بری طرح ہار گئی تھی کیونکہ ان کے بقول عمران خان نے با اثر سیاسی خاندانوں کو ٹکٹ نہیں دیے تھے۔

جہانگیر ترین نے تو یہ کہہ کر ‘تبدیلی پارٹی’ کی قلعی کھول دی کہ حالیہ انتخابات وہ اس لیے جیتے ہیں کہ عمران خان نے جہانگیر ترین کی بات مان کر روایتی سیاسی خاندانوں کو انتخابی ٹکٹ دیے جن کی اکثریت کو وہ پارٹی میں لے کر آئے تھے۔

ان رپورٹس کے آنے کے بعد وفاقی کابینہ میں کچھ ردوبدل بھی کی گئی ہے، لیکن وہ ردو بدل نمائشی نوعیت کی ہے۔ ماسوائے کابینہ کی تعداد بڑھانے کے اس میں کوئی نمایاں تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔

یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پوری قوم کو یکسوئی کے ساتھ کرونا کے خلاف لڑنے کی ضرورت ہے۔ پہلے معاملہ قوم کو متحد کرنے کا تھا۔ اب حکمران جماعت بھی متحد نہیں ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت  بڑی تعداد میں لوگوں کے ٹیسٹ کرنے، مثبت آئے ہوئے افراد کو الگ کرنے، ان کے قریبی لوگوں کو ٹیسٹ کرنے اور ہسپتالوں میں طبی عملے کی سہولیات اور آلات کو بہتر بنانے کی ہے۔

ایسے میں صوبوں کی طرف سے آوازیں آ رہی ہیں کہ وفاق کی طرف سے مطلوبہ تعاون انہیں میسر نہیں ہے۔ حالانکہ این ڈی ایم اے کے چیئرمین مختلف فورمز پر آلات کی صوبوں کو منتقلی کے اعداد و شمار دیتے ہوئے نظر آتے ہیں، پھر بھی شکایات مل رہی ہیں۔ باقی صوبے، جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، زیادہ کھل کر شکایت نہیں کی جا رہی لیکن سندھ جہاں پر صوبے کے وزیر اعلیٰ اس مہم میں آگے بڑھ چڑھ کر کام کر رہے ہیں، وہاں ٹیسٹنگ کٹس کی شکایت اب روز مرہ کا معمول بن رہی ہے۔

سندھ انتظامیہ کے مطابق انہیں حسب وعدہ ٹیسٹنگ کٹس نہیں مل رہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ دوسرے ممالک سے ان کٹس کی فراہمی میں بھی جو تعاون وفاقی اداروں کو کرنا چاہیے وہ انہیں مل نہیں رہا۔ یہ بہت ہی تشویش ناک بات ہے۔ نوزائیدہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کو اس معاملے کو ضرور دیکھنا چاہیے۔ سندھ کی انتظامیہ تو یہ شکایت بھی کر رہی ہے کہ وہ اپنی طرف سے جو ٹیسٹنگ کٹس دوسرے ملکوں سے منگوانا چاہتے ہیں اس میں بھی وفاقی حکومت تعاون نہیں کر رہی۔ اس وقت پی آئی اے کے اکثر جہاز مختلف ہوائی اڈوں پر کھڑے ہیں۔ انہیں یہ آلات منگوانے کے لیے کیوں استعمال نہیں کیا جاسکتا؟ ساتھ ہی پاکستان کی فضائیہ کے پاس سی۔ 130 ہرکیولیس سمیت کئی کارگو جہاز بھی موجود ہیں۔ اس لیے اس طرح کی شکایات سامنے آنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

اس وقت جب عوام کی اکثریت لاک ڈاؤن کی وجہ سے معاشی مشکلات کا شکار ہے، وفاقی حکومت کی طرف سے احساس پروگرام کا شروع کیا جانا اچھی بات ہے لیکن اس عمل کے دوران کئی جگہ بھگدڑ اور بد انتظامی کی خبریں بھی آئی ہیں۔ اس معاملے پر صوبائی اور ضلعی انتظامیہ کو چوکنا رہنا ہوگا۔ ایسا نہ ہو کہ لوگوں کی مدد کرنے کی بجائے ہم کرونا کے مزید پھیلانے کے مواقع فراہم کردیں۔

اس پورے عمل کے دوران سب سے زیادہ نقصان ایک مربوط اور مسقل مزاج بیانیہ نہ ہونے سے ہوگا۔ وزیر اعظم عمران خان مارچ کا پورا مہینہ یا تو اس ابھرتے ہوئے بحران سے لاتعلق رہے یا لاک ڈاؤن کے نقصانات گنواتے رہے۔ جب صوبوں نے اپنے طور پر لاک ڈاؤن کردیا تو بھی وہ غیر سائنسی اور سنی سنائی باتیں کرتے رہے مثال کے طور یہ اس وبا سے صرف بزرگ افراد نشانہ بنیں گے اور یہ بھی کہ گرمیاں آتے ہی یہ وبا ہمیں نقصان نہیں پہنچائے گی۔ بعد میں انہوں نے اس موقف کے الٹ موقف اختیار کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔

اب تعمیراتی شعبے کو رعایت اور ایمنیسٹی دینے کے بعد 14 اپریل کے بعد اس شعبے کو کھولنے باتیں کی جار رہی ہیں۔ لیکن اس معاملے پر کوئی واضح منصوبہ سامنے نہیں لایا گیا۔ مثال کے طور پر تعمیراتی کارکنوں کو کرونا سے بچانے کے کیا انتظامات ہوں گے؟ وہ کس طرح اپنے گھروں سے تعمیراتی مقامات تک پہنچیں گے؟ اس عمل میں سماجی دوری کو کیسے یقینی بنایا جائے گا؟ ان کارکنوں کے کھانے پینے کا کیا انتظام ہوگا؟

سندھ کی صوبائی انتظامیہ نے اس معاملے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور لاک ڈاؤن کو منگل 14 اپریل کے بعد کم از کم ایک ہفتہ مزید بڑھانے کی بات کی ہے۔ لیکن وفاقی حکومت کی طرف سے مختلف طرح کی آوازیں سننے کو مل رہی ہیں۔ اس وقت جب کرونا وائرس سے متاثر افراد کی بڑی تعداد میں اضافے کے امکانات ہیں، کسی قسم کی متضاد پیغام رسانی کے نتائج انتہائی بھیانک نکلیں گے۔ اگر بغیر سوچے سمجھے لاک ڈاؤن کھولا گیا تو اس سے اچانک کرونا مریضوں کی تعداد میں بڑا اضافہ ہوگا جسے ملک کا طبی شعبہ ہرگز سنبھال نہیں سکے گا۔

ایسے وقت میں جب پورے ملک کو اس وبا کا مل کر مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے تمام قومی اداروں کو یکسوئی کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔ کل، دس اپریل کو، سپریم کورٹ کی طرف سے کرونا کے مسئلے پر از خود نوٹس لیا جانا بہت پریشان کن ہے۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اعلیٰ اہلکاروں کو طلب کیا ہے۔

 ہم افتخار چوہدری اور ثاقب نثار کے دور میں از خود نوٹسز کے سیلاب سے آشنا ہیں۔ یقینی طور پر عدالت عظمیٰ آئین اور قانون میں دیے گئے اختیارات کے تحت انتظامیہ سے باز پرس کر سکتی ہے لیکن انتظامی اختیارات میں کسی قسم کی بے جا مداخلت نقصان دہ ثابت ہوگی۔ موجودہ بحران کے دوران انتظامی عملہ اگر اپنے آپ کو ہراساں محسوس کرے گا تواس کے انتہائی تباہ کن نتائج نکلیں گے۔

About The Author