ویکسین کیسے کام کرتی ہے، یہ سب جانتے ہیں۔ ایک بیماری کی ویکسین ایک سے زیادہ طرح بنائی جاسکتی ہے۔ کرونا وائرس کی دس سے زیادہ ویکسینز پر کام جاری ہے۔ لیکن اگر آج کامیابی مل جائے، تب بھی ایک سال سے پہلے اس کا عوام کو ملنا مشکل ہے۔
ماہرین صحت کہتے ہیں کہ ہر دوا اور ویکسین کے کچھ نہ کچھ سائیڈ افیکٹس ہوتے ہیں۔ معمولی سی دوا بھی کوئی اور اثر ضرور رکھتی ہے۔ جب تک ماہرین اس پر تجربات کرکے تمام اثرات کا جائزہ نہ لے لیں، کسی کو وہ دوا تجویز نہیں کرسکتے۔
ہر ملک کی ڈرگ اتھارٹی نئی بلکہ پرانی دواؤں پر بھی نظر رکھتی ہے۔ جیسے ہی کسی دوا کے ناخوشگوار اثرات کا علم ہوتا ہے، اس کی فروخت روک دیتی ہے۔ ابھی چند دن پہلے امریکہ میں زینٹیک پر پابندی لگائی گئی ہے۔
کوئی ویکسین تجربہ شروع ہونے کے بعد فوری طور پر مارکیٹ نہیں کی جاسکتی۔ ممکن ہے کہ آج کسی شخص کو ویکسین دی ہو اور وہ وبا سے بچ جائے لیکن چند ہفتوں بعد کسی اور مہلک بیماری یا آرگن فیلیئر کا شکار ہوجائے۔ اس لیے ماہرین کئی ماہ تک ویکسین کے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں۔
پہلا تجربہ کامیاب ہوجائے، جو ظاہر ہے کہ کسی ایک دو مقامات پر کیا جاتا ہے تو پھر اسے مختلف عمر اور نسل کے لوگوں پر آزمایا جاتا ہے۔ جب تک دوا ہر شخص کے لیے محفوظ نہ ہو، تب تک اس کی منظوری نہیں دی جاتی۔
بعض دواؤں کے منفی اثرات معلوم ہونے کے باوجود انھیں مارکیٹ کیا جاتا ہے اور صرف نسخے پر فروخت کی جاتی ہیں۔ ڈاکٹر مریضوں کی جان یا بڑے نقصان سے بچانے کے لیے ایسی دوا تجویز کرتے ہیں۔ لیکن ویکسین کے لیے کوئی خطرہ مول نہیں لیا جاتا کیونکہ یہ ہر شخص کو فراہم کی جاتی ہے۔
پہلا تجربہ کامیاب ہوجائے، جو ظاہر ہے کہ کسی ایک دو مقامات پر کیا جاتا ہے تو پھر اسے مختلف عمر اور نسل کے لوگوں پر آزمایا جاتا ہے
اے وی پڑھو
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ
فیمینسٹ!!!۔۔۔۔۔|| ذلفی