ہندوستان پاکستان کی ہزاروں سال پر پھیلی تاریخ وہ کچھ نہ سیکھا سکی جو ان پچھلے دو ہفتوں میں سیکھا اور جانا ہے کہ اس خطے کے ساتھ ایسا کیاہے کہ دنیا کا امیر ترین خطہ ہو کر بھی دنیا کی بدترین غربت اور جہالت کے مظاہرے یہیں ملتے ہیں۔
اگر آپ اس قدیم خطے کی بدقسمتی اور ہزاروں سالہ غلامی کی وجوہات جاننا چاہتے ہیں تو آج کل جو رویہ آپ کو کورونا وائرس پر نظر آرہا ہے وہ دیکھ لیں۔ ذرا یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ یہ اکیسویں صدی کا انسان ہے جو یہ حرکتیں کررہا ہے۔ ذرا تصور کریں دو تین ہزار سال پہلے کے انسان کا کیا ردِعمل ہوتا ہوگا۔ ہزاروں سال چھوڑیں چند صدیاں بھی پیچھے جائیں تو تصور کریں وہ کہاں کھڑے تھے۔میرا اشارہ کورونا کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کی طرف ہے۔ ہندوستان میں ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں ہندوستانی ڈاکٹرز اور ہیلتھ ورکرز پر لوگوں نے اس وقت حملہ کر دیا اور انہیں مارا جب وہ ایک محلے میں گئے جہاں یہ رپورٹ ہوا تھا کہ شاید وہاں کورونا وائرس کے مریض ہیں۔ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ کچھ لوگ اپنی جان پر کھیل کر آپ اور آپ کے بچوں کو بچانے آرہے ہیں اور آپ اُلٹا ان پر حملہ کر دیتے ہیں۔
اس طرح کی صورتحال پاکستان میں بنی رہی اور آج بھی ہے کہ پولیو ورکرز کو گولیوں سے بھون دیا گیا‘ جن میں خواتین ورکرز بھی شامل تھیں۔ اندازہ کریں‘ کچھ لوگ آپ کی نسلوں کو مستقل معذوری سے بچانے کیلئے اپنی زندگیوں دائو پر لگائے ہوئے ہیں اور آپ ان کا پھولوں کے بجائے گولیوں سے استقبال کررہے ہیں۔ وہ آپ کے بچوں کو بچانے آرہے ہیں اور آپ ان کے بچوں کو باپ اور ماں سے محروم کررہے ہیں۔ اور سن لیں لیہ شہر میں چند تبلیغیوں نے ایک ایس ایچ او کو خنجر مار کر زخمی کر دیا کہ وہ انہیں روک رہا تھا کہ آپ لوگ ابھی اپنے گھروں کو نہ جائیں‘ کچھ دن جہاں ہیں وہیں رک جائیں۔ وہ وہاں سے زبردستی نکلے اورایس ایچ او ان کو مہلک بیماری سے بچانے کے چکر میں خود خنجر کھا کر ہسپتال میں جا لیٹا۔
ایک اور ویڈیو دیکھی جس میں یہ ہمارے تبلیغی بھائی ایک ٹرک میں چھپ کر جارہے تھے اور پولیس نے برآمد کر لیا۔
اس وقت سب کی ہمدردیاں ان لوگوں کے ساتھ ہیں اور پولیس کو منع کر دیا گیا ہے کہ کسی کو کچھ نہ کہیں۔ کیا
اس طرح یہ لوگ محفوظ ہوگئے ہیں؟ کیا ان لوگوں کو کوئی نہیں سمجھا سکتا کہ جو بھی ریاست یا پولیس کہہ یا کررہی ہے وہ انہی لوگوں کے بھلے کیلئے ہے۔جہاں جہاں یہ لوگ سفر کرتے گئے وہاں وائرس پھیلنے کا خطرہ پھیلتا گیا۔ دوسروں کو چھوڑیں‘ وہ جئیں یا مریں‘ آپ کو اتنی سی خبر بھی نہیں کہ جب اپنے گھر پہنچیں گے تو اپنے پیاروں کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہوں گے۔ بچے تک آپ سے محفوظ نہیں ہوں گے‘ رشتہ داروں اور محلے داروں کی باری تواس کے بعد آئے گی۔
اس طرح ہم نے دیکھا کہ ایران کے بارڈر پر بھی یہی کچھ ہوا جب بہت سے افراد کو بغیر ٹیسٹ اور کورنٹین کرائے ان کے گھروں کو روانہ کر دیا گیا۔ اب جب اس پر سوال اُٹھے تو سب ناراض ہوگئے کہ ان لوگوں کو ہدف بنایا جارہا ہے۔ یہاں پھر وہی مائنڈ سیٹ سامنے آیا‘کیا انہیں کوئی سمجھانے والا نہیں کہ جناب جو آپ کو وہاں سے چپکے چپکے کلیئر کرا رہے ہیں وہ آپ کے دوست نہیں دشمن ہیں۔ وہ آپ کے بچوں کے دشمن ہیں۔ جب آپ لوگ اس بیماری کے ساتھ گھر جائیں گے تو اندازہ ہے کہ آپ اپنے خاندان کے ساتھ کیا ظلم کررہے ہوں گے؟یقین کریں میں ایسے ایسے لوگوں کی پوسٹس پڑھ کر حیران ہوا جنہیں میں پڑھا لکھا سمجھتا تھا۔ وہ اس بات پر برس رہے تھے کہ ایران سے آنے والے افراد کو بغیر ٹیسٹ اور کورنٹین گھر بھیجنے پر کیوں اعتراض کیا جارہا ہے ؟
اس کورونا مسئلے کو آخرکار ایران اور سعودی عرب میں تقسیم کر دیا گیا۔ رہی سہی کسر ہمارے تبلیغی جماعت کے بھائیوں نے پوری کر دی اور اب پوری قوم ان کے ساتھ کھڑی ہوگئی ہے۔
چلیں انہیں چھوڑیں آپ نے کراچی میں دیکھا کیسے جگہ جگہ جمعہ کے اجتماعات ہورہے تھے۔ ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پولیس جب جمعہ کے روز مسجد گئی اور وہاں روکنے کی کوشش کی تو نمازیوں نے پولیس پر حملہ کردیا اور پولیس والے بھاگ گئے۔
ایک ماہ سے زائد ہوگیا ہے ‘ابھی یہ بحث جاری ہے کہ نمازِ جمعہ گھر پڑھنا ہے یا مسجد جا کر۔ٹی وی چینلز دن رات اس پر بحث کراتے رہے اور ابھی دو دن پہلے کے جمعہ تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوا تھا اور کراچی میں پولیس کو نمازیوں نے مارا‘ وہ بھول گئے کہ اس وقت کعبہ تک بند ہیں ‘تاکہ انسانی جانیں بچائی جا سکیں۔ مسلمانوں کو تلقین کی گئی ہے کہ اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ پھر یہ بھی کہا گیا کہ جان بچانے کے لیے حرام چیز بھی کھا سکتے ہیں۔ لیکن اس ملک میں ایک ماہ سے یہ فیصلہ نہیں ہو پایا کہ جمعہ مسجد میں ہوگا یا گھر میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔ یہی لوگ بھول گئے ہیں کہ جب ہمارے آخری نبیﷺ پر حملے کا منصوبہ بنا اور انہیں پتہ چلا کہ ان کی جان خطرے میں ہے تو وہ حضرت علیؓ کو اپنے بستر پر سلا کر خود ہجرت کر گئے۔ لیکن ہمارے ہاں آپ دیکھیں ان تعلیمات کے برعکس پولیس پر حملے کیے جارہے ہیں کہ وہ کیوں ان لوگوں کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے اور سب سے بڑھ کر ان کے خاندان کا فائدہ دیکھنے کی کیوں کوشش کر رہی ہے۔ان کا اعتقاد یہاں تک محدود ہوگیا ہے کہ وہ خودکشی پر خود تو تیار ہیں ہی‘ لیکن اپنے ساتھ وہ اپنے گھر‘ بچوں‘ محلے داروں اور پورے معاشرے کو بھی ڈبونا چاہتے ہیں اور بڑی تعداد میں ان کے ہمدرد کہتے ہیں کہ انہیں کچھ نہ کہا جائے چاہے پورے ملک میں وبا پھیل جائے اور خدانخواستہ ہزاروں مارے جائیں۔
اب آپ ہندوستان اور پاکستان میں ہونے والے ان تین چار واقعات کو ملا کر دیکھیں اور بتائیں کہ ان کی ذہن میں کیا شکل ابھرتی ہے کہ اس خطے کے لوگ ایک تہذیب یافتہ دنیا سے کتنے دور ہیں۔ہندوستان میں لوگ ڈاکٹروں اور ہیلتھ ورکرز پر حملے کررہے ہیں اور پاکستان میں لوگ پولیس پر حملے کررہے ہیں۔ہندوستان میں تو آج کل ایک اور بھی کام ہورہا ہے کہ مودی اور بی جے پی ہر سائنسی ایجاد پر یہ فرمارہے ہیں کہ ہندوستان میں تو ہزاروں برس پہلے یہ ٹیکنالوجی موجود تھی بلکہ قدیم ہندوستانی اسے استعمال بھی کررہے تھے۔ اور مزے کی بات ہے کہ لوگ وہاں یہ یقین بھی کیے بیٹھے ہیں کہ آج جو بھی ماڈرن سائنس نظر آرہی وہ تو قدیم دور سے ہی ہندوستان میں موجود تھی۔ پھر کیسے ہزاروں سال سے غیرملکی حملہ آور اس خطے پر حملے کرتے اور اس پر قبضہ کرتے آئے تھے؟ جس خطے کے پاس ٹیکنالوجی اور عقل ہو تو وہ دوسری قوموں پر حکمرانی کرتے ہیں وہ محکوم زندگی نہیں گزارتے۔
مجھے پاکستان میں یہ سب دیکھ کر سر سید احمد خان کی تکلیف سمجھ آرہی ہے‘ جب وہ مسلمانوں کو سمجھانے کی کوشش کررہے تھے کہ انگریزی تعلیم ان کے لیے کتنی ضروری ہے۔ انہوں نے بھی ان سے گالیاں کھائیں اور الزامات سہے۔ ویسے ایک بات طے ہے کہ بیرونی حملہ آوروں نے ہندوستان کے مزاج کو درست سمجھا اورڈنڈے کے ذریعے وہ وہ واہیات رسمیں ختم کرائیں جو ہزاروں سال سے رائج تھیں اور مسلمان حکمران ہزار سال تک حکمرانی کرنے کے باوجود جنہیں ختم نہ کراسکے تھے۔ایک ستی کی رسم تھی جس میں خاتون کو اپنے مرد کی موت پر اس کے ساتھ آگ میں جلنا پڑتا تھا۔ اللہ بھلا کرے سر چارلس نیپئر کا جنہوں نے یہ رسم ختم کرائی اور کہا کہ اگر کسی نے خاتون کو جلایا تو شمشان گھاٹ پر ایک پھانسی گھاٹ بھی ہوگا جہاں جلانے والوں کو لٹکا دیا جائے گا۔ دوسرا گوروں نے ٹھگوں کوختم کیا۔اب آپ کو اندازہ ہو جانا چاہیے کہ اس خطے پر بیرونی قوموں نے کیسے اتنی طویل حکمرانی کی اور سات دریائوں کی یہ دھرتی ‘جسے دنیا سنہری چڑیا کے نام سے جانتی تھی‘ آج تک غربت اور جاہلیت میں غرق ہے۔
اب سمجھ میں آیا وہ غیرملکی حملہ آور قومیں اتنی قابل اور ذہین نہیں تھیں‘ بلکہ ہم ہی شروع دن سے ایسے ہی پس ماندہ اور کند ذہن تھے جیسے آج ہیں۔
اس طرح کی صورتحال پاکستان میں بنی رہی اور آج بھی ہے کہ پولیو ورکرز کو گولیوں سے بھون دیا گیا‘ جن میں خواتین ورکرز بھی شامل تھیں
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ